(Last Updated On: )“How do you know so much?”
(’’تُم اِتنا زیادہ کیسے جانتے ہو؟‘‘)
ویسے میَں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
تم کہتےہو تو پھر اچھا ، دیکھا ہے
زندگی میں کئی اُتار چڑھاؤ آنے کے باوجود میَں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتاتھا کہ ایک دِن میری آنکھوں پر پَٹّی باندھ کر مُجھ سے انگریزی میں ایسا احمقانہ سوال بھی کیا جائے گا۔ کیا عِلم کی زیادتی بھی خطرناک سمجھ کر کسی کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہے؟ محض اِس لئے کہ کہ دونوں کانوں کے درمیان میری کھوپڑی کے اندر یہ عِلم تھا کہ ہمارے پیارے وطن میں ٹیکنالوجی کی کیا صورتِ حال تھی ، کہ لوگ مُجھ پراِتنااعتماد کر سکتے ہیں کہ کِسی بھی دفاعی ادارے نے مُجھ سے کُچھ بھی خریدنے کے لئے میری اور میری کمپنی کی سیکیورٹی کلیئرنس نہ مانگی نہ کروانے کی زُحمت گوارا کی تھی اِس معاملے میں میرا قصور کیا تھا؟
’’یہ چلتا پِھرتا ایٹم بم کب سے اِسلام آباد میں گھوم رہا ہے؟ اِس کو بند ہی کرنا پڑے گا‘‘
بند آنکھوں اور کُھلے کانوں سے میَں ایک اَن دیکھے تفتیشی حضرت کا اپنے ساتھیوں سے کیا گیا طنزیہ سوال اور فیصلہ سُن رہا تھا۔
میَں تو لب کھول کے پابندِ سلاسل ٹھہرا
تیری بات اور ہے تُو صاحبِ محفل ٹھہرا
کسی کے سوال پر کہ میَں نے اپنی زندگی کے لئے فزکس کا مضمون کیوں چُنا میَں نے اُسے یہ قِصہ بتایا تھا۔
آئن سٹائن نے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں فزکس کا ایک امتحان لیا۔ ایک دوست نے پچھلے سال کے امتحانی پیپر سے موازنہ کے بعد حیرانی سے آئین سٹائن سے پوچھا ’’حالیہ سال اور پچھلے سال کے پیپر دونوں کے سوالات ایک جیسے ہی ہیں! وہ کیوں؟‘‘
آئن سٹائن نے جواب دیا، ’’اسلئے کہ پچھلے ایک سال میں جوابات بدل گئے ہیں!‘‘
کئی بار اس کی خاطر ذرّے ذرّے کا جِگر چیرا
مگر یہ چشمِ حیراں، جِس کی حیرانی نہیں جاتی
میَں بھی ماضی کی فرسودہ دقیانوسی روایات کو رٹّا لگانے کی بجائے ایسا عِلم سیکھنا چاہتا تھا جس میں سوال تو ہمیشہ وہی رہیں لیکن جواب ہر سال بدل جائیں۔ میَں ایسا اُستاد نہیں بننا چاہتا تھا جس نے کِسی میٹنگ میں بڑے فخر سے اپنے اکیس سالہ تجربے کا دعویٰ کیا تھا لیکن کسی نے اُس کو یہ کہتے ہوئے چُپ کروا دیا تھا ’’ نہیں! تم نے پہلے سال کے تجربے کو بیس دفعہ دُہرایا ہے!‘‘
اب یہ لکھتے ہوئے میَں سوچتا ہوں۔ ہماری قوم کی پسماندگی کا بنیادی مسئلہ یہی لگتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس عِلم سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں وہی عِلم ہمیں وہاں تک لے جائے گا۔ کیا ہم سب اشفاق احمد کے ریڈیو ڈرامے تلقین شاہ کے کردار ہدائیت اللہ کی مانند ہیں؟ ’’ہدایت اللہ تیَں ترقی نہیں کرنی!! تیَں بے ہدائیتا ہی رہنا‘‘۔
