علم طب کی طرف اسلامی تہذیب اپنے خصوصی مزاج کی وجہ سے ملتفت ہوئی، اسلامی عبادات میں صفائی اور حفظان صحت کے کئ اصولوں کو بطور خاص مد نظر رکھا گیا ہے ۔ایک طبیب/ ڈاکٹر کی فوری توجہ سے اگر ایک انسان بھی صحت مند ہو تا ہے تو گویا وہ پوری انسانیت کو بچاتا ہے، یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس کی وجہ سے علم طب کی اہمیت اور عظمت کئ گنا بڑھ جاتی ہے ۔اسلامی تہذیب کے چودہ سو سالہ طویل دور میں ہمیں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ اطبا کو ان کی طبی تحقیقات کی وجہ سے خلفا نے انہیں قابل گردن زدنی سمجھا ہو، یا علماء نے ان پر کفر و الحاد کا فتوی لگایا ہو ۔
اسلام سے قبل عربوں کے پاس کچھ سادہ سے طبی اصول تھے، مثلا وہ زہریلے جانوروں کے کاٹے کا علاج منتر پڑھ کر یا جھاڑ پھونک سے کیا کرتے تھے ۔۔۔آگ سے داغ دینے یا پچھنے لگوانے کا بھی رواج تھا ۔۔۔جونک لگا کر فاسد خون نکالنے کا طریقہ بھی تھا ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا آغاز ہوا تو کچھ احادیث صحت کے بعض معاملات میں رہنمائ کرتی نظر آتی ہیں،صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ کلونجی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ کالا دانہ بجز موت کے ہر مرض کا علاج ہے "۔
پیٹ کے درد کے لئے رسول اللہ شہد تجویز کرتے تھے، جسمانی توانائی برقرار رکھنے کے لئے اونٹ کا دودھ استعمال کیا جاتا تھا، تبدیلی آب و ہوا کے واقعات بھی عہد رسالت میں ملتے ہیں، دل کی طاقت کو برقرار رکھنے اور رنج و غم کی وجہ سے لاحق ہو جانے والی کمزوری کو دور کرنے کے لیے تلبینہ استعمال کیا جاتا تھا، تلبینہ دودھ، شہد اور چوکر سے ملا کر بنایا جاتا تھا ۔زہر کے خلاف جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لئے رسول اللہ عجوہ کھجور تجویز کرتے تھے ۔بخار کی شدت کو پانی بہا کر کم کیا جاتا تھا ۔ مرض الموت میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بخار تیز ہوا تو آپ نے اپنے اوپر سات مشکیزوں کا پانی ڈلوایا، جس سے بخار کی شدت میں اس حد تک کمی ہوئی کہ اپ نے نماز پڑھائی اور خطبہ دیا (آج بھی میڈیکل سائنس اسی اصول پر کاربند ہے )
عربوں کے پاس ایک اور نعمت غیر مترقبہ تھی، جو ان کی صحت کو بحال رکھتی تھی ۔وہ ہے آب زم زم ۔جس میں کئ امراض سے شفا یابی ہے۔ عود ہندی یا قسط ہندی کو بھی دافع امراض سمجھا جاتا تھا، بخاری میں یہ حدیث موجود ہے کہ "تم اس عود ہندی کو اختیار کرو اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے ”
عرب مسلماں جذام اور طاعون سے واقف تھے، طاعون کو متعدی مرض کے طور پر تو مسلمانوں نے چودھویں صدی عیسوی میں دریافت کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مشہور ہے جس میں لوگوں کو طاعون زدہ علاقوں میں جانے سے روکا گیا ہے، نیز طاعون زدہ علاقوں سے نکلنے کو بھی منع کیا گیا ہے ۔یہ گویا اس طرف اشارہ تھا کہ طاعون ایسا مرض ہے جو ایک سے دوسرے کو(personal contact ) سے لگ سکتا ہے ۔ تاہم
ان خطرناک بیماریوں کا ان کے پاس کوئی علاج نہیں تھا، ان بیماریوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔جب 18ھج میں شام میں طاعون عمواس پھیلا تو اس میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے جن میں حضرت عبیدہ بن جراح، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت یزید بن ابو سفیان جیسے جید صحابہ کرام اور کچھ تابعین عظام بھی شہید ہوئے تھے ۔مجھے حضرت معاذ بن جبل کا واقعہ بھولتا نہیں ۔ان دنوں وہ دمشق میں تھے، پہلے ان کے جوان بیٹے کے جسم پر طاعون کی گلٹی نمودار ہوئ ۔۔۔۔گویا موت کا نقارہ بج گیا ۔۔۔قرنطینہ کا تصور نہیں تھا لہذا مریض گھر ہی میں رہتا تھا، بہرحال اس نو جوان کا انتقال ہو گیا، حضرت معاذ بن جبل اس کی تدفین وغیرہ سے فارغ ہوئے تو ان پر طاعون کی گلٹی نمودار ہو گئ ۔ جو ان کی جان لے کر ٹلی۔اسی صبر کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون سے مرنے والوں کو شہادت کی خوشخبری دی ۔
عمواس، فلسطین کا ایک قدیم علاقہ تھا، جہاں سے یہ طاعون شروع ہوا جس نے آنا فانا شام کے بڑے حصے کو لپیٹ میں لے لیا ۔
بہر حال یہ طب نبوی کی ابتدائی اور سادہ سی شکل تھی جس میں اموی دور میں کچھ اضافہ ہوا اور عباسی دور میں مسلمانوں کا طب پوری دنیا کے لئے مشعل راہ بن گیا ۔جس طرح آج ہم مغرب کی طبی تحقیقات پر نظر رکھتے ہیں اس وقت مغرب، مشرق اور مسلم اندلس کی طرف دیکھتا تھا ۔
علم طب میں مسلمانوں کے اساتذہ یونانی تھے۔انہی کے طبی سرمائے میں آگے چل کر مسلمانوں نے گراں قدر اضافے کئے ۔طب میں مسلمانوں کی خدمات کا بڑے پیمانے پر اغاز دوسری صدی ہجری/آٹھویں صدی عیسوی میں دور ترجمہ سے ہوا ۔
عہد خلافت راشدہ میں جب عربوں نے بازنطینی اور ساسانی ریاستوں پر قبضہ کیا اس وقت یونانی علوم تقریبا مردہ حالت میں ان اہل علم کے ہاتھ میں تھے جو ارسطو، بقراط،جالینوس اور ارشمیدس وغیرہ کی نقل و شرح پر اکتفا کر رہے تھے۔اس وقت یونانی طبی روایات کے موثر شارح یہ تھے۔ ایطیوس (Actios) ،جس کا تعلق امیدا سے تھا ۔۔۔۔۔پال،جس کا تعلق ایجینا سے تھا اور جو اسکندریہ میں رہتا تھا ۔۔۔الیگزینڈر جو روم میں رہتا تھا ۔۔۔۔تھیوفیلوسTheophilos جو قسطنطنیہ میں رہتا تھا اور پروٹوس پتھاریوس وغیرہ ان سب کا تعلق چھٹی صدی عیسوی کے نصف آخر اور ساتویں صدی کے نصف اول سے تھا۔ اس وقت علوم و فنوں کے دو مراکز تھے ۔
1۔۔۔۔۔۔ایران کا شہر جندی شاپور
2۔۔۔۔۔۔۔مصر کا شہر اسکندریہ
جندی شاپور، ایران کے موجودہ شہر اہواز کے قریب واقع تھا ۔آج اس قدیم شہر کی جگہ شاہ آباد نامی گاوں آباد ہے۔جندی شاپور کی بنیاد دوسرے ساسانی بادشاہ شاپور اول نے رکھی تھی، وہ علم کا بڑا قدر دان تھا، اور جندی شاپور کو ایک ایسا علمی مرکز بنانا چاہتا تھا جس کے آگے انطاکیہ کی عظمت ماند پڑ جائے ۔(انطاکیہ بازنطینی شہر تھا ) لہذا شاپور نے جندی شاپور میں ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اور ایک بیمارستان hospital بھی قائم کیا۔
