(Last Updated On: )
تاریخ بشریت گواہ ہے کہ پروردگار نے انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء ،رسول اور ائمہ کو منتخب کیا ۔ختم نبوت کے بعد سلسلہ امامت کا دور شروع ہوتا ہے۔ فانوسِ امامت کا پہلا چراغ امام علی ابن ابیطالب ہیں ، جس طرح دیگر الٰہی نمائندوں سختی و مشکلات کا سامنا کیا تھا ، اسی طرح آپ نے بھی بے پناہ سختیوں اور دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے نظام الٰہی برقرار رکھا،تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو رحلت رسول اکرمؐ کے بعد امیرالمومنین کی زندگی کے سخت اور دشوار ایام شروع ہو گئے۔ امام کے سخت اور دشوار کاموں کی ابتدا مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے اپنے حقوق کو چھوڑ دینا تھی جو یقینا امام کیلئے بہت سخت تھا ۔ایک ایسے عظیم انسان کیلئے جو جانتا ہو کہ وہ صاحب حق ،صاحب قدرت ہے ۔اسکے باوجود امام نے تمام چیزوں سے صرف نظر کیا اور مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے حکومت خلفائے ثلاثہ میں ۲۵ سال خاموشی کے گزاردیئے کہ کہیں دین محمد خطرہ میں نا پڑ جائے ۔ممکن تھا کہ امام ان ایام سے فائدہ اٹھاتے اور لوگوں کے درمیان یہ ظاہر کرتے کہ آپ ہی حق خلافت رکھتے ہیں لیکن امام نے ایسا نا کرتے ہوئے خلفائے ثلاثہ کی مدد بھی کی اور ایک امین مشاور بن کر ہمیشہ ان کے ساتھ رہے تاکہ اسلام کا رنگ باقی رہے ۔قتل عثمان کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ لوگوں نے آپ کو مسند خلافت پر بیٹھنے پر مجبور کیا۔ امام نے ’دعونی والتمسوا غیری‘ مجھے چھوڑو ، کسی اور کی تلاش میں جاؤ‘ کی صداں بلند کی۔
مذکورہ جملہ سے امام کے درد کا احساس ہوتا ہے کہ لوگ ۲۵ سال کے بعد اس در پے آئے جہاں انہیں روز اول ہونا چاہیے تھالیکن لوگوں کے اصرار پر امام نے خلافت کو قبول کیا، چونکہ خلافت الٰہی کو دنیوی سلطنت کی شکل دیدی تھی لیکن امام نے سلطنت کو الٰہی نظام خلافت میں بدل دیا لہٰذا اول روز امام نے عدالت کا پرچم لہرایا اور الٰہی احکام نافذ کیے۔امیرالمومنین کااپنے زمانے میں ایسے افراد سے سامنا تھا جو کسی بھی صورت اس عظیم شخصیت اور کھری عدالت کے خواہاں نا تھے ۔رحلت رسول اکرمؐ اور خلافت امیرالمومنینؑ کے درمیان ۲۵؍ سال کے فاصلے نے تمام چیزوں کو بدل ڈالا تھا ۔ امیرالمومنین ؑنے خلافت کے آغاز میں اس درد کو بیاں کیا اور کہا( الا و إن بليتكم عادت كهيئتها يوم بعثت الله نبيه)آج وہ تمام مصائب پلٹ آئے ہیں جو رسول اکرمؐ کے زمانے میں تھے ۔ یعنی مکتب اسلام فراموش کر دیا گیا، ایمان کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے ذخیرہ اندوزی لوگوں کا پیشہ بن گیااور اسلام لوگوں کے لئے فقط ایک لفظ بن کر رہ گیا تھا ۔اس کا اندازہ امیر المومنینؑ کے ۲۵؍ سال کے آخری حوادث سے لگایا جا سکتا۔ امت رسولؐ کا لوگوں نے وہ حال کیا جسے انسانیت تو نہیں کہا جا سکتا، ربذہ میں جناب ابوذر ؒکا جاں بلب ہوکر شہید ہوجانا۔ مسجد میں حق کا ساتھ دینے پر عبداللہ بن مسعود کے دانت اور سینے کی ہڈیوں کا توڑا جانا یہ سیہ داستان تاریخ کے صفحوں پر تحریر ہے۔ امیرالمومنینؑ کی خلافت سے پہلے کوفہ میں نااہل حضرات نے حکومت سنبھالی تھی اس لیے امیرالمومنینؑ کیلئے نہایت سخت تھا کہ وہ دوبارہ لوگوں کے دلوں میں آیات قرآنی کے نقش ونگار ابھاریں اور وہ بھی اس شہر میں جہاں ولید جیسے فاسق وفاجر کی حکومت رہی ہو۔ امیرالمومنین علیؑ بن ابیطالب ؑنے چار سال۱۰؍ ماہ مشکلات سے لبریز حکومتی ایام گزارے۔ایسے مشکل اور دشوار حوادث کا سامنا کیا جوضعیف الایمان اور سطحی سوچ کے حامل افراد کے ایمان کو لے اڑے ۔یقیناً انکے ایمان ساحلی جھاڑ جیسے تھے ، جنکی موج سیلاب نے بیخ کنی کر دی ۔ امیرالمومنینؑ کے دورکی سب سے بڑی مصیبت وہ فتنہ تھا جو کالی اور تاریک کھٹا بن کر لوگوں پر چھایا ہوا تھا ایسا فتنہ جس میں پہلی نظر حق و باطل میں تمیز نہیں دے پاتی ، فقط دقیق تدبر و تفکر ہی ایک واحد راستہ تھا جوانسان کو حق و باطل کی تمیز کرتا لیکن یہ کوئی آسان راہ نہیں۔ غبار فتنہ میں حق وباطل کو پہچاننا ان افراد کیلئے جنہوں نے حدود اسلام میں تازہ قدم رکھا تھا ،بہت مشکل تھا ۔ہر انقلاب اور نظام کی بربادی اسی لمحے شروع ہو جاتی ہے جب اس نظام میں حق وباطل مخلوط ہوجائے۔ رسول اکرمؑ کے زمانے میں مومنین کو اپنی راہ کا انتخاب کرنا بہت آسان تھا وہ جس طرف کافرین اور مشرکین کو پاتے انکے مقابل کھڑے ہو جاتے لیکن امیرالمومنین ؑکا زمانہ ایسا تھا جہاں غبار فتنہ نے حق وباطل کو ملا دیا تھا۔ لوگوں کا ایک طرف ہونا بہت مشکل تھا، فقط ان افراد نے امام کا ساتھ دیا جنکے ایمان نے غبار کو چھانٹ کر رکھا تھا۔ اسکی سادہ مثال جناب عمار ؑکی شخصیت ہے جنہوں نہ صرف امام کا ساتھ دیا بلکہ جب کبھی فساد کی آنچ امام تک پہنچتی ،آپ امام کی سامنے کھڑے ہو جاتے۔
امام علی علیہ السلام کے دوران میں نہ صرف حق و باطل مخلوط تھے بلکہ باطل، حق کا چولا پہنے ہوئے تھا، لہٰذا، امیرالمومنینؑ کا بعد رسول اندازہ جنگ یہ رہا کرتا تھا کہ ہر جنگ سے پہلے خطبہ دیتے تاکہ لوگ اس مکر وفریب سے بچ جائیں ۔انکے وہ تمام خطبات دفتر تاریخ میں ثبت ہیں ۔اگر امیرالمومنینؑ کی تقریباً پانچ سالہ حکومت پہ نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس زمانے میں لوگوں کے سیاسی تجربات بہت ضعیف تھے ۔غلط تحلیل کی بناء پرامام کے خلاف جنگ جمل لڑی گئی۔ زبیر ابن عوام جیسا شخص جو یقینا کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے ،انکے قتل کے بعد جب امامؑ کی نظر زبیر کی تلوار پہ پڑتی ہے تو فرماتے ہیں کہ یہ وہی تلوار کہ جب اٹھتی تو رسول کے چہرے سے غبار غم کو دھو ڈالتی تھی لیکن غلط تحلیل کی بناء پر انکا دم مرگ مقام کیا ہے …؟!
ایک سب سے تکلیف دہ چیز دوران امام علی میں یہ رہی کہ کچھ منافق حضرات، اسلام کے نام پر اسلام سے جنگ کررہے تھے۔ قرآن کے ذریعے معارف قرآن سے جنگ، نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے مسلمانوں سے جنگ جو یقینا امام کیلئے بہت تکلیف کا باعث بنا کہ وہ اس میدان میں جنگ کے لئے حاضر ہیں جہاں دونوں طرف نمازیں پڑھیں جا رہیں اور اسلامی پرچم لہرایا جا رہا ہے ۔کیا اس سے بڑھ کر امام کیلئے اور کوئی مصیبت ہو سکتی ہے ۔یقینا ان تمام مشکلات کے باوجود امام علی علیہ السلام کی حکومتی ایام تاریخ میں ایک نمایاں خصوصیت کے حامل ہیں ۔امام کا ہر حکم مرضی الٰہی کے موافق تھا جو یقینا امام کیلئے بہت سخت تھا ان تمام مشکلات میں سب سے اہم جو مسئلہ تھا وہ لوگوں کی سطحی فکر تھی۔خوارج اسی بیماری کا شکار تھے ۔ جنگ صفین کے بعد جو گروہ خوارج کے نام سے مشہور ہے انکا اصل ہدف ظواہر دین پر سطحی طور پر عمل کرنا تھا حقیقت سے نا آشنا معارف سے دور فقط ظواہری دین کو ماننا اور عمل کرنے پر موقوف تھا ۔
گذشتہ تاریخی سچائی سے کیا ہم بھی سبق لیں گے یا نہیں تاکہ ہمیں معلوم تو ہو کہ کہیں ہم میں تو وہ تمام عیب موجود نہیں جو آنے والی حکومت کیلئے دشواری اور پریشانی کا سبب بنیں یا اس حکومت کے جاری ہونے میں سدراہ ۔ کہیں ہم سطحی فکر کے حامل تو نہیں ؟کیا ہم میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ ہم حق اور حق نما میں تمیز دے سکیںیا اتنی تیز فہمی ہے کہ ہم قرآن مجید کو نیزہ پر بلند کرنے کا مقصد سمجھ سکیں ۔یقینا آج قرآن تو نہیں مگر عزاداری و نماز کے نازک مسائل کے ذریعے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش جاری ہے۔ کیا ہم میں اسکی حقیقت اور اس میں چھپے مقاصد کو سمجھنے کی صلاحیت ہے؟کیا ہمارے ایمان میں اتنی قوت ہےکہ ہم سایہ فگن فتنہ کو چیر سکے اور اگر ایسا نہیں ہے توصدائے العجل سے پہلے ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ ہم پہلے اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور فکر کو بالا اور پھر اس آفاقی حکومت کے آرزومند ہوں اور اس شخصیت کے منتظر جو اس پُرطلاطم بحر میں سکون برپا کرے گی اوردنیا کو پھر سے سکون دریافت ہوجائیں گے۔