ایک مشہور فلاسفر ٹی ایچ ہَکسلی نے لکھاتھا،’’جو ہم جانتے ہیں وہ محدود ہے، جو نہیں جانتے وہ لا محدود۔ عقلی طور پر ہم ایک چھوٹے سے جزیرے پر کھڑے ہیں جو چاروں طرف سے ایک لا محدود نا قابلِ تفہیم سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ہماری ہر نئی نسل کا کام یہ ہے کہ وہ اس سمندر کو پیچھے دھکیل کر جزیرے کو ذرا اور بڑا کرتی جائے ‘‘۔
اپنے پیارے وطن میں اگلی نسلوں سے میَں بھی یہی اُمید رکھتا ہوں۔۔۔۔
رات کو سونے سے پہلے اپنے والد صاحب باؔجی کے ساتھ کہانی سننے لیٹا تو یاد آیا میَں نے کچھ پوچھنا تھا۔’’باؔجی! آج اسکول میں ہیڈ ماسٹر صاحب ہم سب کو زور زور سےکوئی حدیث سنا رہے تھے، ’’ بَچو! علم حاصل کرو خواہ چِین جانا پڑے‘‘۔ اسکول جانا تو مجھے سمجھ آ گیا کہ وہاں لکھنا پڑھنا سکھاتے ہیں۔ یہ چِین والا علم کون سا ہوتا ہے ‘‘؟
باؔجی نے جواب دیا ، ’’میاں باگی!دو باتیں کہوں گا۔ایک تو یہ کہ اس حدیث کو صحیح نہیں مانا جاتا یعنی ضعیف یا من گھڑت کہاوت کہا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ اُس زمانے میں موٹر گاڑیاں اور ہوائی جہاز تو ہوتے نہیں تھے۔ لوگ گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرتے تھے اور لمبا فاصلہ طَے کرنے میں کئی مہینے لگ جاتے تھے۔ چین کو دنیا کا سب سے دُور درازعلاقہ سمجھا جاتا تھا۔ میرے خیال میں اس کہاوت کا مطلب ہے کہ علم بہت اہم چیز ہے اوراسکو حاصل کرنے کے لئے جتنی بھی محنت کی ضرورت ہو کرنی چاہئے‘‘
میرے نو سالہ دماغ نے پلٹی کھائی۔ ’’ اگر اتنی محنت کرنی پڑتی ہے تو پھر یہ کیسے معلوم ہو گا کون سا عِلم ضروری ہےورنہ ہم خواہ مخواہ فضول عِلم سیکھنے میں اپنا وقت ضائع کریں گے؟‘‘
’’تم نے بہت اچھا سوال کیا ہے!‘‘، باؔجی خوش ہو کر بولے
’’لیکن میَں تمہیں صرف اتنا کچھ بتا سکتا ہوں جو میری سمجھ میں آیا ہے۔ علمی قابلیت میں میَں صرف پانچ جماعتیں پاس ہوں، نہ میَں عربی فاضل ہوں نہ میَں منشی فاضل۔ انگریزی زبان میَں نے لاہور پرنٹنگ پریس میَں سِیسے کے حروف کو جوڑ جوڑ کر صفحات کی کمپوزنگ کرتے، اُن کتابوں کو پڑھ پڑھ کر اور برٹش انڈین آرمی میں اپنے انگریز افسروں سے سیکھی۔ گاؤں کے مولوی صاحب سے نماز اور قران پڑھنے کے لیےعربی اور ترجمے کے لئے اُردو سیکھی۔ خدا اُنکو جنت نصیب کرے، کہا کرتے تھے،
’’بیٹا اپنی زبان میں عربی کا ترجمہ سیکھنے کا مزا بھی کچھ اور ہی ہے، نماز میں عربی کے ساتھ ساتھ اپنی زبان میں ترجمہ بھی ذہن میں رکھا کرو۔ ہمیشہ ایسا قران رکھو اور پڑھوجس میں ترجمہ بھی ہوتا ہے تاکہ تمہاری سمجھ میں آتا رہے۔ عربی پڑھنے کا ثواب آخرت میں ضرورملے گا لیکن ترجمہ سمجھنے کا فائدہ تمہاری زندگی میں ہی تمہیں نظر آ جائے گا‘‘۔
میَں نے مولوی صاحب کی نصیحت پلے باندھ لی اور تمام عُمر اس پہ عمل کیا۔