428ء میں جب قسطنطنیہ کے بطریق نسطوریوس کو زندیق قرار دے کر جلا وطن کیا گیا تو اسے اور اس کے ہمخیال عیسائی علماء کو ایران کے ساسانی بادشاہ نے قبول کر لیا اور انہیں جندی شاپور میں آباد کیا ۔ ان میں جو طبیب تھے وہ بیمارستان میں علاج، تدریس اور طبی تحقیقات میں جٹ گئے ۔
اس کے بعد
جب بازنطینی بادشاہ جسٹینین Justinian نے529 ء میں ایتھینز میں فلسفہ کے مکاتب بند کر دئے تو یونانی اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے ایتھنز کو خیر باد کہہ کر جندی شاپور کا رخ کیا، یہ ساسانی بادشاہ کسری نوشیرواں کا زمانہ(531- 579ء ) تھا۔اس نے کھلے بازووں سے افلاطون کے فلسفہ جدید کے ان حاملین کو پناہ دی، انہیں جندی شاپور میں آباد کیا اور ان کی علمی اور طبی تحقیقات نے اس شہر کو مرکز علم و فن بنا دیا ۔
دوسرا علمی مرکز اس زمانے میں مصر کا شہر اسکندریہ تھا ۔اسلامی عہد کے آغاز تک یہاں جالینوس کی بڑی بڑی طبی تصانیف کا خلاصہ تیار کر لیا گیا تھا، بقراط کی طب اور فلسفے کی کتابوں کے تراجم بھی اہل اسکندریہ کر چکے تھے ۔علم الادویہ میں اہل اسکندریہ کا کوئی مد مقابل نہیں تھا۔خالد ابن یزید نے یہیں کے علما کو دمشق بلوایا تھا اور ان سے کیمیا اور طب کی کتابوں کا سریانی اور یونانی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ کرایا تھا۔
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں عربوں نے روم،ایران اور مصر کے بڑے علاقوں کو فتح کر لیا تو گویا دونوں عصری علمی مراکز مسلمانوں کے پاس آ گئے، یہی دونوں مراکز مسلمانوں کے لئے طب کے ابتدائ مدارس ثابت ہوئے ۔
عرب میں جس شخص نے سب سے پہلے علم طب کی تحصیل کی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمعصر حارث بن کلدہ ثقفی تھا، اس نے یمن کے علاوہ جندی شاپور کے بیمارستان سے طبی تعلیم حاصل کی تھی ۔یہ ایران کا بڑا قدر دان تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ناقد اور مخالف ۔ اس کے باوجود ایک صاحب جب پیٹ درد کے عارضے میں مبتلا ہوئے، اور عربوں کے مخصوص ٹوٹکوں کے باوجود صحت یاب نہیں ہوئے تو رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حارث بن کلدہ کے پاس جانے کا مشورہ دیا تھا ۔
بنو امیہ اور بنو عباس کی خلافت کے زمانے میں علما خصوصا اطبا زیادہ تر طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہی دونوں مراکز میں پہنچتے تھے، طب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بیمارستان میں تجربہ بھی حاصل کر کے دمشق اور بغداد پہنچتے تھے، یہ زیادہ تر یہودی اور عیسائ علما تھے، جن کا مسلمان خلفا کھلے بازووں سے استقبال کرتے، انہیں شاہی طبیب کا درجہ دیتے، اور انہیں خلفا کی مکمل سرپرستی نصیب ہوتی ۔ان میں آل حنین، آل بخت یشوع ،آل ثابت ابن قرہ، اور آل ماسویہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ یہی لوگ علم طب میں مسلمانوں کے اساتذہ بھی تھے۔
مسلمانوں نے یونانی، اور ہندی طب سے واقفیت تراجم کے ذریعے حاصل کی ۔تراجم کا سلسلہ اموی دور میں شروع ہو چکا تھا، پہلی خانہ جنگی سے سنبھلنے کے بعد جب امیر معاویہ کے دور میں استحکام حاصل ہوا تو انہوں نے اپنے عیسائی طبیب ابن اثال سے طب کی ایک کتاب کا ترجمہ کروایا، لیکن ان کے پوتے خالد بن یزید جنہیں "حکیم آل مروان "کہا جاتا ہے، نے اسکندریہ سے ماہرین کو بلا کر کیمیا اور طب کی چھ کتابوں کا ترجمہ کرایا ۔ان کتابوں کے نام ابن الندیم نے الفہرست میں دئے ہیں ۔لیکن اس کے بعد پھر مسلمان دوسری خانہ جنگی میں پھنس گئے ۔بعد از خرابئ بسیار سات سال بعد سنبھلے تو ولید بن عبدالملک کے زمانے میں پہلا بیمارستان hospital قائم ہوا ۔مگر یہ جنرل ہاسپٹل نہیں تھا جہاں ہر مریض علاج کے لئے آ سکے بلکہ یہ کوڑھ سے متاثرہ مریضوں کے لئے تھا، اور اچھی بات یہ ہے کہ ان مریضوں کا علاج مفت ہوتا تھا ۔اس کے علاوہ اموی عہد میں مشہور عالم اور طبیب ماسرجویہ جو مذھبا یہودی تھا یہودی تھا، اس نے اسکندریہ کے پادری اہرن بن عین کی کتاب Pandects کا عربی میں ترجمہ کیا تھا، جو اطبا کے نزدیک نہایت قابل قدر تھا، اور مسلمان اطبا نے اس سے پوری طرح استفادہ حاصل کیا ۔
پھر عباسی عہد میں تراجم کا شاندار دور شروع ہوا جو تقریبا ڈیرھ سو سالوں پر محیط ہے یعنی 140ھج تا 288ھج / 757ء تا 900ء ۔ اس دور ترجمہ کا اغاز ابو جعفر المنصور کے دور خلافت میں شروع ہوا ۔منصور کے کہنے پر حنین ابن اسحاق نے طب پر بقراط اور جالینوس کی چند کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ۔حنین ابن اسحاق ہمارا بڑا محسن ہے، خود حکیم اور طبیب تھا، مذھبا عیسائی تھا، یونانی، سریانی اور عربی زبان کا ماہر تھا ۔ مغرب میں اسے Johannitus Onan کہتے ہیں، جندی شاپور سے فارغ التحصیل تھا۔ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا چائیے کہ مشرق میں جالینوس اور بقراط کو متعارف کرانے کا سہرا حنین ابن اسحاق کے سر جاتا ہے، اس نے ان دونوں یونانی حکما کی کسی بھی اہم کتاب کو عربی میں منتقل کئے بغیر نہیں چھوڑا ۔اس کے ساتھ اس کا بیٹا اسحاق، اور بھتیجا حبیش بھی اس سرگرمی میں اس کے ساتھ تھے۔
منصور کے بعد ہارون الرشید اور پھر مامون کے زمانوں میں ترجمے کی یہ سرگرمی عروج پر پہنچ گئ ۔مامون نے بغداد میں جو دارالترجمہ قائم کیا تھا، اس کے ساتھ ایک کتب خانہ بھی تھا ۔مترجمین زیادہ تر نسطوری مسیحی تھے جنہیں یونانی، سریانی، عربی اور اکثر اوقات فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔تراجم بعض اوقات یونانی سے براہ راست عربی میں کئے جاتے اور بعض اوقات یونانی سے پہلے سریانی میں اور پھر سریانی سے عربی زبان میں ترجمہ کئے جاتے ۔اہم مترجمین میں حنین ابن اسحاق، قسطا بن لوقا،عیسی بن یحیی، عبدالرحمن بن علی اور ثابت بن قرہ شامل تھے۔ان مترجمین کو خلفا شاندار مشاہرہ اور معاوضہ دیا کرتے تھے، بعض اوقات یہ معاوضہ سونے میں ادا کیا جاتا تھا ۔
مامون نے اس حوالےسے قسطنطنیہ اپنے وفود بھیجے تاکہ وہ طب،فلسفہ، ریاضی اور موسیقی کی بلند پائیہ کتب حاصل کریں،اس سلسلے میں مامون اور شاہ روم کے درمیان خط و کتابت بھی ہوئ تھی ۔رومیوں کے مذہبی طبقے کے دباو کی وجہ سے یونانی اور سریانی علوم کے خزانے مقفل پڑے تھے۔ مامون کے بار بار کے تقاضے پر یہ قفل کھولے گئے، ان کتابوں کی نقل تیار کرنے کے لیے مامون نے دارالترجمہ سے ایک وفد قسطنطنیہ بھیجا، انہوں نے بڑی عرق ریزی کے بعد چوٹی کی کتابوں کا انتخاب کیا ۔ان کی نقول تیار کیں، بغداد لے کر واپس ائے،ان کے تراجم شروع کئے ۔
