13 ربیع الاول،تاریخ وفات کے حوالے سے خصوصی تحریر
سرکاری جاسوس محکمہ شرطہ کے عمال اور کوتوال شہر کے کارندے گلی گلی بازاربازار کوچہ کوچہ اور گھرگھر ایسے افراد کوسونگھتے پھرتے ہیں جو خلیفہ وقت کے عقیدہ خلق قرآن کی ذرہ بھی مخالفت کرتاہو۔ایسے افراد ہر بستی اور ہر شہر سے گرفتارکر کے بے دریغ قتل کیے جارہے ہیں،بغدادکاقاضی خلیفہ مامون الرشید کو لکھتاہے کہ یہاں ایک عالم دین اس عقیدے کو قبول کرنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ بڑی شدومد سے اس کی مخالفت بھی کرتاہے۔خلیفہ اس عالم دین کو دربارخلافت میں پیش کرنے کا حکم دیتاہے۔ستاون سالہ عالم پیری،جسم پر بڑھاپے کاغلبہ،چہرے پر نورانیت کی بارش،ہاتھوں میں ہتھکڑیاں،گلے میں طوق اورپاؤں میں بیڑیاں،آہنی زیورسے آراستہ اور قدموں میں پہاڑجیسی استقامت،شاہی مجرم کی حیثیت سے امام عزیمت امام احمد بن حنبل سرکاری اہل کاروں کے جلومیں پھانسی کاپھندہ چومنے جارہے ہیں۔پوراشہراس منظرکامشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرتاہے۔امام احمد بن حنبل مسلمانوں میں رائج مکاتب فکرمیں سے دبستان حنبلی کے بانی ہیں،امت میں آپ کاتعارف فقیہ اور محدث دونوں حیثیتوں سے پایاجاتاہے۔فقہ میں آپ کاکارنامہ فقہ حنبلی کاآغاز ہے جبکہ ”مسند امام احمد بن حنبل“آپ کی محدثانہ کاوش کانتیجہ ہے۔فقہ حنبلی کی ابتدابغدادسے ہوئی،ساتویں صدی ہجری تک یہ مصر میں پھیل چکی تھی۔اس کے بعد امت مسلمہ کے تقریباََ ہر خطے میں اس کا نمو ہوا۔آج یہ فقہ جزیرۃ العرب میں رائج ہے اورکم و بیش تمام عرب ممالک میں فقہ حنبلی سرکاری قانون کی حیثیت سے نافذ ہے۔
امام احمد بن حنبل ربیع الاول 164ھ میں پیداہوئے،آپ کی تاریخ وفات 12ربیع الاول 241ھ ہے۔اس طرح 77سال کاعرصہ اس عالم فانی میں گزارا۔آپ بغداد میں پیداہوئے اور بغداد ہی میں دفن ہوئے۔آپ کاجنازہ جمعۃ المبارک کے روز پڑھاگیااورایک اورروایت کے مطابق ایک لاکھ افراد اس میں شریک ہوئے۔یہ متوکل علی اللہ عباسی کادورخلافت تھا۔آپ کی وفات عالم اسلام کے لیے سانحہ عظیم تھی۔امام احمد بن حنبل قبیلہ عدنان کے شیبانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس طرح آپ کا نسب نامہ نزاربن سعدابن عدنان کے واسطے سے محسن انسانیت ﷺسے مل جاتاہے۔عہدجاہلیت میں یہ خاندان عراق کے قرب و جوار میں آباد تھا،امیرالمومنین ابی حفص عمر بن خطاب ؓنے جب شہر بصرہ آبادکیا تویہ خاندان اس شہر میں آن بسا۔چنانچہ روایت ہے کہ آپ بصری کہلاتے تھے اور جب بھی بصرہ جاتے تواپنی آبائی مسجد میں نماز اداکرتے۔احمد بن حنبل سے شبہ ہوتاہے کہ حنبل آپ کے والد کانام ہے۔یہ نام آپ کے دادا حنبل بن ہلال کاتھاجو اموی اقتدارمیں صوبہ سرخس کے گورنررہے تھے اور بعد میں عباسی تحریک سے منسلک ہوگئے۔آپ کے والد محترم محمد بن حنبل بنیادی طورپر مجاہد تھے اورفوج میں بحیثیت کماندار فرائض اداکرتے رہے۔امام احمد کی پیدائش سے قبل یہ خاندان بغدادمنتقل ہو گیا۔امام محترم دوسال کے تھے کہ والد کاسایہ سرسے اٹھ گیا۔وراثت میں ملنے والی جائداد کے وسیلے سے آپ کی پرورش کی۔امام صاحب کی سیرت و کردارمیں حسب ذیل پانچ خصوصیات نے بہت اہم کرداراداکیا:۔