میَں تمہیں صرف وہ سکھا سکتا ہوں جو میں نے پڑھا ہے‘ تجربہ کر کے خود سیکھا ہے لیکن میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ میَں ایک معمولی سا انسان ہوں۔ میرا عِلم‘ میرا تجربہ‘ میری سمجھ اور سوچ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ باقی تم نے خود سوچنا ہے ‘ دیکھنا ہے ‘ سیکھنا ہے۔ کسی عالم نے کہا تھا کہ دانشمند دوسروں کے تجربے سے سیکھتا ہے اور بے وقوف صرف اپنے تجربے سے۔ لیکن میرے خیال میں یہ پورا سچ نہیں۔
تمام علموں میں سب سے فائدہ مندعِلم یہ سوچنا سیکھنا چاہیے کہ ’’چیزیں کیسے کام کرتی ہیں‘‘۔ ایک لفظ ’ظاہر‘ ہو تا ہے اور ایک لفظ ’باطن‘۔ ایک لفظ ’آگہی‘ ہوتا ہے اور ایک لفظ ’گہرائی‘۔ انکو اچھی طرح سمجھو۔ جیسے تم نے ابھی ابھی سائیکل چلانا سیکھا ہے۔ یہ ظاہر ی عِلم ہے، مہارت ہے۔ لیکن جب تم یہ بھی سیکھ لو گے کہ سائیکل کے ایک ایک پُرزے کو علیحدہ کیسے کیا جاتا ہے کون سے اوزار کیسے استعمال کیے جاتے ہیں، گھومنے والے پُرزوں میں تیل اور گریس کیوں ہوتا ہے، ٹائر اور ٹیوب ربڑ سے کیوں بنے ہوتے ہیں، پنکچر کیسے لگایا جاتا ہے، ٹیڑھے پہیے کو سیدھا کیسے کیا جاتا ہے، سب پُرزوں کو دوبارہ کیسے جوڑا جاتا ہے اور کن باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ سائیکل چلانے والے کو کوئی مشکل پیش نہ آئے اور سائیکل کی بھی عُمر دراز ہو، وغیرہ وغیرہ، تو اِس کو سائیکل کاباطنی عِلم یا ہُنر کہہ سکتے ہیں۔ انتہائی گہرائی کا فرق ہوتا ہے عام ظاہری علم میں اور باطنی آگہی میں، رَٹّا لگانے میں اور ہُنر سیکھنے میں! ہُنر کو اپنا ایک مستقل اثاثہ سمجھ لو۔ اگر سمندری سفر کے دوران جہاز تباہ ہوجائے اور تُم بچ جاؤ تو تمہارے پاس صرف تمہارا ہُنر ہی رہ جائے گا۔‘‘
اپنے ہاتھوں کو لہراتے، اشارہ کرتے بآجی بولے، ’’زندگی میں جو بھی کام کرو کوشش کرو کہ تمہیں چیزوں کے ظاہر اور باطن، آگہی اور گہرائی دونوں کا عِلم اچھی طرح حاصل ہو جائے۔ چیزوں کا مطلب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سائیکل بھی چیز ہے۔ گاڑی بھی چیز ہے۔ اسکول کا نصاب بھی چیز ہے۔ زندگی بھی چیز ہے اور موت بھی۔ سوال کیسے کرنا ہے۔ جواب دینا کیسے سیکھنا ہے۔ پودے کیسے اُگتے ہیں۔ جاندار کیسے زندہ رہتے ہیں۔ کائنات میں بھی مختلف چیزیں ہیں۔ دن کے وقت آسمان نیلا کیوں ہو تا ہے اور شام کے وقت سُرخ کیوں؟ کہکشاں، سورج، ستارے اور چاند کیسے چمکتے ہیں؟ دنیا سورج کے گرد کیسے اور کیوں گھوم رہی ہے؟ زمین پر واپس آ جاؤ اپنے ارد گرد ہی دیکھو۔ لوگ بات کیسے کرتے ہیں؟ ہم کیا محسوس کرتے ہیں کیا سوچتے ہیں اور کیوں؟انسانوں میں باہمی تعلق اور رشتے بھی چیزیں ہیں۔۔۔‘‘
’’لیکن باؔجی! اسکول تو میَں جاتا ہوں عِلم حاصل کرنے۔ کیا وہ کافی نہیں؟‘‘ میَں نے اپنی طرف سے بڑی منطق لگائی۔
