میں تھوڑا بہت شروع سے ہی لکھنے کا شوق رکھتا تھا ، لیکن ۲۰۱۳ میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئ جنہوں نے کتاب لکھنے کی ترغیب دی ۔ میں نے کہا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں لکھنے کو ، لکھ اچھا سکتا ہوں ، مواد کوئ نہیں ، انہوں نے فرمایا “آپ کا اپنا تجربہ “ میں مسکرایا اور کہا کے وہ تجربہ تو ایک مادی زندگی میں ناکام شخص کا ہے ، اس کو پڑھنا کون پسند کرے گا۔ آج مجھے ان کے سنہری الفاظ یاد آ رہے ہیں ۔ ہم سب دراصل سوچ کے مالک ہیں ۔ ایک منفرد سوچ کے ، وہی خدا ہے اور وہی ہمارا وجود یا being ۔ جسم تو گوشت پوست کا لوتھڑا ہے جو ایک نہ ایک دن ہماری روحانی شناخت کو اس طرح چھوڑ جائے گا جیسے ہر سال سانپ کی کھال ۔ جاناتھن نے اپنی بہت ہی معترض کتاب کے نتائج والے باب میں دو بہت خوبصورت conclusions draw کیے ہیں ۔ ایک میں وہ مشہور لکھاری Lorna کو quote کرتا ہے ؛
“We must each of us play our part “
اور جوناتھن اسے کیا زبردست بیان کرتا ؛
Each of us will face tests specially tailored to our own individual strengths and weaknesses. How we approach them – or turn away from them- will change the course of our lives.
اور نہ صرف ہماری زندگیاں بلکہ ؛
They will affect , too, the future evolution of humanity
یہ زندگی کے مسائل کسی ایک فلسفہ سے نہ حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہو سکے ۔ نہ تو کارل مارکس کا معاشیات والا بیانیہ اس کو سمجھ سکا نہ ہی سگمنڈ فرائیڈ کا جنسیات ولا اور نہ ہی ڈاکنز کا مادہ پرستی کا ۔ دراصل جوناتھن ٹھیک کہتا ہے کے ؛
“God wants us to be stupid
کیونکہ یہ سارے جتنے کے جتنے فلسفہ ہیں یہ fundamentalist فلسفہ ہیں اور ہمیں آئیڈلسٹ بناتے ہیں اور مزید ہمیں سوچنے سے روکتے ہیں ؛
About the mystery of life
میرے بلاگز پڑھنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوان لوگوں کی ہے ، ان کو میں ہمیشہ کہتا ہوں کے idealism سے پرہیز کریں ۔ اس سے بچیں ۔ یہ دیمک کی طرح آپ کا دماغ چاٹ جاتا ہے ۔ آپ کی سوچ کی قوت کو کھا جاتا ہے ۔ یہی idealism آپ کو خودکش بمبار بناتا ہے ۔ مجھے ہمیشہ گروپ ورکنگ اور گروپ thinking پر بہت اعتراض رہا ہے وہ انسانی تخلیق کو تباہ کرتا ہے ۔ brain storming کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن کسی گروپ کی صورت میں وہ پھر المناٹی بن جاتا ہے ۔ سول اور ملٹری بیوریوکریسی کے لیے تو وہ ٹھیک ہے صرف قانون لاگو کرنا ہوتا ہے اور محدود باکس میں رہ کر سوچنا ہوتا ہے ۔ لیکن ایک عام انسان کے لیے پھانسی کا پھندا بن جاتا ہے خاص طور پر جب وہ مقابلہ سے باہر ہو کر isolate کر دیا جاتا ہے ۔
آجکل میں نیوجرسی کی جس لائبریری میں جاتا ہوں وہ ۱۹۷۴ میں قائم ہوئ ۔ اس اتوار میں کوئ بارہ چالیس پر لائبریری پہنچا ۔ اتوار کو لائبریری ایک بجہ کھلتی ہے ، کوئ پچاس لوگ لائبریری کے کھلنے کا انتظار باہر شدید سردی میں کر رہے تھے ۔ کل مینیسوٹا سے ایک پاکستانی دوست بتا رہے تھے کے آج سے بیس سال پہلے اس نے گھر میں ٹائیلیں لگانی تھیں تو وہ لائبریری گیا تو کوئ پچاس کتابیں مل گئیں صرف ٹائلیں لگانے پر ۔ وہ مزید کہ رہا تھا کے امریکہ میں ہر کوئ اپنے حصہ کا علم لکھائ کی صورت میں چھوڑ جاتا ہے تا کہ آنے والی نسلیں مزید پھر اس سے آگے بڑھ کر لکھیں اور یہ معمالہ نسل در نسل چلتا رہے ۔ یہی کام چارلس ڈکن ، جارج ایلیٹ اور ٹالسٹائے نے کیا تھا کے انسانوں کو evolve ہونے میں مدد دی ۔ اس میں جوناتھن کے ہی نزدیک ؛
Empathy, sympathy, intelligence of the heart, intelligent care for others, being slow to judge, tolerance, decency, probity, moral imagination, moral courage ….
یہ ساری خوبیاں کار فرما ہوتی ہیں ۔ اور یہی عظیم لکھاریوں ، شاعر ، ادیب اور ناولسٹ کا طُرہ امتیاز رہا ہے ۔
ہم پاکستان میں مار اُدھر کھا گئے ، جہاں ہم نے success کو پیسہ کے ساتھ جوڑ دیا ۔ کوٹھیوں ، بنگلوں، کاروں اور جہازوں کو انسانی تخلیق کی معراج سمجھا ۔ اوہ بھائ وہ تو اہرام مصر کھڑے کرنے والے بھی روحانی لوگ تھے مادہ پرست نہیں تھے سائنس تو آج بھی اس طرح کے اہرام اربوں ڈالر لگا کر بمشکل بنا پائے ۔ وہ تو انسانی روح کی تخلیق تھی نہ کے سیمینٹ بجری کی ۔ اتنا تخلیقی ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے سی ایس ایس اور مادی اہداف کے چکر میں کے ناقابل بیان ہے ۔ میں جب بھی یہ کہتا ہوں کے اگلا روحانی انقلاب امریکہ سے آئے گا تو چند نادان دوست پاکستان سے ایسے کاٹنے کو دوڑتے ہیں جیسے خدا صرف عرب والوں کا ہے ۔ ہم تو جناب ابھی اس oneness میں ہی نہیں آئے جو پہلی سیڑھی ہے روحانیت کی طرف ۔
اب تو سوشل میڈیا نے اس علم کے پھیلاؤ کو بہت آسان کر دیا ہے ۔ میں ایک دفعہ پھر رانا انعام کی مکالمہ اور روفی تبسم کی ادراک ڈاٹ کام کی تعریف کروں گا جو اس مشعل کو زبردست طریقے سے جلائے ہوئے ہیں ۔ اتنی سارے لوگوں کو اپنے تجربہ شئیر کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں کا بھلا ہو جاتا ہے ۔ اپنے آپ کو تخلیق کے ساتھ جوڑیں نہ کے پیسے ۔ مادہ پرستی والی کامیابی تو کیکرپر انگور چڑھانے کے مترادف ہے؛
نیچاں دی آشنائ کولوں تے فیض کسے نئیں پایا
کیکر تے انگور چڑھایا ہر گُچھا زخمایا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...