تراجم کا یہ سلسلہ مامون پر رکا نہیں بلکہ متوکل نے بھی ایک دارالترجمہ قائم کیا، حنین ابن اسحاق کو اس کا سربراہ بنایا ۔ان سرگرمیوں کے نتیجے میں یونانی فلسفی اور طبیب جالینوس کی 100 کتابوں کا ترجمہ سریانی اور 99 کتابوں کا ترجمہ عربی میں کیا گیا، دیگر تراجم کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے ۔
المختصر ان ڈیڑھ سو سال میں یونانی علوم کے بڑے بڑے مجلدات اسلامی دنیا کو تراجم کے ذریعے حاصل ہو گئے ۔عربوں نے ان کا مطالعہ کیا، غور و خوض کیا، اور پھر اپنے طبی تجربات کا اضافہ کر کے تصنیفی دور کا آغاز کیا ۔
کل سید عبید اللہ جمیل صاحب نے اپنے کمنٹ میں احتکاک کا ذکر کیا تھا کہ دور ترجمہ سے قبل بھی عرب دیگر اقوام سے ربط رکھتے تھے جس نے ان کی پوری سماجیات کو متاثر کیا تھا ۔یقینا ایسا ہی ہے، مسلمانوں میں تراجم کا دور احتکاک ہی کا تسلسل تھا ۔عربوں کی دو بفر اسٹیٹ تھیں ایک حکومت حیرہ اور دوسری حکومت غساسنہ ۔جو بالترتیب ساسانیوں اور بازنطینیوں کے پڑوس میں تھیں، جن سے ان کے تجارتی، معاشرتی اور معاشی تعلقات تھے، علمی ربط کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
بلکہ احتکاک سے عربوں سے زیادہ مغرب نے فائدہ اٹھایا ۔مغرب کی مسیحی دنیا نے مسلمانوں سے علوم صرف ترجمے کے ذریعے اخذ نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے یہ ایک مضبوط اور براہ راست انسانی رابطے کی صورت میں بھی ہوا۔
اب ہم واپس دور ترجمہ پر آتے ہیں ۔جب ڈیڑھ سو سال میں یونانی علوم کے بڑے بڑے مجلدات اسلامی دنیا کو تراجم کے ذریعے حاصل ہو گئے، تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ سریانی کی جگہ عربی نے علمی زبان کی جگہ لے لی ۔اور آگے کے کئ سو سال عربوں کی علمی برتری کے سال تھے۔جو حیثیت جندی شاپور اور اسکندریہ کو حاصل تھی وہ مقام بغداد اور قرطبہ نے حاصل کر لیا ۔دور ترجمہ میں ہی مسلمان اطبا اپنی علمیت منوانے میں کامیاب ہو چکے تھے اور ترجمے کے ساتھ ساتھ مسلمان اطبا کا تصنیفی دور شروع ہو چکا تھا ۔ مشرق اور مغرب(یہاں مغرب سے مراد مسلم اسپین ہے ) میں کئ بڑے بڑے بیمارستان کھل چکے تھے جہان علاج معالجے کے ساتھ ساتھ طبی تعلیم بھی حاصل کی جاسکتی تھی۔
سب سے پہلا مسلمان طبیب جو صاحب تصنیف بھی تھا، ابو الحسن علی بن سہل ربن الطبری تھا( ربن کو ابن نہ پڑھا جائے) وہ 193 ھج میں مرو میں پیدا ہوا، اس کا تعلق ایک عیسائی خاندان سے تھا لیکن خلیفہ متوکل کے زمانے میں 241ھج میں ربن الطبری نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔اس کے والد یعنی سہل ربن الطبری فلسفہ اور طب کا بڑا عالم تھا ۔علی چار زبانوں عربی،سریانی،عبرانی اور یونانی زبان کا ماہر تھا ۔طب پر علی کی کتاب "فردوس الحکمتہ ” ہے۔یہ تیس مقالات پر مبنی ہے ۔کتاب کا مواد زیادہ تر بقراط،جالینوس اور ارسطو کے علاوہ ہندی اطبا کی طبی تحقیقات پر مبنی ہے ۔عربی زبان میں یہ طب کی پہلی طبع زاد تصنیف مانی گئ ہے، جس کو اتنا زیادہ روایت کیا گیا کہ یہ آج بھی موجود ہے ۔1924میں برلن سے شائع ہوئ تھی ۔اس کتاب میں امراض، خواص الادویہ اور غذا کے بارے میں قابل قدر معلومات فراہم کی گئ ہیں ۔
اس کے بعد اسلامی طب مسلسل ارتقاء کے منازل طے کرتی رہی، انہوں نے یونانی اطبا کے تنائج پر ناقدانہ نظر ڈالی اور کئ نظریات کو باطل قرار دے کر متبادل نظریات قائم کئے جو بار بار کے تجربات سے درست ثابت ہوئے ۔یوں مسلمانوں نے یونانی نظام طب کو بعینہ قبول کرنے کے بجائے سخت ناقدانہ اور مجتھدانہ روش اختیار کرتے ہوئے طب عربی/طب اسلامی کا نظام وضع کر لیا ۔
اس میں رازی کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جائے گا ۔رازی کو مغرب میں Rhazes کہا جاتا ہے ۔ابو بکر محمد بن زکریا رازی 251ھج میں رے(ایران) میں پیدا ہوا ۔بغداد میں حنین ابن اسحاق کے ایک شاگرد سے طب کا علم حاصل کیا۔ علی ربن الطبری سے بھی علم حاصل کرنے کی روایت ملتی ہے ۔اس نے یہ علم ادھیڑ عمری میں حاصل کیا تھا ،کچھ عرصہ رے کے ہسپتال کا افسر اعلی رہا پھر بغداد کے ہسپتال میں افسر اطبا(Seniour Doctor ) مقرر کیا گیا، اس طرح رازی کو تجربات کا بہت موقع ملا، رازی غیر معمولی کیسسز کو باقاعدہ نوٹ کر لیا کرتا تھا اور کیس کے ہر مرحلے کی اسٹڈی کرتا تھا، بعض اوقات وہ ایسے مشکل امراض کی تشخیص کر لیتا تھا جس میں دیگر اطبا ناکام رہتے تھے ۔
رازی نفسیاتی علاج پر بھی یقین رکھتا تھا ۔ایک سامانی امیر منصور بن نوح جب پیروں کو مفلوج کر دینے والی بیماری کا شکار ہوا تو رازی کو علاج کے لئے بلایا گیا، رازی نے اس کا علاج نفسیاتی جھٹکے psychological shock دے کر کیا جس سے امیر منصور تندرست ہو کر اپنے پیروں پر چلنے کے قابل ہو گیا ۔
رازی بہت بڑا ماہر تشریح الاعضاء Anatomist بھی تھا ۔اس پر اس کی "کتاب المنصوری” کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔اس کتاب میں وہ دل کی ساخت ،وریدوں veins اور شریانوں arteries کے بارے میں حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے ۔
رازی نے مختلف علوم پر 200 کتابیں لکھیں جن میں خاص طب پر 130 ضخیم اور 28 مختصر کتابیں(جنہیں رسائل طب بھی کہا جا سکتا ہے )شامل ہیں ۔رازی کی سب سے ضخیم طبی کتاب "الحاوی” ہے، اس سے زیادہ مفصل کتاب آج تک کسی طبیب نے نہیں لکھی نہ مشرق میں نہ مغرب میں ۔الحاوی کی تالیف پر رازی نے پندرہ برس صرف کئے، مسلمانوں نے اس علمی ورثے کی بڑی حفاظت کی اور اسے ضائع نہیں ہونے دیا ۔حیدرآباد دکن سے الحاوی 22 جلدوں میں شائع ہو چکی ہے ۔ یہ کتاب عرب میڈیسن میں لینڈ مارک ہے ۔اس کتاب میں طب کے ہر مسئلے پر تمام یونانی اور عرب اطباء کی آرا نقل کرنے کے بعد رازی نے اپنی طبی رائے بیان کی ہے اور دلائل کے طور پر اپنے طبی تجربات بیان کئے ہیں ۔الحاوی کے بعض حصے یورپ میں علم طب کے درسی نصاب میں صدیوں شامل رہے۔
سسلی کے ایک یہودی طبیب فرج ابن سالم نے الحاوی کا لاطینی میں ترجمہ کیا(678ھج/1278ء)۔ یورپ میں زر کثیر خرچ کر کے اس کتاب کو 1486 میں شائع کیا گیا ۔۔۔جس کے پھر 50 سال کے اندر پانچ ایڈیشن شائع کئے گئے