باؔجی مسکرائے’’ تُم نے اچھا کیا ، کافی کا لفظ استعمال کیا۔ تھوڑا سا سوچو۔ بہت سارے لوگ صرف اتنا ہی کام کرتے ہیں جتنا وہ کافی سمجھتے ہیں۔ لیکن کافی کا مطلب بہترین نہیں ہوتا۔اسی طرح تین اور لفظ ہیں۔ کارکردگی، معمولی، غیر معمولی۔ ان میں فرق سیکھو۔ کارکردگی کسی کام کے نتیجہ کو کہتے ہیں۔ معمولی کا لفظ عام سے نکلا ہے جس کو انگریزی میں نارمل کہتے ہیں۔ نارمل کا مطلب ہے کہ معاشرے میں اکثر لوگ یہی کچھ کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ صحیح بھی ہو۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اکثریت کی کارکردگی معمولی ہوتی ہے صرف چند لوگوں کی کارکردگی غیر معمولی ہو تی ہے۔ مثلاً امتحان میں پہلی، دوسری، تیسری پوزیشن لینے والوں کی کاردکرگی باقی کلاس کی نسبت غیر معمولی ہوتی ہے۔ یہ تو اسکول کالج کے حوالے کی بات ہے لیکن دُنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ چند لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات ہے کہ معمولی کارکردگی والی اکثریت اُن چند غیر معمولی کارکردگی والے لوگوں کے لئے کام کرتی ہے؟ تم خود سوچنا کہ کسی بھی کام میں تمہاری کارکردگی کیا ہونی چاہئے، معمولی یا غیر معمولی؟ پھر اندازہ لگانا کہ اس کے مطابق تمہاری محنت، عِلم اور آگہی بھی معمولی ہونی چاہئے یا غیر معمولی ‘‘۔
’’اگر میَں غیر معمولی کارکردگی دکھانا چاہوں تو پھر اسکول کے علاوہ میَں ٖ غیر معمولی عِلم کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟‘‘، مجھے نسیم حجازی کی کتابوں کے پسندیدہ ہیرو اور ان کی غیر معمولی کارکردگی یاد آئی۔ابھی مجھے ادبی فِکشن کا عِلم نہیں تھا۔ میں جو بھی پڑھتا تھا اُسے سچ ہی سمجھتا تھا۔
رات گہری ہو رہی تھی۔ باؔجی ایک نو سال کے معمولی بچے کے غیر معمولی سوال کے غیر معمولی جواب کے لئے اپنے خیالات کو اکٹھا کرتے، مناسب معمولی الفاظ ڈھونڈتے شاید ہار مان کر بولے
’’میَں بہت تھک گیا ہوں۔ ابھی صرف اتنا کہوں گا، شاید سمجھ آ جائے جب تم بڑے ہو جاؤ گے۔کوئی بھی علم حاصل کرنے کے مختلف طریقوں کے خاص نام ہوتے ہیں۔جیسے بیرونی ماحول کو محسوس کرنے کے لیے ہمارے جسم میں حواسِ خمسہ ہیں، دیکھنے کی قوتِ بصیرت، سونگھنے کی قوتِ شامہ، چکھنے کی قوتِ ذائقہ، سُننے کی قوتِ سماعت، چھوُنے کی قوتِ لامسہ۔ اسی طرح لِکھی ہوئی بات پڑھنے کومطالعہ، اپنی آنکھوں دیکھی اور اپنے کانوں سے سُنی بات کو مشاہدہ ، ذاتی تجربہ اور کوشش کو مجاہدہ، اپنے خیالات اور اعمال کو جانچنا اوراُن پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کرنے کو محاسبہ، دوسروں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کو مکالمہ، ان سب سے حاصل شدہ علم کو اکٹھا کرنا، یاد رکھنا، سمجھنا اور اس پرغور کرنے کو مراقبہ کہتے ہیں۔ ان طریقوں سےباطنی آگہی اور خیال کی گہرائی بڑھتی ہے تو سوتے یا جاگتے انسان کے ذہن میں خودبخود غیر معمولی، نیا اور اچھوتا خیال، تصور، ایجاد، اور نئے معنی پیدا ہوتے ہیں ایسے تجربے کومکاشفہ یا وجدان کا نام بھی دیتے ہیں۔
