’’اوورکوٹ‘‘ غلام عباس کا وہ افسانہ ہے جس کا تذکرہ کیے بغیر اردوادب سے سرسری طورپر بھی نہیں گزراجاسکتا۔ ہم سب نے یہ افسانہ پڑھا ہوا ہے۔ اکثر نے کورس کی کتاب میں اور بہت سوں نے اپنے شوق سے۔ اس میں لاہور کی مال روڈ پر ایک خوش پوش شخص شام کو مٹرگشت کرتا ہے۔ اس نے دیدہ زیب اوورکوٹ پہنا ہوا ہے ۔ گلے میں سکارف باندھا ہوا ہے۔ پالش کیے ہوئے جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ وہ اپر کلاس کا فرد لگتا ہے۔ لیکن اس کی موت کے بعد راز کھلتا ہے کہ اس کے اوور کوٹ کے نیچے قمیض ہی نہیں تھی اورجیب سے فقط چند سکے نکلتے ہیں یا وہ اشتہار جو مارکیٹنگ کرنے والے اسے تھماتے رہے۔
ظفر اقبال نے اس پوری صورت حال کو ایک شعر میں بیان کردیا ہے ؎
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر ظفرؔ
سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں
رمضان کے اس مہینے پر ہم پاکستانی اپنے طرز عمل پر غور کریں تو ہمارا حال وہی ہے جو اوورکوٹ میں ملبوس بظاہر خوش پوش شخص کا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اوورکوٹ کے نیچے ہم نے ایک پھٹی پرانی بدبودار بنیان پہن رکھی ہے۔ ہمارے جوتے پالش سے چمک رہے ہیں لیکن جرابوں کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں‘ پنجوں میں سوراخ ہیں اور جرابیں پائوں سے اتار کر رکھیں تو ماحول تعفن سے بھر جائے۔ ٹوپی کے نیچے بال میل اور جوئوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ بدن پر میل کی تہیں ہیں۔ ہم کثافت اور غلاظت کا گٹھڑ ہیں!
ہم سحری کھاکر صبح کی نماز ادا کرتے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ تراویح ادا کرتے ہیں۔ تسبیحات پڑھتے ہیں۔ دیگیں پکاکر کھانے تقسیم کرتے ہیں۔ ہم میں ایک کثیر تعداد ایسے خوش قسمت لوگوں کی ہے جو متشرع شکلیں رکھتے ہیں۔ شلواریں ٹخنوں سے اونچی ہیں۔ خواتین بڑی تعداد میں حجاب اور سکارف اوڑھتی ہیں۔ ہم مسجدوں اور مدرسوں میں چندے دیتے ہیں۔ نمازنہ پڑھنے والوں اور روزہ نہ رکھنے والوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ان پر نفرین بھیجتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم اس قبیل کے نہیں ہیں۔
لیکن ہماری ساری دینداری یہیں تک ہے۔ مذہب ہمارے حلق سے باہر باہر ہے‘ اندر نہیں اترا۔ اندر کیا ہے ؟ تعفن ، بدبو، چیتھڑے اور میل کی تہیں !المیے کی انتہا یہ ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم پرلے درجے کے منافق ہیں !