۱۔حسب و نسب: آپ ماں باپ دونوں کی طرف سے خالصتاََ عربی النسل تھے۔
۲۔یتیمی: ابتداہی سے یتیمی کے کڑے امتحان نے آپ کو اعتماد نفسی عطا کیا۔
۳۔شجاعت: یہ آپ کے قبیلے کاخاصہ تھا۔
۴۔قناعت: جس نے آپ کے اندر فکرونظرکی بلندی پیداکی۔
۵۔تقوی: جس کی وجہ سے آپ بہت مشکل وقت میں بھی ثابت قدم رہے۔
امام احمد ؒکی پرورش،تربیت اور ابتدائی تعلیم بغدادمیں ہوئی۔آپ کاخاندان بالعموم اور والدہ محترمہ بالخصوص آپ کو عالم دین بنانا چاہتے تھے۔بہت چھوٹی عمرمیں قرآن مجید حفظ کر لیااور پھر تحریروکتابت کے فن سے آشنائی حاصل کی۔14سال کی مختصرعمرمیں آپ اس مرحلے میں داخل ہوگئے جہاں باقائدہ کسی ایک میدان میں علم و فن کاانتخاب کرنا تھا۔بغدادنیائے علم کا مرکزومحورتھا۔یہاں دینی اور دنیاوی دونوں علوم رائج تھے۔ دنیاوی علوم میں لغت،طب،نجوم،فلسفہ،جغرافیہ،ہندسہ،الجبرا،تاریخ،سیاحت اور خطابت وغیرہ تھے۔جب کہ دینی علوم میں تفسیر،حدیث،اصول،فقہ،کلام،افتااورروایت وغیرہ شامل تھے۔اما م محترم نے اپنی طبیعت اورتربیت کے پیش نظر دینی علوم کی طرف توجہ کی اورامام ابویوسفؒ کے حلقے میں فقہ کادرس لینے لگے۔کچھ ہی عرصے بعد179ھ میں آپ فقہ سے حدیث کی طرف آ گئے اور بغدادکے محدثین کے ہاں جانے لگے۔حدیث اور روایت حدیث میں اس قدر ڈوب گئے کہ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونابنالیا۔حدیث کاجتنا ذخیرہ بغدادمیں موجود تھا،آپ نے حتی الوسع اسے قلمبند کیااور 186ھ میں طلب حدیث کی خاطر بصرہ کی طرف پہلاسفرکیا۔طلب حدیث میں آپ نے گلی گلی کوچہ کوچہ قریہ قریہ اور بستی بستی پیدل سفرکیا۔پانچ دفعہ بصرہ گئے،پانچ دفعہ حجاز مقدس اس کے علاوہ یمن،کوفہ اور مصرنے بھی اس طالب حدیث کی قدم بوسی کی۔رے کاارادہ تھا کہ تنگدستی آڑے آگئی اور زاد سفر میسر نہ آنے کی وجہ سے عازم منزل نہ ہوسکے۔ایک مقام پر مہینوں قیام کرتے اور جب تک علم کی پیاس بجھ نہ جاتی واپس نہ آتے۔اکثرایساہوا کہ سامان سفرختم ہوجاتا ایسے مواقع پے آپ کے دوست معقول رقم کی پیشکش کرتے لیکن آپ انکارکردیتے۔محنت مزدوری سے رزق حلال کماکر اپنے وطن لوٹتے۔
اس سفروسیاحت میں آپ نے بہت سے شیوخ سے کسب فیض کیا،ان سب کے بارے میں معلومات حاصل ہونا یقیناََناممکن ہے۔تاہم فن حدیث و فقہ میں آپ کے اساتذہ کی تعدادایک سو سے زائد بتائی جاتی ہے۔آپ سب سے پہلے امام ابو یوسف ؒکے حلقہ درس سے وابسطہ ہوئے لیکن یہ سلسلہ جلدی ختم ہوگیااور حدیث سے تعلق قائم کرلیا۔امام احمدؒ کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثرات حافظ ہشیم بن بشیربن ابہ ہازم (104-183ھ)کے تھے۔