لیکن تم جو کچھ بھی پڑھو،سیکھو، سوچو یا کرو، اس کو ناپنے تولنے جانچنے کا ایک ہی پیمانہ رکھو۔ کارکردگی والی بات یاد رکھو، صحیح علم کا ثبوت یہ ہوتا ہےکہ وہ کام کرتا ہے۔ معمولی عِلم کا نتیجہ معمولی ہو گا۔ بہترین عِلم کا نتیجہ بہترین ہو گا۔ لیکن معمولی سے بہترین تک کے سفر میں درپیش کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا آسان نہیں۔اسکے لئے غیر معمولی کوشش کی عادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مشہور مؤجد تھامس ایڈیسن سے کسی نے پوچھا کہ اسکے تجربات کے کیا نتائج نکلے۔ اُس نے جواب دیا ۔ ’’ نتائج؟مجھے بہت سے نتائج ملے۔ مجھے تو یہ معلوم ہے کہ میرے کئی ہزار تجربوں نے کام نہیں کیا ‘‘۔
باقی جو کچھ تم پڑھو یا سُنو، سب الفاظ کے کھیل ہوتے ہیں۔ایسے الفاظ پر اعتبار کرنے سے پہلےاپنے آپ سے یہ پُوچھ لینا، یہ جان لینا، کسِ نے لکھا ہے، کسِ نے کہا ہے اور کیوں؟ لیکن ہر وقت یہ یاد رکھو کہ تمہارا عِلم ناقص بھی ہو سکتا ہے اسطرح تکبّر سے بچنے کی کوشش کرو۔ تکبّر کئی قسم کا ہو سکتا ہے۔ عِلم کا تکبّر، نیکی کا تکبّر، دولت کا تکبّر، اچھی صحت کا تکبّر، ذات اور قوم کا تکبّر، اپنی ظاہری خوبصورتی کا تکبّر، معاشرے میں اونچی حیثیت کا تکبّر۔ اسکو سمجھنے کا طریقہ بہت آسان ہے۔ اگر تُم نے ان میں سے کسی ایک یا زیادہ باتوں کی وجہ سے کسی انسان کو حقیر سمجھا تو تم نے اپنے دل اور ذہن میں تکبّر کو جگہ دے دی۔ لوگوں کی عزت کرو، تم سے عُمر میں چھوٹا ہو یا بڑا، پڑھا لکھا ہو یا جاہل، دولت مند ہو یا غریب، اخلاق سے پیش آؤ گے تو لوگ بھی تمہاری عزت کریں گے۔۔ ۔ بس اب جاؤ اپنی چارپائی پر اور سو جاؤ۔ صبح فجر کے لئے بھی اٹھنا ہے۔‘‘
ایسے موٹے موٹے الفاظ تو میَں واقعی نہ سمجھا۔ باؔجی کے الفاظ کانوں سے دماغ میں داخل ہو گئے۔ میَں جا کر اپنی چارپائی پر سو گیا اورمیرے لاشعور میں کھچڑی پکنی شروع ہو گئی۔
اگلے دِن اسکول سے گھر آنے کے بعد امّی جان کی حسبِ معمول بار بار تاکید کے باوجود اسکول کا دیا ہوا ہوم ورک کرنے کی بجائے میَں صحن میں اکڑوں بیٹھا، کمہار کے چاک پر بنا مَٹّی کا لٹّو ہتھیلی پر گھما کر، کنکریٹ پر گھِسا کر، پھر ہتھیلی پر گھما کر آنکھوں کے سامنے لا کراسکا وھیل بیلنس چیک کر رہا تھا۔ میری بڑی ہمشیرہ آپا گُلو نے ایم ایس سی کیمسٹری کرنے کے بعد کالج میں پڑھانا شروع کیا تھا۔ ہمارے گھر کی کفالت کرنے اور اپنے سے چھوٹے دو بہنوں اور دو بھائیوں کی مناسب تعلیم و تربیت کے بارے میں متواتر فکر مند رہنے کی وجہ سے ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی تھیں۔ اُنہوں نے میری ظاہری نافرمانی لیکن غو رو خوض میں مرتکز توجہ دیکھی تو ذرا صبر کر کے مجھ سے پوچھا، ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