رازی کی دوسری کتاب جس نے مشرق و مغرب میں یکساں شہرت حاصل کی "کتاب المنصوری "یا "طب المنصوری "ہے۔اسے لاطینی میں Liber Almansoris کہتے ہیں ۔ اس میں علم تشریح الاعضاء سے بحث کی گئی ہے ۔
رازی کی کثیر التعداد تالیفات میں سے "الجدری والحصبہ ” وہ مشہور کتاب ہے جس کا یورپ میں بڑا خیر مقدم کیا گیا ۔یہ کتاب چیچک اور خسرہ سے متعلق ہے ۔رازی نے خون کے خمیر میں چیچک کا سبب دریافت کیا اور البرٹ بک سے صدیوں پہلےکئ بیماریوں کے سلسلےمیں جراثیم کی پیدائش کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔آغاز ہی میں اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہو گیا پھر انگریزی ترجمے کے بھی متعدد ایڈیشن شائع کئے گئے ۔
"الطب الروحانی ” یا "طب النفوس "رازی کی وہ کتاب ہے جو روح کی طب پر ہے، اس کتاب میں اس نے بتایاہے کے انسان کے نفسیاتی اور اخلاقی عوارض کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے ۔
رازی کی دیگر طبی تصانیف میں الجامع۔۔۔۔المدخل۔۔۔۔المرشد ۔۔۔الطب الملوکی ۔۔۔۔الکافی اور الفاخر وغیرہ شامل ہیں ۔رازی ہی نے سب سے پہلے الکحل کو دافع عفونت antiseptic کے طور پر استعمال کیا ۔اسی نے سب سے پہلے پارے کو بطور سہل purgative استعمال کیا، جس کو قرون وسطی کے مغرب میں "سفید رازی "album rhasis کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔
رازی کے فلسفیانہ عقائد انکار نبوت پر مبنی تھے،اس حوالےسے اس پر تنقید تو ہوئی لیکن طب کے میدان میں اس ہی کے قول کو قول فیصل مانا جاتا تھا ۔آج بھی پیرس یونیورسٹی کی دیواروں پر دو مسلمان طبیبوں کی تصاویر کو امتیازی طور پر آویزاں کیا جاتا ہے، ایک رازی دوسرے بو علی سینا ۔
رازی کے بعد ایک اور قابل ذکر طبیب علی ابن العباس ہے۔قرون وسطی کے یورپ میں وہ Haly Abbas کے نام سے مشہور ہوا ۔اہواز میں پیدا ہوا مذھبا مجوسی تھا بعد میں اسلام قبول کیا ۔اس کی تاریخ پیدائش نہیں ملتی البتہ اس کا انتقال 384ھج/994ء میں ہوا ۔طب پر اس کی مشہور کتاب "کتاب الملکی ” ہے جسے لاطینی میں Liber Regius کہتے ہیں ۔اسی کتاب کو "کامل الصناعتہ "بھی کہتے ہیں ۔اس کتاب کے دو حصے تھے دونوں 10۔۔۔10۔۔۔۔جلدوں پر مشتمل تھے۔پہلا حصہ نظریاتی طب پر اور دوسرا حصہ عملی طب کا احاطہ کرتا ہے ۔لاطینی زبان میں اس کا ترجمہ 521 ھج/ 1127 ء میں کیا گیا ۔اس کتاب کی ان جلدوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں بھی ہوا جو تشریح الاعضاء سے متعلق تھیں ۔
علی بن عباس سب سے پہلا غذائیت دان nutrition تھا ۔اس نے بڑی احتیاط سے رت،موسم،عمر،اور عادات زندگی life style کے مطابق غذائیں تجویز کی تھیں۔
چوتھی صدی ہجری/دسویں صدی عیسوی کا ایک ممتاز مسلمان طبیب ابن الجزار تھا۔جس کا انتقال 400ھج/1009ء میں ہوا ۔اس نے علم طب ایک مصری یہودی طبیب اسحاق سے حاصل کیا تھا جو تونس میں فاطمی ملوک قیروان کا خصوصی معالج تھا ۔ابن الجزار کی سب سے بڑی طبی تصنیف "زاد مسافر” Provision for the traveller کا ابتداء ہی میں لاطینی میں ترجمہ ہو گیا تھا، لاطینی ترجمے کا نام Viaticum ہے۔اس کا یونانی اور عبرانی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ۔البتہ اس کے یونانی مترجم قسطنطین نے اسے اپنے نام سے منسوب کر لیا تھا ۔
مسلمانوں کے علم طب کی تاریخ کے صرف بہت بڑے بڑے ناموں اور شخصیات ہی کو مینشن کیا جا سکتا ہے ۔
چوتھی صدی ہجری/دسویں صدی عیسوی کی ایک اہم طبی شخصیت ابن الہیثم(Alhazen) ہے،وہ ماہر ہیئت دان،ریاضی دان،فلسفی اور طبیب حاذق تھا ۔254ھج/ 965ء میں بصرہ میں پیدا ہوا، ادھیڑ عمری میں مصر آیا ،چند سال فاطمی خلیفہ الحاکم کی ملازمت میں گزارے اور مصر میں ہی 1039ء میں وفات پائی اور یہیں دفن ہوا ۔ریاضی،ہئیت،طبعیات، فلسفہ اور طب پر دو سو کتابیں تصنیف کیں، تاہم اس کی شہرت ماہر علم البصریات کے طور پر ہوئ، اس حوالےسے اس کی سب سے اہم کتاب "کتاب المناظر” ہے۔اس نے علم المناظر یا علم بصریات کے مطالعہ کی بنیاد ہی بدل دی۔اس کے طبی کارناموں میں آنکھ کی بناوٹ کی تشریح اور بصارت کے مسائل ،امراض و علاج سے بحث کی ہے ۔
ابن الہیثم کا ہمعصر بو علی سینا Avicenna تھا، جو نابغہ روزگار حکیم و طبیب تھا، جسے مشرق و مغرب نے بجا طور پر "شیخ الرئیس ” کا خطاب دیا ۔ 370ھج/980 ء میں بخارا میں پیدا ہوا ۔محض 57 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا اور ھمدان میں تدفین ہوئی ۔وہ سیاسی عدم استحکام کا زمانہ تھا، جس کی وجہ سے ابن سینا کو سکون سے کام کرنے کا موقع نہیں ملا، وہ زیادہ تر سفر میں رہتا، انہیں اسفار کے دوران اس کی کتابیں بھی اس کے ساتھ ہوتیں اور دوران سفر ہی وہ اپنی کتابوں کے خلاصے تیار کرتا اور کتابوں میں اضافے کرتا ۔وہ کئ درباروں سے وابستہ رہا، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس کی زندگی کے آخری سال بڑے پر اشوب گزرے ۔
ابن سینا کا تصنیفی کام عربی اور فارسی میں ہے، اس کی شاہکار تصنیف "القانون فی الطب”Canon ہے،جسے مغرب نے طب کی انجیل کہا ۔یہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے اور اسے طب کی انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے ۔پہلی جلد میں عام اصول طب ہیں۔دوسری جلد میں مفرد ادویہ simple drugs کا ذکر ہے ۔تیسری جلد میں سر سے لے کر پاوں تک تمام امراض اور ان کے علاج کا ذکر ہے ۔چوتھی جلد میں امراض عامہ کا ذکر ہے یعنی وہ امراض جو تمام اعضائے جسمانی کے لئے عام ہیں، کسی عضو سے مخصوص نہیں ۔اور پانچویں جلد قرابادین Pharmacopeia ہے۔یعنی دوائیں بنانے کا طریقہ ۔اسے compound drugs کہا جا سکتا ہے ۔
میڈیکل سائنس میں جدید ترین تحقیق کی اہمیت ہوتی ہے، لہذا ابن سینا کی اس کتاب کے بعد جالینوس،رازی،علی بن عباس وغیرہ کی کتابوں پر انحصار ختم ہو گیا ۔یہ کتاب لاطینی، عبرانی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں ترجمہ ہوئ اور سترھویں صدی عیسوی کے اواخر تک کم از کم پچاس بار شائع ہوئی ۔