16برس کی عمر میں وہ حافظ ہشیم کی شاگردی میں آئے اور ان کی وفات تک زیر تربیت رہے۔حافظ ہیشیم کے بعد امام صاحب نے سفرحجاز کے دوران میں امام شافعی کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیااور ایک طویل عرصہ ان کی خدمت میں رہے۔حافظ ہیشیم سے امام صاحب نے محدثانہ ذوق حاصل کیااورامام شافعی سے فقیہانہ طرز فکر پایا۔امام محترم کے دواہم اساتذہ سفیان ثوریؒ اور عبداللہ بن مبارک ؒ ہیں۔ان کے علاوہ آپ نے سفیان بن عیینہ،ابوبکر بن عیاش،وکیع بن الجراح،عبدالرحمن بن محمد،یحی بن سعید القطانی اوردوسرے بہت بہت سے اکابر ائمہ سلف سے علم حاصل کیا۔یہ لوگ اپنے علم و فضل اور زہدوتقوی میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ کا علم و حلم دوردراز کے سفر،عبادت و ریاضت اور کتابت حدیث کاجب ڈنکہ بجنے لگاتولوگوں کی بہت بڑی تعدادنے آپ نے احکام و مسائل پوچھنے شروع کر دیے،آپ کے حزم و احتیاط کایہ عالم تھاکہ آپ حتی الامکان عوام سے دوررہتے۔لیکن آخر کب تک؟؟؟اتباع سنت میں عمر کے چالیس سال مکمل ہونے کے بعد جامع مسجد بغدادمیں درس و املا کا آغازکیا،ہزاروں کی تعدادمیں طالب علم اس مجلس میں شریک رہتے۔اور سینکڑوں طالب علم درس و ارشادسپر دقلم کرنے کافریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔
امام احمدؒ کے درس کی دو مجالس ہوتی تھیں،ایک گھرہی پر منعقد ہوتی جس میں آپ کے قریبی اورخاص شاگراورصاحبزادے شریک ہوتے۔مسند امام احمد بن حنبل کی زیادہ تر املا یہیں ہوئی۔یہ مجلس محدود اور مخصوص تھی۔دوسری مجلس جامع مسجد کے صحن میں بعد نماز عصر منعقد ہوتی جس میں عام افراد شریک ہوتے۔آپ کی درس کی چند قابل ذکر خصوصیات یہ ہیں:۔
۱۔درس و افتاکی مجالس میں خاص طورپر امام صاحب کی نجی مجالس میں عام طورپر سنجیدگی،وقار اور متانت کاغلبہ رہتا۔
۲۔درس سے قبل خوب خوب مطالعہ کرتے اور اکثراوقات کتب بھی ہمراہ لاتے،اپنے شاگردوں کو بھی صرف حافظے کی بناپر درس
دینے سے منع کرتے،تاکہ نقل و بیان میں فرق نہ ہو۔
۳۔آپ احادیث نبوی ﷺکی املاکرواتے اور آپ کے شاگرد رشید اسے لکھتے۔
۴۔آپ اپنے فتاوی نقل کرنے سے منع کرتے۔
۵۔امام صاحبؒ کے ہاں قرآن و سنت کے بعد صحابہ تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی بہت اہمیت تھی۔
۶۔آپ خیالی مسائل اور بے مقصد امورسے احترازفرماتے۔
امام صاحب سے یقیناََ ہزارہالوگوں نے کسب فیض کیالیکن آپ کے چند شاگردوں نے ہی نام کمایا۔ان کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ابوعبداللہ محمدبن اسمئیل بخاری(193ھ۔256ھ)مولف صحیح بخاری شریف۔
۲۔مسلم بن حجاج نیشاپوری(202۔261ھ)مولف صحیح مسلم شریف۔
۳۔صالح بن احمد بن حنبل(م۔266ھ)یہ امام محترم کے بیٹے تھے،کثیرالعیالی اورقرض کی وجہ سے طرطوس کے قاضی کامنصب
قبول کیا۔فقیہ تھے اور بحیثیت قاضی سب سے پہلے فقہ حنبلی کانفاذ کیا۔
۴۔ابوبکر احمد بن احمد(م۔273ھ)محدث تھے۔