میَں نے اپنی آگہی کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ’’ باہر گلیوں میں پانی کے پائپ بچھا دینے کے بعد خندقیں مَٹی سے بھر دی گئی ہیں لیکن ابھی سڑک کو پکا کرنے کے لئے اسٹیم رولر سے بجری اور تارکول نہیں بچھائی گئی۔ اس کچی زمین پر ہم بچے لٹو گھمانے کے مقابلے کرتے ہیں۔ جو لٹو زیادہ دیر گھومے وہ جیت جاتا ہے۔ بھاری لٹّو لمبا عرصہ گھومتا ہے۔خراد مشین پر بنا لکڑی کا لٹّو صحیح گھومتا ہے لیکن مہنگا اور ہلکا ہوتا ہے۔ کمہار کے ہاتھوں سے چاک پر بنا اندر سے کھوکھلا مَٹی کا لٹّو بھاری تو ہوتا ہے مگر چاروں طرف سے ایک جیسا نہیں بنا ہوتا، کہیں موٹا کہیں پتلا۔ میَں نئےلٹو کے گرد رسی لپیٹ کر،لٹو کو کچی زمین پر پھینک کر، رسی کھینچ کر جب گھماتا ہوں تو لمبے عرصے تک گھومنے کی بجائے لٹو ڈگمگا کر جلد ہی گر جاتا ہے اور ہار جاتا ہے۔ اسکو ٹھیک کرنے کے واسطے میں ہتھیلی پر گھما کر اسکا ڈگمگانا غور سے دیکھتا ہوں۔ جدھر موٹائی زیادہ ہوتی ہے اسکو کم کرنے کے لئے لٹّو کو کنکریٹ پر رگڑتا ہوں ساتھ ساتھ گھما کر اسکا توازن چیک کرتا جاتا ہوں۔ بعض دفعہ جدھر وزن کم ہوتاہے اُدھر لفافے پر مہر لگانے والی سُرخ لاکھ کو پگھلا کر جماتا ہوں پھر ضرورت ہو تو اسکو بھی رگڑتا ہوں‘‘۔
اُس وقت آپا گُلو کو میَں نےیہ یاد کرانا نہ چاہا کہ ابھی چند دِن پہلے گھر میں جوایک آتشزدگی کی واردات ہوئی تھی اُس میں میرےلَٹُو کا کیا قصور تھا۔ گلی میں کُھلنے والی ہماری بیٹھک اور سونے والے بڑے کمرے کے درمیان کھانے کا لمبا کمرہ تھا جس کی لمبائی کے رُخ آمنے سامنے دیواروں میں شیشے کے دروازوں والی الماریاں تھیں۔ اِن الماریوں کو بآجی کی لائبریری اور باقی کمرے کواسٹور کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔ کمرے کی دیواروں کے ساتھ چاروں طرف فرش پر اور بیٹھک کا دروازہ بند کرکے اُس پرموٹا بھاری پردہ ڈال کر پردے کے آگے بھی دو آہنی ٹرنک اوپر نیچے کر کےرکھے ہوئے تھے۔ میَں کمہار سے خرید کر مَٹی کانیا لڑکھڑاتا ڈگمگاتا (unbalanced) لَٹُّو لے کرآیا۔ لَٹو کی وھیل بیلنسنگ کی دُھن میں باورچی خانے سے ماچس کی ڈِبیا کھسکائی، جیب سے سُرخ لاکھ موم کی بتی نکالی اور کھانے والے کمرے میں فرش پر اکڑوں بیٹھ کر یکے بعد دیگرے ماچس کی تِیلی جلا جلاکر لاکھ کو پگھلا کر حسبِ ضرورت لَٹو پر لگاتا گیا، فرش پر رگڑتاگِھساتا گیا اور کبھی ہتھیلی کبھی فرش پر گھماتا لَٹُّو کا وھیل بیلنس چیک کرتا گیا۔
