کیا سائنس پڑھنا یا نئی معلومات حاصل کرنا آپ کو بہتر انسان بنا رہا ہے؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ پہلے بات کچھ تجربات کی۔
دنیا میں بڑھتا درجہ حرارت امریکہ میں سائنس سے زیادہ سیاست کا مسئلہ بن چکا ہے جس پر کئی لوگ خاصی مضبوط رائے رکھتے ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں کئے گئے تجربے میں پہلے لوگوں کی رائے پوچھی گئی جس سے شناخت کیا گیا کہ کون لوگ گلوبل وارمنگ میں انسانی کردار کی حمایت میں ہیں اور کون مخالفت میں۔ پھر ان کو دو الگ گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ ایک کو بتایا گیا کہ نئی تحقیق سے پتا لگا ہے کہ گلوبل وارمنگ اس سے کہیں زیادہ ہو رہی ہے جتنا پہلے خیال تھا۔ اس پورے لیکچر کے بعد لوگوں سے ان کی رائے پوچھی گئی۔ یہ نئی معلومات جن لوگوں کے مؤقف کی حمایت کرتی تھی، ان کی رائے اس بارے میں اور مضبوط ہو گئی تھی، جبکہ مخالف رائے رکھنے والوں کی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ یعنی معلومات کے اضافے نے لوگوں کو دور کر دیا تھا۔ دوسرے گروپ کو یہ بتایا گیا کہ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ سائنسدانوں کے پہلے کے تمام اندازے غلط تھے اور زمین گرم نہیں ہو رہی۔ اس گروپ میں بھی اس نئی معلومات کا نتیجہ لوگوں کی مزید دوری کی صورت میں نکلا۔ یعنی صرف نئی معلومات سے آگاہی لوگوں کو جوڑتی نہیں، توڑتی ہے اور فیکٹ بتانا کسی کو قائل نہیں کرتا۔
دوسرا تجربہ اسی طرح گن کنٹرول پر تھا جس میں لوگوں کے دماغ کا سکین کیا گیا۔ اس سے پتہ لگا کہ جب لوگ اپنے خیال کے حق میں بات سن رہے تھے تو دماغ کی ایکٹیویٹی زیادہ تھی۔ جب مخالف دلیل سنی تو یہ بہت کم ہو گئی، یعنی دماغ سن تو رہا تھا لیکن اس معلومات کو پراسس نہیں کر رہا تھا۔
تیسرا تجربہ اس بارے میں کیا گیا کہ کیا سیلیکٹو انفارمیشن پراسسنگ کا کوئی تعلق ذہانت سے ہے یا نہیں، اس کے لئے پہلے لوگوں کا آئی کیو ٹیسٹ کیا گیا۔ اس سے پتہ لگا کہ ذہانت سے اس کا تعلق معکوس ہے۔ زیادہ ذہین لوگ نہ صرف اپنے مؤقف کے حق میں دلائل کو قبول کرتے ہیں بلکہ مخالف دلائل کا ڈیٹا اس طریقے سے ترتیب دیتے ہیں کہ وہ یا اپنے ہی مؤقف کی حمایت کریں یا پھر اپنی اہمیت کھو دیں۔
ان تجربوں کے نتائج علم اور ذہانت کے بارے میں اچھی تصویر نہیں دکھاتے لیکن کیا اختلاف کے باوجود مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔ اس پر کامیاب تجربہ ویکسین کے مخالف والدین کو اپنے بچوں کو خسرہ کی ویکسین کے بارے میں آمادہ کرنے پر رہا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ویکسین کی افادیت کے بارے میں کسی قسم کے اعداد و شمار یا پھر آٹزم کو ڈسکس ہی نہیں کیا گیا بلکہ صرف مشترکہ دلچسپی کے ٹاپک یعنی بچے کی صحت اور خسرہ کے نقصان پر بات کی گئی جو طریقہ کامیاب رہا۔
ان سے آپ علم، ذہانت اور دانائی کے درمیان جو بھی تعلق نکالنا چاہیں لیکن انفرادی طور پر آپ اپنا تنقیدی جائزہ خود ہی لے سکتے ہیں۔