۵۔عبدالملک بن عبدالحمید المیمونی(م۔274ھ)امام محترم کے اقوال کی جمع و نقل کا وسیع پیمانے پراہتمام کیا۔
۶۔احمد محمد المہزوری(م۔275ھ)ان کامیدان خاص فقہ تھا۔
۷۔ابوداؤد سلیمان بن اشعث(202-275ھ)مولف سنن ابو داؤدشریف۔
۸۔عبداللہ بن احمد بن حنبل (213-290ھ)امام محترم کے بیٹے تھے اور ان کا میدان خاص روایت حدیث تھا۔مسندامام احمد
بن حنبل انہی کی کاوش اور اضافے کانتیجہ ہے۔
۹۔ابوبکر الخلال(م۔311ھ)بہت سی کتب کے مصنف ہیں،فقہ حنبلی تدوین و اشاعت دراصل الخلال ہی کا کارنامہ ہے۔ان
کے شاگرد غلام الخلال کے نام سے مشہور ہیں جن کی فقہ حنبلی میں وہی حیثیت ہے جو فقہ حنفی میں امام ابویوسف،امام محمد اور امام زفرکی ہے۔
امام محترم کی زندگی غربت و افلاس،فقروفاقہ اور افلاس سے عبارت تھی۔آپ نے کبھی فراغت اور بے فکری نہ دیکھی۔موروثی جائداد سے کل سترہ درہم ماہانہ کرایہ آتاتھا جس میں بمشکل گزارہ ہوتا۔مزدوری باربرداری اور اجرت پر لکھنے پڑھنے کاکام بھی کرتے اور اشد ضرورت پر قرض بھی لے لیتے۔خیرخواہوں نے بہت موقعوں پر مالی معاونت کی کوشش کی لیکن آپ نے انکارکردیا۔ایک مرتبہ کھانے میں کچھ نہ تھا توآپ نے اپنا جوتا رہن رکھ کر روٹیاں خریدیں،کرایہ داروں کاکرایہ اکثرمعاف کردیتے۔کپڑابننے کافن جانتے تھے اور بوقت ضرورت سوت سے کپڑا بن کر رزق حلال حاصل کرتے۔غربت و افلاس اورعلمی مشاغل کے باوجود دن اور رات میں تین سو نوافل پڑھتے۔رات کے نوافل میں قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرتے اور پھر سات دن میں ایک قرآن مجید ختم کرلیتے۔حقوق العبادکابہت خیال تھا چنانچہ ہر مریض کی عیادت کااہتمام کرتے۔آپ کے پاس آپ ﷺ کاایک بال مبارک تھا۔آپ اکثر اس کوبوسہ دیتے اور آنکھوں سے لگاتے۔جب بیمارہوتے تواس بال مبارک کوپانی میں ڈبوکر نکال لیتے اور پانی پی کر شفاحاصل کرتے۔جب فوت ہوئے تووصیت کے مطابق یہ بال امام محترم کی دائیں آنکھ میں ڈال دیاگیا۔ طبیعت میں زہدوتقوی اور حب رسولﷺ کایہی عالم تھا جس نے فتنہ خلق قرآن میں آپ کو ثابت قدم رکھا۔یہ فتنہ اس وقت پیداہوا جب عباسی خلیفہ مامون الرشیدنے معتزلہ کے کہنے پر قرآن مجید کو مخلوق قرار دیااوراس فلسفہ کو عقیدہ بناکر بزور ریاست نافذ کرنا چاہا۔امام محترم نے اس خود ساختہ بدعت کی مخالفت کی اور قرآن کو خالق کا کلام قراردیا۔ آپ پابجولاں دربارخلافت میں لائے جارہے تھے کہ مامون الرشید راہی ملک عدم ہوا۔خلیفہ معتصم بااللہ نے آپ پر قہروجبرکی انتہاکردی۔ایک جلاد تھک جاتا تودوسراکوڑے برسانا شروع کر دیتا۔کوڑوں میں اس قدر شدت ہوتی کی ہاتھی پر پڑیں تووہ بھی بلکنے لگے۔ لیکن امام محترم کی قوت ایمانی نے یہ ظلم صبرواستقامت کے ساتھ برداشت کیا۔اگربے ہوش ہوجاتے تو تلوار کی نوک چھبوکر ہوش میں لاتا جاتا۔ یہ مشق ستم ڈیڑھ سال تک روزانہ کی بنیادوں پر جاری رہی۔استبدادمایوس ہواتوآپ کواس حال میں گھربھیجاگیا کہ جسم لہولہان زخموں سے چوراورمسلسل مارپیٹ اور جیل کی سختیوں کی وجہ سے آپ صاحب فراش تھے۔حصول صحت کے بعد درس و تدریس کاسلسلہ شروع کیاتو خلیفہ واثق باللہ عباسی نے درس پر پابندی لگادی۔حتی کہ آپ کو نماز کے لیے بھی گھرسے نکلنے نہ دیا جاتا۔واثق باللہ کے انتقال سے امام محترم کی تکلیف اور آزمائش کاسلسلہ جو تقریباََ پانچ سال جاری رہا بالآخرختم ہوا۔