ابن سینا نے طب پر پندرہ اور مشہور کتابیں بھی لکھیں ۔ابن سینا کو تشخیص امراض میں بڑی مہارت حاصل تھی۔اسی نے دق کو پہلی بار متعدی مرض قرار دیا ۔اس نے اس خیال کا اظہارکیا کی بہت سی بیماریاں پانی اور ہوا کی وجہ سے پھیلتی ہیں ۔وہ جنسی اور جلدی امراض کی بھی نشاندہی کرتا اور ان کے علاج تجویز کرتا ہے ۔اس نے پہلی بار Meningitis کا تفصیل سے ذکر کیا، وہ نفسیاتی علاج پر بھی یقین رکھتا تھا اور اس کے طریقے بتاتا ہے ۔
المختصر بو علی سینا پانچ صدیوں تک مشرق و مغرب کی طب پر چھایا رہا اور اس کے انکشافات کی قدر ومنزلت آج بھی گھٹائ نہیں جا سکتی
اپنے زمانہ طالب علمی میں میں نے کراچی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں موجود القانون کی جلدوں کا جائزہ لیا تھا ۔اس کتاب کی تمام جلدیں عربی سیکشن میں موجود تھیں اور مجھ سے پہلے کسی نے اس کتاب کو ایشو نہیں کرایا تھا ۔ معلوم نہیں اب یہ جواہر پارہ اپنی جگہ ہے یا گل سڑ کر پھنک گیا
اب یہ صورتحال واضح ہو گئ ہے کہ چوتھی صدی ہجری/دسویں صدی عیسوی کے اواخر تک مسلمانوں کا علم طب پر پورا غلبہ ہو گیا تھا، مصر، شام،عراق، مسلم اسپین اور افریقہ میں کئ ہسپتال قائم ہو چکے تھے، جہاں علاج معالجے کے ساتھ ساتھ طبی تعلیم بھی حاصل کی جاسکتی تھی، بیشتر ہسپتالوں میں علاج، پرہیزی کھانا اور ادویات مفت ملتی تھیں ۔
زیر نظر صدی میں مصر کے حوالےسے دو ماہرین امراض چشم کا ذکر ضروری ہے ۔ایک علی بن عیسی(jesus Haly )اور دوسرا عمار موصلی (Cana mosali) ۔
علی بن عیسی بغداد میں ابو الفرج بن طبیب کا شاگرد تھا،جس نے جالینوس کی شرح لکھی تھی، علی مذہبا نصرانی تھا، اس کی مشہور کتاب "تذکرہ الکحالین ” دراصل معالجین امراض چشم کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے ۔جب عرب میڈیسن کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو علی بن عیسی کا بھی ذکر ہوتا ہے ۔کیونکہ عرب میڈیسن کا مطلب یہ ہے کہ وہ سرمایہ طبی جو بزبان عربی ہو ۔پھر اس میں مذھب کا تعین نہیں ہوتا ۔ میں نے مسلمان اطبا میں اس کا تذکرہ اس لئے کیا کہ بیانیہ کے تسلسل کے لئے یہ ضروری تھا ۔
علی بن عیسی کا ہمعصر عمار بن علی موصلی ہے۔اس کا شمار بھی عربوں کے مشہور کحالوں میں ہوتا ہے ۔پہلے اس کی سکونت عراق میں تھی پھر مصر چلا گیا، اس نے کئ ممالک کی سیاحت کی، طب پر اس کی مشہور کتاب "المنتخب فی علاج العین "ہے۔یورپ خصوصا فرانس میں اٹھارویں صدی عیسوی تک اس سے استفادہ کیا جاتا رہا ۔یورپ میں جب تک کیپلر Keplar کی کتاب نہیں آ گئی علی موصلی ہی کی کتاب مروج تھی۔
علی نے اپنی کتاب میں پہلے آنکھ کی ساخت اور بناوٹ سے بحث کی ہے پھر ان بیماریوں اور ان کا علاج ذکر کیا ہے جو پلکوں،آنکھوں کے گوشوں، پپوٹوں کے اندرونی حصوں، قرنیہ،پتلی اور رطوبت بیضیہ Albumen سے تعلق رکھتی ہیں ۔اس کا نمایاں کارنامہ نرم موتیا بند کا وہ عمل جراحی ہے جس سے وہ دھات کی ایک مجوف نلکی کے ذریعے ، جو اس کی اپنی ایجاد تھی ،مواد کو باہر کھینچ لیتا تھا ۔
مصر ہی کے حوالےسے ایک اور ممتاز طبیب علی بن رضوان ,جو لاطینی میں Haly Rodoam کہلاتا ہے، تھا۔اس نے جالینوس کی کئ کتب کی شرحیں لکھیں، اس نے بھی بغداد سے مصر آ کر یہیں سکونت اختیار کی ۔
مصر سے اسپین ائیں، جہاں امویوں کی حکومت تھی تو طب کے حوالے سے سب سے بڑا نام ابو القاسم الزھراوی کا تھا ۔جسے لاطینی میں Abul Casis کہتے ہیں ۔اسے دنیائے اسلام کا سب سے بڑا سرجن مانا جاتا تھا، قرطبہ میں قیام تھا ۔طب پر اس کی مشہور کتاب "التصریف لمن عجز عن التعالیف ” تھی،جس میں فن جراحت سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی گئ ہیں ۔اس کتاب کا لاطینی میں ترجمہ ہوا اور صدیوں اس سے استفادہ کیا جاتا رہا، یورپ میں سرجری کی بنیادیں استوار کرنے میں اس کتاب نے نمایاں کردار ادا کیا ۔”التصریف ” میں پتے میں سے پتھری کو ریزہ ریزہ کر دینے کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں ۔یہ کتاب یورپ میں اٹھارویں صدی عیسوی تک زیر استفادہ رہی۔زھراوی کا انتقال 404ھج/1013 ء میں ہوا ۔
فیس بک پر کی جانے والی مختصر پوسٹوں میں ہر ایک کا ذکر تو نہیں کیا جا سکتا البتہ ہر صدی کے نمائندہ اطبا کے مختصر تذکرے ہی پر اکتفا کرنا ہو گا ۔
پانچویں صدی ہجری/گیارھویں صدی عیسوی کا ایک ممتاز مسلمان طبیب ابو ریحان البیرونی ہے۔جس کا انتقال 1048ء میں ہوا ۔اس کی شہرت تو ایک ماہر فلکیات، ریاضی دان، ماہر طبعیات، جغرافیہ دان اور مورخ کے طور پر ہے، لیکن وہ ایک طبیب اور ماہر خواص الادویہ بھی تھا ۔طب پر اس کی مشہور کتاب کا نام "صید لیہ ” یعنی دوا سازی pharmacy ہے۔اس کتاب کا انگریزی اور اردو ترجمہ فضل الدین قریشی نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور کی سرپرستی میں کیا۔
چھٹی صدی ہجری /بارھویں صدی عیسوی میں ہم ایک ماہر طبیب کے طور پر ایران کے امام فخر الدین رازی(م 1209ء) کو دیکھتے ہیں ۔وہ جامع العلوم تھے۔تفسیر،کلام،حکمت اور فلسفہ،منطقی علوم وادب،تاریخ ،ہندسہ،اور طلسمات پر کتابیں لکھیں ۔طب پر ان کی سات کتابیں ہیں، ابن سینا کے بعض فلسفیانہ پر کڑی تنقید کی ہے لیکن اس کی القانون کے بہت سے مشکل مقامات کی شرح بھی لکھی ۔امام رازی پر ایک پوسٹ پہلے کر چکی ہوں ۔ میری ٹائم لائن پر موجود ہے ۔
مصر کی طرح اسپین میں مسلمان اطبا اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑ چکے تھے ۔اسپین میں اسلامی طب خاندان ابن زہر(لاطینی میں Avenzoar) کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتا، دو نسلوں میں اس خاندان میں کئ ماہر طبیب پیدا ہوئے ۔اسی خاندان کا ایک مشہور طبیب ابو مروان عبد الملک(م1161) ہے،اشبیلیہ میں فوت ہوا، کئ طبی کتب کا مولف تاہم اس کی کتاب "التیسیر فی المداواتہ والتدبیر” سب سے زیادہ مشہور ہوئ ۔وہ علم الامراض میں اسپین کا بہت بڑا نام ہے ۔
اسپین کے طبیبوں میں ابن طفیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا فلاسفر تھا ۔۔۔قرون وسطی کے زیادہ تر طبیب اعلی پائے کے فلسفی بھی تھے ۔۔۔مجھے نہیں معلوم فلسفہ ان کے طبی تجربات میں کہاں تک ان کی مدد کرتا ہو گا، مگر ایسا تھا ۔ فلسفہ میں ابن طفیل کا جانشین ابن رشد تھا۔
