جیمز ویب ٹیلسکوپ کو بنانے میں تقریباً 25 سال لگے، اس پر کل لاگت کا تخمینہ 10 ارب ڈالر ہے۔ 1998 میں خلا میں تعمیر کیا جانے والا انٹرنیشنل سپیس سٹیشن جسکے کئی حصوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کیا جاتا رہا، اس پر اب تک 150 ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ہبل ٹیلیسکوپ کے بننے سے اب تک اس پر 16 ارب ڈالر سے زائد خرچ ہو چکا ہے، اس میں اسکی مرمت کا خرچہ شامل نہیں۔
اسی طرح سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر دنیا کی سب سے جدید ایٹم کی تحقیق کرنے والی تجربہ گاہ سرن لیب جو زہرِ زمین ایک طویل سرنگ ہے جس میں ایٹمی ذرات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کو بننے میں 10 سال سے زائد لگے اور اس پر 5 ارب ڈالر کے قریب خرچ آیا ۔ سرن پر ہر سال اُٹھنے والا خرچہ 5 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ ایسے ہی دنیا کی جدید تجربہ گاہیں اربوں ڈالر پیسہ خرچ کر کے ذہین دماغوں کا استعمال کرتے ہوئے نئی سے نئی سائنس متعارف کراتی ہیں۔
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جن لوگوں نے اتنا پیسہ سائنس پر لگا کر تحقیق کی ہے اُنکی تحقیق کو آپکو جھٹلانے کے لیے ان سے زیادہ بڑی لیبارٹریاں اور زیادہ مہنگے تجربات کرنے پڑیں گے۔ ہوا میں مکے لہرا کر، منہ سے جھاگ نکال کر اور بریانی سے نہاری کے سفر کو جاتے ہوئے فیس بک پر انکی سائنسی کاوشوں کو جھٹلا کر انکو کوئی فرق نہیں پڑنا۔ حقیقت پسند بنیں ، کائنات کو سمجھنے اور دنیا میں نیا علم حاصل کرنے کا راستہ کٹھن ہے۔ نہ ہوتا تو ہر کوئی نئے علم کی ریڑھیاں لگا کر سستے داموں اسے پیاز ٹمامٹر کے بھاؤ بیچ رہا ہوتا۔ تحقیق اور تجربات کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...