”المسند“آپ کی تصنیفات میں سے مقبول عام ہوئی۔احادیث نبوی ﷺ کا وہ مجموعہ مسند کہلاتاہے جس میں ہر صحابی کی روایت کردہ احادیث اس کے نام سے ایک جگہ درج کردی گئی ہوں۔امام محترم نے سولہ سال کی عمر (180ھ)میں اس تالیف کاآغاز کیااور رحلت تک اس میں مشغول رہے۔آخری عمر میں آپ نے اہل خانہ کو اس کتاب میں درج تمام احادیث سنائیں۔مسودہ ابھی بے ربط اور اق کی صورت میں موجود تھا کہ پیغام اجل آن پہنچا۔آپ کے بیٹے عبداللہ نے اس مسودہ کو ترتیب و اضافہ کے ساتھ مدون کیا۔”المسند“ کے اٹھارہ حصے ہیں۔امام محترم نے سات لاکھ پچاس ہزارمیں سے صرف تیس ہزارکا انتخاب کیا۔امام عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ان پر دس ہزار احادیث کامزید اضافہ کیا۔اس تالیف میں کل چالیس ہزاراحادیث ہیں۔اس کاشمار احادیث کی اہم کتب میں ہوتاہے۔”المسند“ کی چند خصوصیات یہ ہیں:۔
۱۔پہلے عشرہ مبشرہ کی مرویات ہیں پھران سے اقرب صحابہ کرام کی۔
۲۔تابعی کی روایت جس میں صحابی کانام نہ لیاگیاہووہ تابعین کے ناموں سے درج ہیں۔
۳۔صرف ثقہ راوی کی حدیث قبول کی گئی۔
۴،کسی حد تک کمزور حافظے کے مالک متقی لوگوں کی روایت قبول کر لی گئی۔
۵۔صحیح حدیث سے ٹکراجانے والی حدیث قبول نہیں کی گئی۔
۶۔سندو متن پر نقد و جرح کااہتمام کیاگیاہے تاہم متن پر بہت کم۔
۷۔راوی کی ثقاہت کی تردید ہونے پر قبول کی گئی حدیث مسودہ سے خارج کردی گئی۔
۸۔ضعف سند یاعلت متن کی بنیادپر روایت ترک نہ کی جاتی جب تک اس کی حدیث صحیح سے مخالفت ثابت نہ ہوجاتی۔
۹۔منفرد راوی کی حدیث قبول نہ کی گئی الا یہ کہ علمائے حدیث اس کی توثیق کر دیں۔
۰۱۔صرف فقہی قائدے کی مخالفت پر حدیث رد نہ کی جاتی۔
علماء کے نزدیک ”المسند“میں صحیح،حسن اور غریب قسم کی احادیث درج ہیں۔جب کہ بعض کے نزدیک موضوع احادیث بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔”المسند“کے علاوہ امام محترم سے متعدد تصنیفات منسوب ہیں،جن میں سے کچھ یہ ہیں:۔
۱۔التاری ۲۔الناسخ و المنسوخ
۳۔المقدم و الموخرفی کتاب ۴۔فضائل صحابہ
۵۔المناسک الکبیر ۶۔المناسک الصغیر
۷۔کتاب الزہد ۸۔الرد علی الجہنیہ
۹۔کتاب الردالزنادقہ ۰۱۔قرآن مجید کی ایک تفسیر بھی آپ سے منسوب کی جاتی ہے۔
امام محترم کی محدثانہ حیثیت اس قدر مسلمہ ہے کہ بعض علماء توآپ کوصرف محدث ہی مانتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام محترم مجتہد مطلق فقیہ بھی تھے،اگرچہ فقہ یااصول فقہ پر آپ کی کوئی تصنیف موجود نہیں اورآپ نے اپنے فتاوی کی نقل سے بھی منع کیاتاہم امت کا ایک بڑاحصہ آپ کے زمانے سے آپ کی فقیہانہ دانش کا پیروکاررہاہے۔امام محترم کے فقہی اصولوں کی بنیادپر آپ کے شاگردوں نے پوری ایک فقہ مرتب کی ہے جوآج تک فقہ حنبلیہ کے نام سے موجود ہے۔امام محترم کے فقہی اصولوں میں سے چند ایک یہ ہیں:۔
