محرم الحرام جو کہ اسلامی ھجری تاریخ کا پہلا مہینہ کہلاتا ہے گرچہ تاریخ اسلامی کے مختلف سے سانحات سے پر ہے پر جس سانحہ کو امت اب تک یاد رکھئے ہوئے ہے جسے کربناک حادثہ کہہ سکتے ہیں وہ ہے سانحہ کربلا کربلا سانحہ میں امت مسلمہ اب افراط تفریق کی شکار ہوگئی ہے کیوں کہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی کچھ لوگ اس عظیم حادثہ سے اس قدر غلو کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات ایک عجیب تصور محسوس ہوتا ہے دوسرا طبقہ اس زمانے کے اموی حاکم شام یزید کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی سعی لا حاصل کرنے کے لئے مختلف توجیہات کرلینے کو ہی عین اسلام کہتا ہے تیسرا طبقہ اعتدال کی راہ کو اختیار کرکے بچنے کی سعی کرنے میں مگن ہے میرے لئے تینوں حضرات برابر کے خطا کار ہیں اول غلو کرنا اور فضول رسم و رواج کو پروان چڑھانا اسلام کی بنیادی تعلیم سے متصادم ہے اس لئے ایسی رسوم و رواج سے بچنا لازم ہے یزید کو ہر صورت نیک پاک باز جیسا ثابت کرنا بھی کوئی عین اسلامی تقاضا نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں کسی بھی دور میں علماء امت کے درمیان اتفاق ہوا ہی نہیں اس لئے سعی لاحاصل کرنا ہی عبث ہے تیسرے طبقہ کی خاموشی کا درس دینا بہتر اقدام تب ہوسکتا ہے جب وہ ساتھ ساتھ اس سلسلے میں آگاہی کا فریضہ بھی انجام دے کہ امام حسین رضی اللہ تعالی کا مقصد کیا تھا جس سبب سے وہ شھادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے بہتر ہے کہ مقصد کو فوت نہ ہونے دیا جائے اور اس مقصد کی نگہبانی کی جائے جس کے پانے کے لئے امام حسین رضی اللہ تعالی کربلا کے میدان میں پانی کو ترسائے گئے اور ظلم و ستم کی وہ داستان رقم ہوتی گئی جسے پڑھ کر یا سن کر اب بھی اہل دل تڑپ جاتے ہیں اور رہتی دنیا تک ایسا ہی ہوتا رہے گا یہ سن کر یا جان کر اہل ایمان ہی نہیں بلکہ مغربی مصنفین کے بھی دل دہل اٹھے کہ مسلمانوں نے ایک ایسا زمانہ پرشعوب بھی پایا ہے جب انہوں نے از خود نعرہ تکبیر کے ساتھ خانوادہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو شھید کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کیا اور ان پر پانی بند کرنے کے ساتھ ساتھ ظلم و جبر کی وہ تاریک ترین تاریخ رقم کی جو تا قیامت ان کے ماتھے پر شرمندگی کا داغ بنا رہے گا اور اس حقیقت سے فرار ممکن ہی نہیں کہ وہ سب قاتل خود کو اہل ایمان میں ہی شمار کیا کرتے تھے
مقصد عظیم
امام حسین رضی اللہ تعالی نے مدینہ میں بیعت یزید سے انکار کیا یہ تنہا امام حسین رضی اللہ تعالی نہ تھے بلکہ ان سے وابستہ کئی اور اصحاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے جن میں سب سے مشہور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی ہوئے اب ایک سلسلہ شروع ہوگیا اہل کوفہ نے سن کر امام حسین رضی اللہ تعالی کو آمادہ سفر عراق کے لئے مخلتف خطوط لکھے امام حسین رضی اللہ تعالی جس مرتبہ کے عظیم انسان تھے اسی قدر محبت و مروت میں بھی اپنی مثال نہیں رکھتے تھے اسی لئے اہل مدینہ سے لیکر اہل مکہ کی محترم شخصیات کے سمجھانے اور التجاؤں کے باوجود انہوں نے اپنا عزم سفر منسوخ نہیں کیا بلکہ عازم سفر ہوکر رہے یہ سفر کیوں کیا غور کرنے کی اشد ضرورت ہے امام حسین رضی اللہ تعالی اس نظریہ کے دفاع کے لئے میدان عمل میں نکلے تھے جو نظریہ انہوں نے آج تک سمجھا تھا تصور خلافت کا وہ مزاج جسے ان کے نانا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے پروان چڑھایا تھا یزید کوئی فاسق یا کافر نہیں تھا بلکہ وہ منہاج خلافت کو سبوتاژ کرنے والا اور ملوکیت کو پروان چڑھانے والا اول صاحب تھا خلافت وہ تھی جہاں امت کے لئے نرم گوشہ پایا جاتا تھا ملوکیت وہ جہاں امت مسلمہ کو ذبح کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی
بقول محی الدین غازی جو کہ ماہ نامہ زندگی نو کے مدیر اعلی ہونے کے ساتھ ساتھ جانے مانے صاحب علم ہیں اور مختلف کتابوں کے مصنف
امام حسین نے یزید کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا، اس کے خلاف اٹھے اور اس کے حکم پر شہید کئے گئے، یہ ناقابل انکار حقیقت ہے، تاہم حسین یزید کے خلاف اس لئے نہیں اٹھے تھے کہ وہ اسے کافر سمجھتے تھے، اور نہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ اسے فاسق سمجھتے تھے۔ وہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ یزید کو غاصب اور ظالم سمجھتے تھے۔۔۔
یزید نے حسین کا حق غصب کیا تھا نہ حسین کے خاندان کا حق غصب کیا تھا، اس نے امت کا حق غصب کیا تھا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک امت کو اپنے اس حق تک رسائی ملی تھی کہ وہ اپنا حاکم خود منتخب کرے۔ اس وقت کی پوری انسانی دنیا میں یہ ایک دھندلے خواب سے زیادہ نہیں تھا۔ یزید نے امت سے یہ حق چھین کر اسے ایک بہت بڑے امیتاز سے محروم کردیا۔ شورائی نظام کے ذریعہ بہترین اور صالح ترین فرد کا انتخاب، اور پھر خدا ترسی کے ساتھ ملک کا انتظام وانصرام چلانا اس امت کا عظیم امتیاز تھا جس سے وہ راتوں رات یکسر محروم کردی گئی اور نہ جانے کتنے ہزار سال کے لئے محروم کردی گئی
جس کا خمیازہ پھر امت مسلمہ کو برابر چکانا پڑا ایک ہی جگہ امت مسلمہ کبھی جمع نہ ہوسکی کوئی بھی حکومت پھر ٹھر نہ سکی اور امت مسلمہ خون میں نہاتی گئی کس قدر دلخراش مناظر تھے وہ جو اس سانحہ کے بعد پیدا ہوئے کہ جو امت آپسی محبت عقیدت احترام بھائی چارے کے لئے اپنی نظیر نہ رکھتی تھی وہ اب نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے اپنے ہی کلمہ گو مسلمانوں کے شہر و دیہات میں تباہی و بربادی کے لئے دوڑ لگا رہی تھی پر اس خون ریزی کا تتمہ وہی ملوکیت تھی جس کی بنیاد یزید نے رکھی تھی
یہ کیسا سانحہ ہے کہ کبھی جس مسلم دنیا میں انسانی تاریخ کا سب سے مثالی سیاسی نظام قائم ہوا تھا، آج اس مسلم دنیا کی سیاسی اصلاح بالکل ناقابل علاج بنتئی جارہی تھی، کل جو ہر طرح سے بہترین امت تھی آج سیاسی پسماندگی اور سیاسی بگاڑ اس کا حتمی مقدر بنتی جارہی تھی، یہ تبدیلی کب آئی یہ شرمناک تبدیلی اس وقت آئی جب یزید نے اپنی عسکری طاقت کے بل پر اسلامی امت کو اس کے عظیم امتیاز یعنی نظام خلافت وشورائیت سے محروم کردیا، اور اسے نظام ظلم وجبر کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، امت کی سیاسی پسماندگی کو کوئی دور نہیں کرسکا امت کتنی بلندی سے کتنی پستی پر گرادی گئی اس کا اندازہ لگانا کسی تاریخ اسلامی سے واقف طالب علم کے لئے کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ امت مسلمہ پر کیا کیا قیامتیں نہ توڑی گئیں کہ تاریخ کے خونی ابواب پھر بنتے گئے ورنہ دنیا جانتی ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی کی شہادت جب ہوئی اول بلوائیوں نے جب حملہ کیا تو خلیفہ راشد نے کسی خون ریزی کا حکم دینے کے بجائے شہادت کو قبول کیا اور امت اس وقت ایک بہت بڑی تفریق سے بچ گئی امت کو ایسے ہولناک نظام ظلم سے بچانے کے لئے ( جو شہادت کے بعد آیا) اگر حسین کھڑے نہ ہوتے تو کون کھڑا ہوتا، اور حسین شہادت نہ دیتے تو کون دیتا۔ حسین نے قیامت تک کے لئے اس طرح کی جاہلی ملوکیت اور اس طرح کے ظالم حاکموں کو بے نقاب کردیا۔ بلاشبہ بہت عظیم کارنامہ انجام دیا حسین نے۔ بالکل اپنی شخصیت کے شایان شان کارنامہ انجام دیا اور رہتی دنیا کے لئے ایک مثال قائم کردی کہ جب فاجرانہ نظام یا ظالمانہ نظام استوار کیا جارہا ہو تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ انجام کیا ہوگا بلکہ نظام عدل و انصاف کے لئے ہر کوشش کی جاتی ہے