ابن رشد کی شہرت بہ حیثیت فلسفی کے ہے، لیکن وہ ماہر طبیب بھی تھا، طب اس نے اپنے دوست ابن زہر سے سیکھا تھا ۔ابن رشد 1126ء میں قرطبہ میں پیدا ہوا، طب میں اس کی 16کتابوں کا پتا چلتا ہے ،جس میں سب سے زیادہ مشہور "الکلیات فی الطب ” ہے۔جس کا ترجمہ لاطینی زبان میں ایک یہودی عالم نے Colliget کے نام سے کیا ۔
ابن رشد کا ہمعصر عبداللطیف تھا،جس نے علم طب کے حصول کے لئے بغداد اور مصر کا سفر کیا ۔اس نے قدیم قاہرہ کے ایک قدیم قبرستان سے انسانی ہڈیاں حاصل کر کے اپنی تحقیق پیش کی ۔جالینوس نے زیریں جبڑے lower jaw اور مقعد کی ہڈیوں کے بارے میں جو لکھا تھا، عبداللطیف نے اس کی تصحیح کی۔
انسانی ہڈیوں کا حصول قدیم قاہرہ میں کس طرح ممکن ہوا، یہ ہم نے حالیہ دورہ مصر میں خود مشاہدہ کیا ہے ۔وہاں مردوں کو دفن کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر خاندان کا ایک یا دو کمروں پر مشتمل ایک خاندانی قبرستان ہوتا ہے ۔خاندان کا کوئی شخص انتقال کرتا ہے تو اسے کفن پہنا کر اس کمرے میں رکھ دیتے ہیں ۔۔۔جیسے جیسے لوگ مرتے جاتے ہیں، ایک کے بعد ایک مردے کو لٹاتے جاتے ہیں ۔جو مردے گل کر محض ہڈیاں رہ جاتے ہیں ان ہڈیوں کو ایک طرف سمیٹ کر مزید جگہ بنا لیتے ہیں ۔ لہذا کسی بھی افتادہ مدفن سے انسانی ہڈیاں حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔
ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی سیاسی طور پر پر اشوب تھی۔منگولوں کے حملوں کی وجہ سے بہت سے مدرسے، اور شفاخانے تباہ ہو گئے، علمی مراکز کی سرگرمیوں پر بھی شدید اثر پڑا اس کے باوجود ابن قفطی۔۔۔ابن ابی اصیبعہ ۔۔۔ابن خلکان۔۔۔وغیرہ اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ابن ابی اصیبعہ 1203ء میں دمشق میں پیدا ہوا، وہ ابن بیطار کا شاگرد تھا، طب کی تعلیم اس نے مصر کے شفا خانہ ناصری سے حاصل کی، اس کی زندگی کا بیشتر حصہ مصر ہی میں گزرا ۔اس نے اپنی کتاب "طبقات الاطباء” میں 600سے زائد اطباء کے احوال اور تصانیف کے بارے میں لکھا ہے ۔اس کا ماخذ ایک تو وہ کتابیں ہیں جو اب معدوم ہو چکی ہیں اور دوسری وہ سینکڑوں طبی کتب جن سے مصنف پوری طرح باخبر تھا۔اس کا انتقال 1270ء میں ہوا
ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی میں طب کے حوالےسے ایک اور ممتاز نام ابن النفیس کا ہے۔وہ 607ھج/ 1210ء کے لگ بھگ دمشق میں پیدا ہوا، وہیں بیمارستان نوری میں طب کی تعلیم حاصل کی، اس ہسپتال کی بنیاد نور الدین زنگی نے رکھی تھی ۔ابن النفیس محض طبیب ہی نہیں بلکہ فقہ شافعی کا مستند عالم،اصول فقہ، منطق اور صرف و نحو کا بھی ماہر تھا ۔وہ اپنی طبی صلاحیتوں کو نکھارنے لے لئے قاہرہ چلا گیا جو عملی اور نظری طب کے اعلی مرکز کے طور پر خود کو صدیوں سے منوا چکا تھا ۔مصر میں ابن النفیس کو "رئیس الاطباء "کا خطاب دیا گیا،وہ وہاں بیمارستان ناصری سے وابسطہ ہوا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ طب کی تعلیم بھی دیتا رہا۔اس کی سب سے بڑی طبی تصنیف ” الشامل فی الطب” ہے،جو مکمل نہیں ہو سکی اور اس کا ایک ضخیم مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے ۔
امراض چشم کے حوالےسے بھی ابن النفیس کی ایک قابل ذکر تصنیف ویٹیکن میں محفوظ ہے ۔ابن النفیس کی عظمت پچھلی صدی میں ظاہر ہوئی، ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح "تشریح ابن سینا” میں ابن سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے پھیپھڑوں میں دوران خون Pulmonary circulation کا جو نظریہ دیا وہ اس کے مغربی دریافت کنندگان Michael servetus( م 1556)اور Realdo Colombo (م 1559) سے اندازا تین سو سال قبل تقریبا صحیح طور پر ابن النفیس بیان کر چکا تھا ۔مغربی دنیا کو اس نظریے کا علم اس لئے نہیں ہو سکا کہ ابن النفیس کی اس شرح کے تراجم نہ ہو سکے۔لاطینی میں صرف ایک ترجمہ ہوا تھا جو بہت ناقص تھا ۔
اس صدی کا ایک اور اہم نام ابن قفطی کا ہے۔اس کا انتقال دمشق میں 646ھج/ 1248ء میں ہوا، اس کی کتاب "تاریخ الفلاسفہ ” میں 414 یونانی، شامی اطبا، ہیئت دانوں اور فلسفیوں کی سوانح عمریاں شامل ہیں، جو طبی معلومات کا بھی ذخیرہ ہے ۔
چودھویں صدی عیسوی میں(جسے طب اور سائنسی علوم کے حوالے سے مسلمانوں کے آغاز زوال کی صدی کہا جاتا ہے ) مسلم اطباء کی طرف سے طاعون plague کو ایک متعدی مرض contiguous قرار دیا گیا، یہ اس صدی کا بہت بڑا طبی کارنامہ تھا ۔1348ء میں مسلم اسپین کے علاقے المیریا میں طاعون کی زبردست وبا پھوٹ پڑی، جس نے اس خوبصورت شہر کو ویران کر دیا ۔اب تک مسیحی علما اور اطبا اسے عذاب الہی سمجھتے تھے، اس موقع پر متعدد تجربات کے بعد مشہور عرب مورخ ،مدبر، اور طبیب ابن خطیب غرناطی (م 1374ء) نے اپنے رسالے ” المقنعہ السائل عن المرض الھائل ” میں اس کو متعدی مرض قرار دیا ۔ گویا خورد بین کی ایجاد سے پہلے اس نے جراثیم کے بارے میں خبر دی۔
ابن خطیب غرناطی کے ہمعصر طبیب ابن خاتمہ(م1369ء ) نے بھی طاعون پر ایک کتاب لکھی، طاعون پر مسلم اطباء کی یہ تحریریں ان رسائل طاعون سے بہتر ہیں جو یورپ میں چودھویں سے سولہویں صدی کے درمیان لکھے گئے ۔
زیر نظر صدی کے حوالےسے مشرق کا ایک اہم نام رشید الدین فضل اللہ (م1318ء) کا ہے، جو ایل خانیوں کا وزیر با تدبیر تھا، وہ بڑا مورخ اور ماہر طبیب تھا، اس نے ایک طبی دائرہ المعارف تصنیف کی، کئ درسگاہیں اور ہسپتال قائم کئے۔
اس کے بعد کی صدیوں کو اسلامی طب کے حوالےسے زوال کی صدیاں مانا گیا ہے، اس کی حقیقت پر کل آخری قسط میں روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی ۔
علم طب کا ذکر ادھورا رہتا ہے اگر علم الادویا Pharmacy کا بھی احاطہ نہ کیا جائے ۔ لیکن اس طرح تحریر طولانی ہو جائے گی تاہم اپنے مقالے میں اس کا احاطہ کیا ہے ۔
اب تک کے تفصیلی بیان کو یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ علم طب میں یونانی، مسلمانوں کے اساتذہ تھے۔عرب مسلمانوں نے مختلف ذرائع سے تمام و کمال یونانی طب حاصل کرنے کے بعد اس میں گرانقدر عملی و نظری اضافے کئے،اور چونکہ ان کا مذھب بھی اس علم میں معاون تھا اور طب نبوی کے سادہ اصولوں پر وہ پہلے سے کاربند بھی تھے لہذا کسی بندش اور رکاوٹ کے بغیر انہوں نے طبی تجربات شروع کئے، اس راہ میں مزاحم ہونے کے بجائے مسلمان خلفا اور امراء نے اس میں بھرپور تعاون کیا یوں طب اسلامی کی بنیاد پڑی اور مسلمان اطباء تین سو سال تک طب کی دنیا پر چھائے رہے۔