۱۔دین کے معاملات میں بدعت کو سخت ناپسندفرماتے۔
۲۔فتوی دے دینے کے بعد قوی تردلیل کی بنیادپر رجوع کرلیتے۔
۳۔بعض اوقات کسی مسئلے کے دوحل بھی بتادیتے اور کسی کو ترجیح نہ دیتے۔
۴۔حدیث ضعیف پر صحابی کے فتوے کو ترجیح دیتے۔
۵۔صحابہ کے فتوی کی موجودگی میں اجتہادنہ کرتے۔
۶۔صحابہ کے اختلاف میں سکوت فرماتے یاقرآن و سنت سے قریب تررائے کواختیارکرتے۔
۷۔صحابہ کے اختلاف میں بلند پایہ صحابہ کی رائے کو فوقیت دیتے۔
۸۔کسی تابعی کافتوی قرآن و سنت سے قریب ہوتاتوقبول کرلیتے۔
۹۔اجماع کو محال خیال کرتے اور اجماعی فتاوی کی قبولیت میں تردد پیش کرتے تاہم اکثرعلمی معاملات میں اجماع کی مطلق نفی نہ
کرتے۔
۰۱۔اجماع صحابہ کو حجت مانتے،اگرکوئی روایت اجماع صحابہ سے ٹکراجاتے تواسے حدیث کو شاز گردانتے۔
۱۱۔عہدتابعین کے مشہورقول کوحدیث نبویﷺ سے کم اور قیاس سے بہترسمجھتے۔
۲۱۔قیاس سے حتی الامکان دوررہتے۔
۳۱۔قیاس پر حدیث ضعیف کو ترجیح دیتے۔
۴۱۔استصحاب کے قائل تھے،یعنی جس بات پر ماضی سے عمل ہوتاچلا آرہاہووہ حال اور مستقبل میں بھی جاری رہے گی بشرطیکہ اس
کے خلاف کوئی واضع حکم نہ ہو۔
۵۱۔مصالح مرسلہ کوفقہی اصول قراردیتے تھے۔اس کامفہوم یہ ہے کہ عوام الناس کو بے جا تکلیف سے بچایاجائے۔
۶۱۔ذرائع کے قائل تھے،یعنی شارع نے جس کام کے کرنے کاحکم دیاہے اس کی تکمیل کے لیے سارے راستے کھول دیے ان پر
چلنا ضروری ہے اور جس کام سے منع کیااس کے تمام راستے بندکر دیے چنانچہ ان پر چلنا ممنوع ہے۔
۷۱۔مسئلے کی صورت جو پہلے سے چلی آرہی ہو اسے اس وقت تک نہ چھیڑتے جب تک حالات تبدیلی کاتقاضا نہ کریں۔
۸۱۔نصوص و آثار کی غیرموجودگی میں عرف و عادت پہ فتوی دیتے۔
امام محترم کے ان اصولوں کی بنیاد پر فقہ حنبلی میں ان ماخذوں کو بالترتیب تسلیم کیاگیاہے:۔
۱۔نصوص(قرآن و سنت)
۲۔فتاوی صحابہ(کتاب و سنت کے بعد صحابہ کااجماع)
۳۔اختلاف صحابہ(کسی رائے کی فوقیت یاسکوت)
۴۔مرسل اور ضعیف روایت(مرسل اور ضعیف روایت کی رائے پر فوقیت)
۵۔قیاس
۶۔استصحاب
۷۔مصالح مرسلہ
۸۔ذرائع
امت میں فقہ حنبلی کوقبول عام حاصل ہوا۔چنانچہ مشاہیر میں سے علامہ ابن العربی(مولف احکام القرآن)،شیخ الاسلام ابن تیمیہ،علامہ ابن جوزی،شیخ محمد بن عبدالوہاب،علامہ ابن رجب،ابن قدامہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی جیسے لوگ فقہ حنبلی کے پیروکارتھے۔”المسند“کی متعدد شروحات لکھی گئی۔حال ہی میں ڈاکٹر مصطفی العظمی نے ”المسن“کو کمپیوٹرمیں محفوظ کیا۔خداکرے امت مسلمہ کی کوکھ سرسبزوشاداب رہے اور اسلاف جیسے اخلاف جنم لیتے رہیں (آمین)۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا