علمِ عروض ایسا علم ہے جس سے کسی بھی شعر کا وزن معلوم کرنے اور یہ جانچنے کہ آیا شعر موزوں ہے یا نا موزوں ، شعر وزن میں ہے یا وزن میں نہ ہے ۔اسی علم کے تحت اشعار کے مختلف اوزان مقرر کیے گئے ہیں ان اوزان سے بحر بنتی ہے ۔
شعر کہنا اور شعر کے اصولوں یا شعر کے قواعد و ضوابط کے خلاف کہہ گزرنا ہر گز شعر نہیں کہلاتا ۔۔ اگر کوئی شخص جس کے اندر شعر کہنے کی صلاحیت ہے اور وہ علمِ عروض سے بے خبر ہے۔ اسے یہ کہا جائے کہ اس کا شعر وزن میں نہ ہے ۔ اس لیے اسے شعر بالکل بھی نہیں کہہ سکتے ۔ تو وہ فوراً حیرت میں مبتلا ہوتا ہے اور سوچتا ہے کہ میرا شعر کتنا اچھا تھا ، کتنا عمدہ تخیل ،کتنی گہرائی والی بات صرف چند لفظوں میں میں نے بیان کی یا کہی پھر بھی اسے شعر میں کیوں شمار نہیں کیا جاتا ۔ شعر میں شمار اس لیے نہیں کیا جاتا کیونکہ شعر کہتے وقت شعر کے قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ شعر کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کیجائے ۔تو یہ قواعد و ضوابط یا اصول ہمیں علمِ عروض سے معلوم پڑتے ہیں کہ شعر کن چیزوں سے مل کر بنتا ہے ۔
میں یہ خیال کیے ہوئے ہوں کہ عروضی علم کی جو بنیادی باتیں میری سمجھ میں آئی ہیں وہ آپ احباب کے سامنے رکھی جائیں ۔ اگر آپ ان بنیادی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے شعر لکھیں یا کہیں تو یقینا پھر شعر کے معیاری ہونے میں کوئی شک و شبہ نہ رہے گا ۔ اور اگر احباب ان بنیادی چیزوں کو ٹھیک سے سمجھ گئے تو آگے وہ اس علم کو آسانی سے سمجھ سکیں گے کیونکہ اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے کہ علم ِ عروض کس قدر وسیع علم ہے یا یہ معلوم کرنا کہ علمِ عروض پر کتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔
شعر کیا ہے ؟
مولانا شبلی نعمانی شعر کی تعریف یوں کرتے ہیں۔ "جو جذبات الفاظ کے ذریعے ادا ہوں شعر ہیں۔"
عام لفظوں میں شعر کا مطلب ،بہت گہرائی والی بات یا بہت بڑی بات صرف چند لفظوں میں بیان کرنا ۔
شعر میں یہ چیزیں ہونا ضروری ہیں ۔ وزن ،بحر، ، قافیہ اور ردیف (ردیف کے بغیر بھی کئیں شعرا نے کلام لکھا پر زیادہ تر شعرا نے ردیف استعمال کرتے ہوئے کلام لکھا ۔ اردو اور فارسی زبان کی شاعری میں ردیف استعمال ہوا ہے باقی زبانوں میں ردیف نہ ہے۔
مختصر تعارف :
وزن :لغت میں وزن کو "تولنا " کہتے ہیں ۔ علم ِ عروض میں وزن سے مراد " شعر کا موزوں یا ناموزوں ہونا معلوم کرنا "
بحر: عروضی ارکان کے ملنے سے بنتی ہے ۔ عروضی ارکان کی تکرار سے اشعار کے لیے جو وزن حاصل کیا جاتا ہے اسے بحر کہتے ہیں.
قافیہ : قافیہ اشعار میں الفاظ کے ساتھ غیر مسلسل طورپر آخر میں بار بار آتے ہیں۔مثال دیکھیے
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے غالب۔۔
اس شعر میں قوافی "ہوا " اور "دوا " استعمال ہوئے ہیں ۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہین ہر پیکرِ تصویر کا
اس شعر میں قوافی " تحریر" اور " تصویر" استعمال ہوئے ہیں ۔
ردیف : قافیہ کے بعد جو الفاظ مسلسل تکرار سے آئیں ردیف کہلاتا ہے۔ مثال دیکھیے ، غالب انہیں اشعار میں ۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے غالب۔۔
اس شعر میں ردیف ، "کیا ہے ""کیا ہے "
پہلا کام شعر کا وزن معلوم کرنا ہے ،شعر کا وزن تقطیع کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے ۔ تقطیع سے مراد شعری الفاظ کے الفاظ کی آواز پہ ٹکڑے کرنا ، الفاظ الگ الگ کرنا ۔تقطیع کرنے کیلئے ضروری ہے کہ لفظوں کی ادائیگی ٹھیک سے کی جائے ، تلفظ صحیح ہو ۔ اگر تلفظ صحیح نہ ہو گا تو تقطیع نہ ہو گی یعنی تقطیع غلط ہو گی تو شعر کا اصل وزن معلوم نہ ہو گا ۔ مثال کے طور پر لفظ "خواہش" اس لفظ کا صحیح تلفظ "خا ہش" ہے نہ کہ "خا وا ہش" ۔ "خواب "صحیح تلفظ "خاب" نہ کے خا واب ۔
یہاں ہم پہلے لفظوں کی تقطیع کرتے ہیں ۔
خواہش : خا+ہش
خواب: خا+ب
زندگی : زن+ دِ+ گی
پیار : پ+ یا+ ر
نفرت : نف +رت
مشکل : مش+ کل
آ سان: آ+ سا +ن
قربان : قر+ با +ن
نظر : ن +ظر
حقیقت : ح +قی+ قت
آپ ٹھیک سے تقطیع کی مشق کر لیجئے پھر اگلے سبق کی طرف بڑھیں گے ۔ شکریہ