ہم میں وہ ساری برائیاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں جنہیں رذائل کا نام دیا جاتا ہے۔ افسوس ! یہ رذائل رمضان میں زیادہ تو ہوجاتے ہیں، کم نہیں ہوتے۔ پاکستان جھوٹ بولنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ ہم وعدہ خلافی کے بادشاہ ہیں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر، خدا کو حاضروناظر جان کر، قرآن پاک کی قسم کھاکر، اپنے آپ سے پوچھیے کہ کیا پاکستان میں جھوٹ اور وعدہ خلافی کو برا سمجھا جاتا ہے ؟ نہیں، بالکل نہیں ! جوشخص آپ سے طے کرتا ہے کہ شام پانچ بجے آپ کے پاس پہنچ جائے گا یا مطلوبہ شے پہنچا دے گا، وہ وعدہ پورا نہیں کرتا اور اسے اس کا افسوس بھی نہیں ہوتا۔ آپ اس سے خودرابطہ کرتے ہیں تو وہ نہ آنے یا پہنچانے کاسبب تک نہیں بتاتا۔ معافی مانگنی تو دور کی بات ہے وہ دھڑلے سے ایک اور وعدہ کردیتا ہے کہ بس جی ، آج شام آئوں گا یا شے پہنچا دوں گا۔
جس مقدس ہستی ؐ کے عشق کا ہم رات دن اٹھتے بیٹھتے دعویٰ کرتے ہیں‘ اس نے فرمایا تھا کہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور امین بنایا جائے تو خیانت کرتا ہے۔ ہم پر ان تینوں نشانیوں کا مکمل اطلاق ہوتا ہے۔ رمضان میں قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں اور بڑھانے والے سارے روزہ دار اور نمازی ہیں۔ ملاوٹ اسی طرح جاری رہتی ہے ۔ لوگوں کے پیٹ میں ملاوٹ شدہ زہریلی غذائیں جارہی ہیں۔ دوائیں جعلی ہیں، معصوم بچوں کا دودھ ناخالص ہے اور مسجدیں بھری ہوئی ہیں۔ سحری کے وقت باورچی خانوں اور کمروں کے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہب کو روپیہ کمانے کے لیے خوب خوب استعمال کیا جاتا ہے اور بے شرمی کی حدتک کیا جاتا ہے، دین فروش نام نہاد ملااور پیروں فقیروں کو چھوڑیے معاملہ اس سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔مذہب کو جس طرح روپیہ کمانے اور ریٹنگ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، اس پر عالم بالا میں فرشتے حالت اضطراب میں ہیں، پر پھڑ پھڑا رہے ہیں جیسے بس حکم کی دیر ہے اور وہ بستیوں کی بستیاں الٹ دیں گے۔ سرشام دکانیں کھل جاتی ہیں مرزا ظاہرداربیگ آکر کائونٹر سنبھال لیتے ہیں۔ صداکار اور اداکار اسلام کے علم بردار بن جاتے ہیں کیمروں
کی تیز روشنیوں میں روروکردعائیں مانگی جاتی ہیں اور جسم تھر کا تھرکا کر ، اور ہاتھ نچا نچا کر (نعوذباللہ ) حمدونعت پڑھی جاتی ہیں۔ بہروپ بدل گئے لیکن اداکار وہی ہیں پہلے بھی شوبزنس تھا اور معاوضوں کے انبار تھے۔ اب بھی شو بزنس ہے اور معاوضوں کے انبار ہیں۔ فقط یہ ہے کہ پہلے وضع قطع ماڈرن تھی اور ملبوس مغربی تھا۔ اب وضع قطع راہبانہ ہے اور لبادہ مذہبی ہے۔ مذاق یہ ہے کہ جس گروہ کے واعظوں نے سینکڑوں گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ تڑوائے اور ہزاروں بکوائے اسی گروہ کے علم بردار ٹیلی ویژن سکرین پر رات دن قابض ہیں ؎
تمہاری زلف میں آئی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
یوں لگتا ہے کہ دنیا میں نفاق ہی ہمارا نشان امتیاز ہے۔ حکمران بھی اس نسبت سے میسر آئے ہیں۔ پنجاب کا شہزادہ سستا بازار دیکھنے آتا ہے تو ہیلی کاپٹر سے اتر کر دودرجن گاڑیوں کے جلومیں جلوہ افروز ہوتا ہے‘ سابق وزیراعظم کہتا ہے مجھے زندگی کے آخری سانس تک استثنا حاصل ہے اور کسی جرم کی سزا دی جاسکتی ہے نہ بازپرس ہوسکتی ہے۔ پچاس پچاس افراد ہر روز موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں اور حکمران اپنی نقل وحرکت کے لیے شاہراہوں پر ٹریفک رکوارہے ہیں۔ اتحاد ایمان اور تنظیم کا تو بس نام ہے اصل اصول نفاق ہے ۔