یہ امام بارگاہ اندرون بھاٹی گیٹ میں فقیر خانہ میوزم کے پاس ہے. اس عالیشان امام بارگاہ کا نام سید مراتب علی کی زوجہ کے نام پر ہے. سید مراتب علی تقسیم سے قبل مسلمانوں میں سے نمائندہ کاروباری شحصیت تھے. آپ برطانوی فوج اور برٹش ریلوے کے سپلائر تھے. سیدہ مبارک بیگم کا تعلق بھی اعلی خاندان سے ہے, آپ معروف فقیر خاندان سے تعلق رکھتی ہیں. آپ سید افتحار الدین کی صاحبزادی ہیں.سید مراتب علی کو ” سر ” کا خطاب بھی ملا. سید مراتب علی کے تینوں صاحبزادوں نے شہرت پائ. سید بابر علی جو کہ معروف بزنس مین ہیں اور عبوری حکومت میں وزیر خانہ بھی رہے.
سید واجد علی جو کہ پاکستان میں ٹیلی ویژن لے کر آے اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے طویل معدت تک صدر رہے. سید امجد علی جو کہ پاکستان کے امریکہ میں سفیر بھی رہے اور 1955 تا 1958 وزیر خانہ کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں. بقول سید بابر علی اس امام بارگاہ کے لیے انہوں نے 1940 میں زمین لی. سید بابر علی جو کہ کامیابی سے پیکجز لمیڈیڈ چلا رہا ہیں فلاح عامہ پر خاصی رقم خرچ کرتے ہیں. سید بابر علی کو ادب سے بھی لگاو ہے اور انہوں نے عظیم صوفی شعراء کا کلام صحت الفاظ سے چھاپ کر ان کے کلام کو محفوظ کردیا. حکیم احمد شجاع نے ذکر کیا ہے ” سیدہ مبارک بیگم کے امام باڑہ کے ساتھ فقیر سید افتحار الدین کی حویلی بھی ہے”. یہ امام بارگاہ کافی وسیع اور شاندار ہے. سید بابر علی نے اس عمارت کی حفاظت کے لیے بہت کام کروایا ہے.
امام بارگاہ میں نقش سکول آف آرٹ بھی ہے. جہاں پر فن خطاطی اور مصوری اور آرٹ سے متعلق دیگر فنون کی تعلیم دی جاتی ہے. کچھ عرصہ قبل ہم جب امام بارگاہ گے تب وہاں لاہور بینالے فاونڈیشن(LBF) نے فن پاروں کی نمائش لگا رکھی تھی. امام بارگاہ کے شروع میں سیدہ مبارک بیگم اور سید مراتب علی شاہ کی قبریں ہیں. ایک کمرہ بند نظر آیا تو باہر کھڑے نگران سے گزارش کی اسے کھول دیں انہوں نے ناصرف محبت سے کمرہ کھول دی بلکہ کافی دلچسپ باتیں بھی بتائیں. وہ صاحب اسکردو کے تھے. انہوں نے بتایا کہ سید بابر صاحب اس حویلی سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے ہیں. امام بارگاہ میں قدیم ثقافتی طرز تعمیر کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں. اگر آپ کو تقسیم سے قبل کے رہن سہن, اور طور طریقوں کو زندہ دیکھنا ہو تو یہ امام بارگاہ آپ کی منتظر ہے.