مبصر: ڈاکٹر تہمینہ عباس
علمِ لغت، اصولِ لغت اور لغات
مصنف : ڈاکٹر رؤف پاریکھ
صفحات :۱۹۴، :قیمت درج نہیں
ناشر:فضلی سنز، اردو بازار، کراچی
’’علمِ لغت، اصولِ لغت اور لغات‘‘ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے لغت نویسی اور لغات کے موضوع پر لکھے گئے مقالات پر مبنی کتاب ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا شمار پاکستان کے نامور اور ماہرِ لغت نویس اور ماہرِ لسانیات میں ہوتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو میں ، اردو زبان و ادب کے پروفیسر ہیں۔ اس کتاب کے فلیپ پر مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کے ناظمِ اعلیٰ ڈاکٹر تحسین فراقی کی رائے موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لغات و فرہنگ اور ان کے مباحث و غوامض ایک عرصے سے ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی تحریری کد وکاوش اور دل چسپی کا خصوصی میدان رہے ہیں ، اور ہیں۔ وہ کئی برس تک اردو ڈکشنری بورڈ سے وابستہ رہے۔ وہ ان امور سے کہ لغت کو کن اصولوں پر مرتب ہونا چاہیے خوب آگاہ ہیں۔‘‘
اس کتاب کے حوالے سے خود مصنف کا کہنا ہے کہ ’’کوشش کی گئی ہے کہ لغت نویسی، اصول لغت نویسی، علمِ لغت اور اہم لغات کے ضمن میں کچھ نئے گوشے روشن ہوسکیں۔ یا کم از کم کچھ دھند ہی کم ہوجائے۔ کیوں کہ لغات اور جدید لسانیات پر اردو میں کم ہی لکھا جاتا ہے۔
یہ کتاب ’’علم لغت، اصولِ لغت اور لغات ‘‘ نو تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب ہے۔اس کتاب کے پہلے مقالے کا عنوان ’’علمِ لغت ، لغوی معنیات اور اردو لغت نویسی‘‘ ہے۔ اس مقالے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ لغت نویسی کا تعلق علم لسانیات سے بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی لسانیات، صوتیات، مارفیمیات، معنیات، لغوی معنیات، صرف و نحو، اشتقاقیات وغیرہ لغت نویسی کے لیے مفید اور ضروری خیال کیے جاتے ہیں۔ اس مقالے میں علم لغت،
علمِ لغت اور تین الفاظ لغت نویسی، علم التسمیہ، لغوی ،معنیات اور لغٖویہ کی تفصیلی وضاحت کی گئی ہے
دوسرے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’تاریخی لغت نویسی اور تاریخی اصول: پس منظر اور بنیاد (اوکسفرڈ کی لغت کلاں اور اردو لغت بورڈ کی لغت کے تناظر میں )، اس مقالے میں لغت کی مختلف تعریفوں کے ساتھ تاریخی لغت کی تعریف دی گئی ہے۔ ’’تاریخی لغت لفظ کے صرف مروجہ معنی نہیں دیتی، بلکہ وہ بتاتی ہے کہ لفظ کا ارتقا کیسے ہوا؟ اور اس کے وہ تمام معنی اسناد کے ساتھ درج کرتی ہے جن میں وہ لفظ مختلف تاریخی ادوار میں رائج رہا ہے۔‘‘ اس مقالے میں مصنف نے اردو لغت بورڈ کی لغت، اردو لغت تاریخی اصول پر اور اوکسفرڈ کی انگریزی لغت کلاں کو موضوع بنایا ہے۔ تاریخی لغت نویسی کے حوالے سے یہ ایک عمدہ مقالہ ہے۔
تیسرے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’خصوصی لغت نویسی اور اردو کی چند نادر اور کم یاب خصوصی لغات‘‘ اس مقالے میں خصوصی لغت کی تعریف کرتے ہوئے ی وضاحت کی گئی ہے کہ خصوصی لغت کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔ مثلاً مترادفات، اضداد، کسی خاص علم یا فن ، تلفظ، محاورات، کہاوتوں، سلینگ الفاظ، کی لغت خصوصی لغت کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ ایسی لغات کو اردو میں اکثر فرہنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مقالے میں مصنف نے چند نادر اور خصوصی لغات کا تجزیہ کیا ہے اور انھیں لغت کے معیار پر پرکھتے ہوئے ان کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اس میں، فرہنگِ عثمانیہ المعروف بہ اصطلاحات اسنادی (مؤلف ابو المعارف میر لطف علی عارف ابوالعلائی)، لغاتِ نادرہ (مؤلف نادر حسین عزیز بلگرامی)، دکن کی زبان (مؤلف میر لطف علی عارف ابوالعلائی)، دکنی لغت (مؤلف شعار ہاشمی)، مطالب غرا (مؤلف مولوی نصیر الدین) شامل ہیں۔
چوتھے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’جان ٹی پلیٹس، اس کی اردو بہ انگریزی لغت ، اس کے پیش رو اور مقلد‘‘ جان ٹی پلیٹس ایک مستشرق ہیں۔ انھوں نے اپنی لغت کی تالیف میں تحقیق سے کام لیا ہے۔ پلیٹس کی لغت اپنے پیش روؤں کی لغات سے کہیں بہتر ہے۔ مصنف نے اس مقالے میں پلیٹس کے حالات زندگی بیان کرنے کے بعد، پلیٹس کی لغت کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ پلیٹس اور اسٹین گاس کے عنوان کے تحت مصنف نے پلیٹس کا اس کے پیش روؤں اور مقلدین سے موازنہ کیا ہے۔ مجموعی طورپر یہ مقالہ پلیٹس، اس کے حالات زندگی، تصنیف و تالیفات اور اس کی لغت نویسی کے حوالے سے معلوماتی ہے۔
پانچویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’قاموس الہند: پچپن (۵۵) جلدوں پر محیط اردو کی نادر لغت (تعارف اور چند مغالطوں کا ازالہ)‘‘ ’’قاموس الہند‘‘ ایک بسیط اور کثیر جلدی اردو بہ اردو لغت ہے۔ اس کے مؤلف راجا راجیسور راؤ اصغر کے دنیا سے جانے کے طویل عرصے بعد بھی یہ لغت غیر مطبوعہ ہے۔ پچپن جلدوں پر مشتمل اس کا واحد قلمی نسخہ کراچی یونی ورسٹی کے مرکزی کتب خانے (ڈاکٹر محمود حسین لائبریری) میں موجود ہے۔ مصنف نے اس مقالے میں راجا راجیسور راو اصغر کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ پھر ’’قاموس الہند‘‘ کے بارے میں مختلف مقالہ نگاروں کی رائے نقل کی گئی ہے۔ ’’قاموس الہند‘‘ کی جلدوں کو دیکھ کر جو حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس کی تفصیل دی گئی ہے پھر اس لغت میں موجود خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔’’قاموس الہند‘‘ کے حوالے سے یہ ایک علمی اور تحقیقی مقالہ ہے۔
چھٹے مقالے کا عنوان ہے؛ ’’حالی کی شعری لفظیات اور اردو لغت بورڈ کی لغت‘‘ اس مقالے میں مصنف نے ان نادر قلیل الاستعمال الفاظ، تراکیب اور محاورات کی نشان دہی کی ہے جو متدادل لغات میں کم ہی ملتے ہیں۔ مصنف نے اس مقالے میں حالیؔ کی شعری لفظیات سے نادر الوقوع اور قلیل الاستعمال الفاظ، تراکیب اور محاورات کی نشان دہی کی ہے جو متداول لغات میں کم ہی ملتے ہیں۔ اس مقالے میں صرف وہ معنی درج کیے ہیں جو سند سے برآمد ہورہے ہیں۔
ساتویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’ اردو فارسی اور عربی کہاوتوں کی شعری اسناد‘‘ (جو اردو لغت بورڈ کی لغت میں درج نہیں ) اس مقا لے میں مصنف نے کہاوت اور محاورے کا فرق واضح کرتے ہوئے اردو، عربی فارسی کی ان کہاوتوں کو درج کیا ہے جن کا اندراج اردو لغت بورڈ کی لغت میں نہیں ہے۔ ان کہاوتوں کے معنی اور اشعار کی سند بھی پیش کی گئی ہے۔
اس کتاب کے آٹھویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’فرہنگِ آصفیہ کی تدوین و اشاعت: چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ اس مقالے میں مصنف نے ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے حوالے سے جو غلط فہمیاں عام ہیں ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے مختلف ناموں کی وضاحت کی ہے۔ مثلاً ’’لغاتِ اردو‘‘، ’’ارمغانِ دہلی‘‘، ’’مصطلحاتِ اردو‘‘، ’’ہندوستانی اردو لغات‘‘، ’’مجموعۂ لغاتِ اردو‘‘، ’’سیّداللغات‘‘ وغیرہ، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے بارے میں جو غلط فہمیاں عام ہیں، مصنف نے الگ الگ نکات کی صورت میں ان کی وضاحت کی ہے۔
اس کتاب کے نویں مقالے کا عنوان ہے؛ ’’اٹھارہ سو ستاون سے قبل کی اردو شاعری میں یورپی زبانوں کے دخیل الفاظ‘‘151 اس مقالے میں مصنف نے ان یورپی الفاظ کی سند پیش کی ہے جو ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے قبل مختلف شعرا کے یہاں استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً انشاؔ ، مصحفیؔ ، میر امن کی ’’گنجِ خوبی‘‘، رجب علی بیگ سرورؔ کی ’’فسانۂ عجائب‘‘ میں انگریزی اور بعض یورپی زبانوں کے الفاظ کے استعمال کی مصنف نے سند پیش کی ہے، پھر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اوّلین انگریزی الفاظ نظم اور نثر میں کس کس نے استعمال کیے۔ اردو شاعری میں انگریزی الفاظ کے استعمال کی سند پیش کی ہے۔
ایبل، اردلی، ارگن، الک ٹرسٹی، برجس، بسکٹ، بگی / بگھی، بوتل، پرتگالی / پرتگیز، پرمٹ، پستول، پلٹن، پنسل، پوڈر، توس، جرنل اور اس کے علاوہ بھی کئی انگریزی الفاظ کے استعمال کی مصنف نے مختلف شعرا کے اشعار سے سند پیش کی ہے۔ یہ کتاب تحقیقی مقالہ جات کا مجموعہ ہے۔ لغت اور اس سے متعلق بیش تر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اردو زبان وادب کے طلبہ، لغت سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک خوش آئند اضافہ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