امام حسین رضی اللہ تعالی کا ایک مشہور قول ہے کہ کتنی آسان ہے موت جب وہ عزت کے حصول اور حق کے احیاء کے راستے میں ہو؛ بے شک عزت کے راستے میں موت دائمی حیات ہے اور ذلت کے ساتھ زندگی ایسی دائمی موت ہے جس کے بعد کوئی زندگی نہيں
اس لئے کیونکہ واقعہ کربلا کمزوروں کو حوصلہ مظلوموں کو جرات پیکار،بے وسیلوں کو خدائے لم لیزل پر توکل اور غم زدوں کو زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔افسوس ہم نے کربلا کے سانحہ فاجعہ کو صرف اور صرف نالہ و شیون تک محدود کردیا ہے۔ہم حق وباطل کے اس عظیم واقعے کی یاد تو بڑی شدومد سے مناتے ہیں لیکن اس میں پنہاں انسانیت کی فلاح اور رہنمائی سے ان زریں اصولوں اور ضابطوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے جن کی سربلندی کی خاطر احسین رضی اللہ تعالی اور دیگر شہدائے کربلا نے اپنی قیمتی جانیں قربان کی تھیں۔اگر ہم اسلام کے سچے پیروکار ہونے اور امام حسین رضی اللہ تعالی سے عقیدت رکھنے کے دعویدار ہیں تو ہمیں اپنی موجودہ روش کوبدلنا ہوگا۔ہمیں نفرت،عداوت،بعض، ریاکاری، مکر و فریب، تکبر، حسد،لالچ اور بے راہ روی کے زہریلے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچانا ہوگا اور سب سے بڑھ کرلسانی، گروہی اور فرقہ واریت کی دیواروں کو گرانا ہوگا۔شہدائے کربلا کی یاد منانے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم گروہوں اور مختلف طبقات اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ملت واحدہ کے طور پر خود کو پیش کریں اور اپنے معاشرے سے ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ کرنے کے لئے کوشش کریں اسی میں ہماری بقا ہے اور یہی کربلا کا پیغام ہدایت ہے اور یہی پیغام سعادت ہے کہ نظام عدل کے لئے کوشاں رہا جائے نہ کہ مخصوص ایام میں ان کی یاد میں آہین بھر کر تمام عمر اس نظام عدل کو پامال و سبوتاژ کرنے والوں کے ساتھ کھڑا رہا جائے یا ازخود اس نظام عدل کا گلہ گھونٹ دیا جائے جس کی بقاء کے لئے امام حسین رضی اللہ تعالی نے مرتبہ شہادت کو قبول کیا اور لذت دنیاوی سے منہ پھیر لیا امام حسین رضی اللہ تعالی عظمت و جرآت کا اک باب ہیں جو رہتی دنیا تک اپنی حمیت و غیرت کے لئے یاد رکھا
جس کے حصول کے لئے امام حسینؓ کی قربانی بہت بڑی تھی جو کہ بہت بڑے مقصد کے لیے تھی انہوں نے صرف جان کا نذرانہ پیش نہیں کیا بلکہ اپنا خاندان ذبح کرادیا۔ لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ یزید کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے جس پر اس سے پہلے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ فائز رہ چکے تھے۔ حضرت حسینؓ خلافت کے اس معیار کو قائم رکھنا چاہتے تھے اور اسی کے لیے میدان میں آئے تھے گویا حضرت ابوبکر صدیق عمر فاروق عثمان و علی رضوان اللہ تعالی نے محنت، ایثار، قربانی اور جرأت و حوصلہ کے ساتھ حکومت میں دیانت و اہلیت کا جو معیار قائم کیا تھا حضرت حسینؓ کو اس میں کمی گوارا نہ تھی اور وہ اس طرز حکومت اور مزاجِ حکمرانی کو باقی رکھنے کے لیے اڑ گئے تھے حتٰی کہ انہیں اپنے خاندان سمیت جام شہادت نوش کرنا پڑا اور دنیا ظلم و جبر کے سامنے سربسجود ہونے کے بجائے رضائے الہی کو ترجیح دے کر دارین کی سعادت پا گئے جو کہ سب سے عظیم سعادت ہے اور ہمارے لئے صرف دو ہی راستے ہیں یا امام حسین رضی اللہ تعالی کا انتخاب کیا ہوا جہاں سعادت ہے رضائے الہی پے یا قاتلین امام کی صف میں کھڑے رہ کر دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی کو اپنے حصہ میں شامل کریں یہ ہمارے لئے اہم ہے کہ ہم کس کا انتخاب کرتے ہیں