جب بارھویں صدی عیسوی کے قریب مسلمانوں کے قدم اندلس/اسپین سے اکھڑنے لگے اور ان کے علمی مراکز ایک ایک کر کے مسیحی یورپ کے قبضے میں آنے لگے تو ان کی کتابیں، خواہ طب کی ہوں یا ریاضی کی،فلسفہ ہو یا تاریخ، ادب ہو یا سائنس، لاطینی میں ترجمہ ہو کر مغرب منتقل ہونے لگیں ۔
اسپین کا سب سے پہلا شہر، جو مسلمانوں کا علمی مرکز بھی تھا ۔۔۔۔یعنی طلیطلہ Toledo پر 1085پر مسیحی قابض ہو گئے، لا طینی اور مسیحی طلبہ جو پہلے سے یہاں تھے یا قبضے کے بعد یہاں ائے، انہوں نے یہاں عربی علوم و فنون سیکھنے شروع کئے ۔بارھویں صدی عیسوی میں طلیطلہ میں علمی زندگی نے جو صورت اختیار کی وہ کئ اعتبار سے بغداد کے دور ترجمہ سے مشابہ تھی۔جس طرح عباسی خلیفہ مامون الرشید نے دار الترجمہ قائم کیا تھا اسی طرح آرچ بشپ ریمنڈ کے زیر ہدایت ایک دار الترجمہ قائم کیا جو تیرھویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا ۔جو کام بغداد میں عیسائی اور صابی مترجمین نے انجام دیا تھا وہی طلیطلہ میں ان یہودیوں نے انجام دیا جو عربی،عبرانی،ہسپانوی اور بعض اوقات لاطینی میں مہارت رکھتے تھے۔ ترجمے میں جو کارہائے نمایاں حنین ابن اسحاق اور اس کے شاگردوں کے ہیں، اسی طرح کے کارنامے جیرارڈ اور اس کی ٹیم کے ہیں۔
جیرارڈ 508ھج/ 1114ء میں اٹلی میں پیدا ہوا، یہ یورپ میں عربیت کا بانی تھا ۔جس طرح حنین ابن اسحاق نے ماہرین علم کو مشرق میں روشناس کرایا تھا، اسی طرح جیرارڈ نے مسلمان اطبا ،علما، حکما اور ادبا کو ترجمے کے ذریعے مغرب میں روشناس کرایا ۔
سسلی یعنی صقلیہ 130 سال تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا 1091ء(484ھج) میں اس پر نارمن قابض ہو گئے ۔جزیرہ صقلیہ بھی علوم عربیہ کی اشاعت کا بہت بڑا مرکز تھا ۔یہاں بھی قابل مترجمین کی فوج کی فوج عربی علوم کو لاطینی میں ترجمہ کرنے میں مصروف تھی۔تراجم کا یہ سلسلہ دسویں صدی ہجری/سولہویں صدی عیسوی تک جاری رہا، یونانی اور عربی علوم و ادبیات کے صد ہا تراجم نے یورپ کی علمی تقدیر بدل کر رکھ دی۔
پندرھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں فن طباعت ایجاد ہو گیا تو علوم و ادبیات کی کتابیں سرگرمی سے شایع کی جانے لگیں ۔
ان تراجم کی وجہ سے، اور مسلمانوں کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عربی زبان کی علمی حیثیت مجروح ہونے لگی اس کی جگہ پہلے لاطینی اور پھر انگریزی زبان نے لے لی، پھر جب یورپ میں طبع زاد تصانیف کا دور آیا تو یورپ میں "قرون وسطی "کا خاتمہ ہوا اور جدید دور کا آغاز ہوا ۔
طب کے سلسلےمیں علم کا جو سفر یونان سے شروع ہوا تھا، وہ ایران۔۔۔۔عراق۔۔۔۔۔مصر۔۔۔۔۔المغرب سے ہوتا ہوا، اندلس کے راستے دوبارہ یورپ میں پہنچا، جس طرح مسلمان صدیوں علم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بنے رہے اسی طرح کئ صدیوں سے مغرب(یورپ اور امریکہ ) دنیائے علم پر چھائے ہوئے ہیں ۔یہ قانون فطرت ہے علم کا سفر رک نہیں سکتا، لیکن یہ بھی قانون فطرت ہی ہے کہ بغیر سخت کوشش کے یہ گوہر یک دانہ کسی کے ہاتھ نہیں لگتا ۔۔۔۔
کل ہم نے مغرب کے دور ترجمہ کے بارے میں پڑھا اب دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ علوم ترجمہ ہو کر مسیحی یورپ میں پہنچے تو وہاں کس طرح ان کو لیا گیا ۔
انتقال علوم کا یہ سلسلہ 15 ویں صدی عیسوی سے شروع ہو گیا تھا، یہ سائنسی علوم جب مسلمانوں کے پاس تھے تو ان کا مذھب سے ٹکراو نہیں ہوا تھا لہذا مذھب بھی چلتا رہا اور طب و سائنس بھی۔لیکن جب یہ علوم یورپ پہنچے تو ہم سائنس اور کلیسا کا تصادم دیکھتے ہیں، اس تصادم کے بعد پہلی مرتبہ الحاد نے ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر لی۔
سولہویں صدی میں جرمنی کے مارٹن لوتھر کی اصلاحی تحریک بھی شروع ہو چکی تھی، یہ دراصل کیتھولک چرچ کے خلاف ایک احتجاج protest تھا، لہذا یہ پروٹسٹنٹ کہلائے ۔بہرحال یورپ میں سائنس اور کلیسا کے اس تصادم میں سائنسدانوں ،فلسفیوں اور مفکرین کو اپنے علمی و فکری نتائج کی پاداش میں اپنی جانیں قربان کرنی پڑیں ۔گلیلیو اور کوپر نیکس اس کی مثال ہیں۔
جب یورپ میں عقلیت کا آغاز ہوا تو پادریوں کے پھیلائے ہوئے اوہام و خرافات پرسخت تنقید کی گئ، اس سے وہاں کے مذہبی حلقوں میں تشویش پھیل گئی کیونکہ اس طرح کی عقلیت اور آزادئ رائے کا مطلب پا پائیت/ تھیوکریسی کی موت تھا، لہذا ارباب کلیسا نے ان مفکرین اور سائنس دانوں پر کفر و الحاد کے فتوے لگائے اور دین مسیحیت ی کی حفاظت کے نام پر ان کا خون بہانے اور ان کی ملکیتیں ضبط کرنے کی اجازت دے دی ۔کلیسا کے تحت احتساب کی مذھبی عدالتیں لگائی گئیں جن میں تین لاکھ جانیں اس جابرانہ احتساب کی نذر ہوئیں، ان میں سے 32 ہزار افراد کو زندہ جلا دیا گیا ان میں فزکس کا مشہور عالمBronoe بھی شامل تھا ۔
کلیسا کے اس وحشیانہ مظالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کے اہل علم طبقے کو مذھب سے ضد سی پیدا ہو گئ، انہوں نے کلیسا کا زور توڑنے کے لئے مذھب کا انکار کر دیا ۔
مذھب کا انکار کلیسا کا انکار بن گیا،
کلیسا کا انکار خدا کا انکار بن گیا ۔
یوں یورپ میں جو تہذیب اس دور عقلیت میں پروان چڑھی وہ خدا بیزار تہذیب تھی،
خدا کا انکار کرنے کے بعد اب اہل علم میں یہ سوال اٹھا کہ اگر خدا نہیں ہے تو انسان کہاں سے آیا؟اس کی تخلیق کیسے ہوئی؟
اور دوسرا سوال یہ اٹھا کہ اگر کوئی خدا نہیں تو انسان کو راہ عمل کون بتائے گا؟ زندگی کس قانون کے تحت بسر کی جائے گی؟
پہلے سوال کا جواب ڈارون( 1809۔1882) نے دیا اور دوسرے سوال کا جواب کارل مارکس(1818۔1883) نے۔
ڈارون کا جواب مغرب کی خواہش کے مطابق تھا لہذا یورپ میں اس کو خوب پذیرائی ملی ۔کارل مارکس کا جواب ماننے میں برسراقتدار طبقے کو اپنی موت نظر آئ لہذا یہ نظریہ مغرب میں پنپ نہیں سکا ۔
اب دیکھا جائے تو یورپ/مغرب میں مذھب کے زوال کا باعث خود اہل کلیسا بنے ۔ارباب کلیسا کی کم نظری اور بے بصیرتی نے مذھب کو جو نقصان پہنچایا اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے ۔یورپ میں عیسائیت کا زوال، درحقیقت پوری دنیا کے تمام مذاھب کے زوال کا پیش خیمہ بنا کیونکہ یورپ کا اقتدار اور تمدن جہاں جہاں پھیلا، مذھب بیزاری کا ان کا تصور بھی ساتھ ساتھ پھیلا، یوں الحاد کا راستہ ہموار ہوا ۔
جبکہ اسلامی دنیا میں مذھب کا مقدمہ مختلف ہے، اسلام میں کوئ کلیسا نہیں، لہذا اسلامی دنیا میں سائنس کا اسلام سے کوئی تصادم نہیں ہوا، یہ ایک دوسری بحث ہو گی کہ سائنسی نتائج، اسلامی فکر سے متصادم ہوئے تو اسلامی دنیا نے کیسے react کیا۔
اسلامی دنیا میں جو سائنس دان ہوتا تھا وہ طبیب بھی ہوتا تھا، فلسفی اور قاضی شہر بھی ہو سکتا تھا، بلکہ فقیہ بھی ہوتا تھا ۔
زوال علمی بھی ہو سکتا ہے اور سیاسی بھی ۔کسی قوم کے اسباب زوال متعین کرنا کوئی آسان معاملہ نہیں ۔یہ 2+2=4 کی طرز کا کوئ فارمولا نہیں، جسے کسی ایک قوم یا ہر قوم پر منطبق کیا جا سکے ۔بعض اوقات ہم جس کو اسباب زوال سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ علامات زوال ہوتی ہیں۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم دو اقوام کے درمیان تقابل کر کے کسی ایک قوم کے زوال کا فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں ۔حالانکہ وہ مجرد زوال ہوتا ہی نہیں بلکہ درجہ بندی کا فرق ہوتا ہے ۔
مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی آخری معاملہ درپیش ہوا ہے، ان کی علمی قابلیت کہیں زائل یا کھو نہیں گئ بلکہ اقوام یورپ کا علمی قد زیادہ اونچا ہو گیا ۔
ہمارے دانشور جب اسباب زوال متعین کرتے ہیں تو علمی تفوق کا تعلق سیاست سے جوڑنے سے احتراز کرتے ہیں، یعنی وہ یہ نہیں سمجھتے کہ علمی تفوق کا راست تعلق سیاسی استحکام سے ہوتا ہے ۔لیکن تاریخ کا جتنا مطالعہ میں نے اب تک کیا ہے میں اس راست تعلق کی قائل ہو گئ ہوں ۔ یعنی جب تک مسلمان سیاسی طور پر مستحکم رہے، ان کی علمی برتری بھی قائم رہی، جب سیاسی بد حالی مسلط ہوئ تو علمی اعتبار سے بھی حالت دگرگوں ہو گئ ۔(یہاں "علمی "کا لفظ استعمال کیا گیا ہے "ادبی "کا نہیں، دونوں کا فرق آگے واضح ہو جائے گا )
اور ایسا صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ دیگر اقوام کا تجربہ بھی یہی ہے ۔جب تک فراعنہ مصر سیاسی طور پر مستحکم رہے ان کے علوم ہندسہ، ریاضی، سائنس، طب ۔۔۔فن تحریر و تعمیر ہر اعتبار سے وہ اوج کمال پر تھے، جب سیاسی طور پر ختم ہوئے تو ان کے یہ علوم کہیں اور منتقل ہو گئے ۔
یونان کو دیکھیئے کیسے حاملین علم تھے، لیکن جب رومیوں نے ان پر سیاسی غلبہ حاصل کر لیا ۔۔۔یونانی ریاستوں کے کھنڈرات پر رومتہ الکبری کی عظیم الشان ریاست قائم ہو گئ تو رفتہ رفتہ یونانی علوم مردہ ہو گئے ۔
لہذا مسلمانوں کی علمی کمتری کا پہلا سبب تو مسلمانوں کا سیاسی زوال ہے۔ بغداد علم و فن کا مرکز تھا، مشرقی دنیا میں ایسا کوئی گہوارہ علم نہیں تھا،منگولوں کے حملوں نے عباسی خلافت کا خاتمہ کیا کیا، سینکڑوں مدارس، کتب خانے، اور ہسپتال بند ہو گئے یا تباہ ہو گئے،ہزاروں علمی مجلدات جلا دیئے گئے یا دریا برد کر دیئے گئے ۔علما، فقہا، اطبا، متکلمین، مورخین، شعرا اور ادبا کا کوئ والی و سرپرست نہ رہا۔وسائل نہ ہوں تو علوم وفنون ترقی نہیں کر سکتے( صرف شعر و ادب اس حال میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں کہ اس کے لئے کسی لیبارٹری،ہسپتال، یا تجربہ گاہ کی نہیں صرف ایک ٹوٹے ہوئے دل کی ضرورت ہوتی ہے )
بڑے پیمانے پر یہاں سے حاملین علم نے ہجرت کی وہ بغداد چھوڑ کر مصر،شام اور ہندوستان منتقل ہو گئے اور وہاں علمی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے ۔
1492ء میں سقوط غرناطہ ہوا ۔اس سے قبل کی دو صدیاں بھی انحطاط کی صدیاں تھیں جب ایک ایک کر کے علاقے عیسائیوں کے قبضے میں جانے لگے تھے ۔طلیطلہ۔۔۔۔قرطبہ۔۔۔۔اشبیلیہ ۔۔۔۔سرقسطہ اور آخر میں غرناطہ۔پھر شدائد کا ایسا دور آیا کہ تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی ۔ہزاروں مسلمان ملک بدر کئے گئے ۔۔۔۔قتل کئے گئے ۔۔۔۔احتسابی مذہبی عدالت میں پیش کئے گئے، جنہوں نے عیسائیت قبول نہیں کی انہیں آگ کے الاو میں پھینک دیا جاتا ۔کون کہ سکتا ہے کہ کیسے کیسے عالی دماغ نہ قتل کئے گئے ہوں گے ۔۔۔۔نہ جلائے گئے ہوں گے ۔۔۔۔نہ جلا وطن کئے گئے ہوں گے ۔
مدارس بند ہو گئے ۔۔۔۔مساجد، کلیسا بن گئیں۔۔۔۔کتب خانے ویران ہو گئے ۔۔۔۔کتابیں دریا برد کر دی گئیں یا جلا دی گئیں ۔۔۔علمی اکیڈمیاں ویران ہو گئیں ۔
تاہم اس بربادی سے قبل، تراجم کے ذریعے بہت سے عربی اور اسلامی علوم مغرب منتقل ہو چکے تھے ۔جس پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے ۔
ان سب پر مستزاد یورپی استعماریت western imperialism تھی ۔سترھویں اور اٹھارویں صدی مغربی استعماریت کی صدیاں ہیں ۔مسلمان اس وقت بھی بڑی طاقت تھے ۔دولت عثمانیہ شان و شوکت سے موجود تھی لیکن مغربی استعماریت اس کے پر کترنے شروع کر چکی تھی ۔سلطنت عثمانیہ رقبے کے اعتبار سے بہت بڑی تھی، مغرب نے ان کے عرب علاقوں میں قوم پرستی اور علیحدگی کی تحریکیں شروع کر رکھی تھیں ،شام اور مصر میں ان زہریلے نظریات کی کاشت شروع ہو چکی تھی ۔خلافت عثمانیہ کی تمامتر توانائیاں اپنے علاقوں کو متحد اور مجتمع رکھنے میں صرف ہو رہی تھیں،لہذا ان کا فوجی اور عسکری نظام بڑھتا اور پھیلتا رہا ،علمی سرگرمیاں پس پشت چلی گئیں ۔
کون سا ملک مغربی استعماریت سے بچ سکا؟ہندوستان، ایران، شام،مصر،مراکش ،لیبیا، سوڈان، انڈونیشیا وغیرہ وغیرہ ۔استعماری دور کی تاریخ بہت خوفناک ہے، ہندوستان میں برطانوی دور کی بنائ گئ سڑکوں اور پلوں کی مظبوطی پر ہم آج بھی تالیاں بجاتے ہیں، لیکن بند کئے گئے اوقاف نظر نہیں آتے جنہوں نے آن کی آن میں مسلمانوں کو جاہل بنا دیا ۔۔۔۔وہ معاشی اقدامات نظر نہیں آتے جس نے اس سونے کی چڑیا کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
جو علاقے فرانسیسی استعماریت کو بھگت چکے ہیں، وہ صدیوں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں ہو سکیں گے، در آں حالیکہ انہیں فرانس سے آزاد ہوئے ستر سال سے اوپر ہو رہے ہیں ۔
المختصر اس طرح اسلامی دنیا اپنی بقا کی جنگ میں الجھ گئ یا الجھا دی گئی اور علمی محاذ پر ان کی کارکردگی ختم ہونے لگی ۔
ختم شد ۔