تِیلی کا شُعلہ جلتے جلتے جب میری اُنگلیوں کے پاس پہنچتا تھا تو میَں انگوٹھے اور اُنگلی کی غلیل بنا کر جھٹکے سے تیلی کو پردے کی طرف ٹرنک کے پیچھے پھینک دیتا تھا۔ قوس بنا کر ہوا میں اُڑتی تیلی بُجھ جاتی تھی اور ٹرنک کے پیچھے گِرتی جاتی تھی۔اپنےاہم کام میں مُکمل دھیان سے مشغول میَں یہ دیکھنے سے قاصر رہا کہ اُڑتی ہوئی ایک تِیلی نے بُجھنے سے اِنکار کر دیا تھا۔ اپنا کام ختم کر کے میں باہر گلی میں کھیلنے چلا گیا۔ میری غیر حاضری میں جو تیلی نہیں بجھی تھی اُس سے پردے کو آگ لگ گئی۔ جب تک گھر والوں کو پتہ چلا اور آگ بجھا دی گئی تب تک پردے کے آگے والےآہنی ٹرنک میں امی کے کپڑے سُلگ چُکے تھے۔
میَں باہر سے واپس آیا توگھر کی سوگوار فضا سمجھ نہیں آئی۔ امی جان صحن میں بیٹھی جلے ہوئے ٹرنک سے اپنے تباہ شدہ قیمتی ریشمی کپڑے ایک ایک کر کے نکالتی جا رہی تھیں اور خاموشی سے آنسو بہاتی جا رہی تھیں۔ مُجھ سے پُوچھ گچھ کرنے کے بعد معلوم ہو گیا کہ اِس حادثے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا لیکن اب تو صبر ہی کیا جا سکتا تھا۔ کُچھ میَں نے بھی سیکھ لیا کہ ماچس کی تیلی کے علاوہ لاعلمی ، ناسمجھی،مفروضہ پر بنیاد رکھنے والا نامکمل مشاہدہ بھی کتنی خطرناک چیز یں ہوتی ہیں۔ لیکن اب اُسوقت آپا گُلو کے سامنے میں ماضی کو دوہرانا نہیں چاہتا تھا۔
آپا گلو شاید کچھ اور سوچ رہی تھیں۔ مجھے دانت کچکچا کر دھمکی دی،
’’ اگر تُم سالانہ امتحان میں فیل ہو گئے تو ہم تمہیں سائیکلوں کی دکان پر بھیج دیں گے۔ سارا دن بیٹھے پنکچر لگانا اور ٹیڑھے پہیئے کا بیلنس گھما گھما کر ٹھیک کرنا!‘‘
لا شعوری طور پر ایسی اکثر دھمکیوں کا مجھ پر اتنا اثر تو ہوا کہ میَں امتحان میں کبھی فیل نہیں ہوا لیکن میرا شعور مجھے ہمیشہ اُفقی سوچ کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔گزری پچھلی رات کو ظاہری اور باطنی علم و آگہی و تکبّر کے بارے میں باؔجی کی لمبی ثقیل بات اور اب آپا گُلو کی دھمکی! اپنے نو سالہ گھُومتے میٹر کے ساتھ جلدی جلدی ہوم ورک ختم کرنے کے بعدمیَں گھر سے باہر نکلا اور چپل گھسیٹتے، سَر جھکائے چلتا ہماری گلی اور گورو تیغ بہادر روڈ کے چوراہے پرنصیر سائیکل ورکس کی دکان پر پہنچ گیا۔ نصیر لکڑی کی ایک چوکی پر بیٹھا ہاتھ میں مٹی کے تیل سے لتھڑا کھڈی کے سُوتی دھاگے کا گُنجل پکڑے ایک سائیکل کی صفائی کر رہا تھا۔ میرے نیچے کئے سَرکی کن اکھیاں اور چپل گھساتے بے چیَن پاؤں دیکھے تو بولا ،
’’ کیا ہوا؟‘‘
میَں نے بتایا، ’’ آپا گُلو کہہ رہی ہیں کہ اگر میَں امتحان میں فیل ہو گیا تو وہ مجھے سائیکلوں کی دکان پر بھیج دیں گی‘‘
’’تو پھر کیا ارادہ ہے تمہارا؟‘‘ نصیر نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے بڑی سنجیدگی سے پوچھا اور اپنی موٹی موٹی کشمیری آنکھوں کے ڈیلے کچھ زیادہ ہی کھول دئے۔
’’دیکھو نصیر!‘‘ میَں نے بھی سَر اُٹھا کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی طرف سے تدبیر کرتے بڑی سنجیدگی سے اسکو تجویز دی،
’’ اگر میں فیل ہو گیا تو یہاں تو آنا ہی ہے میَں نے۔ تُم مجھے سائیکل کی سَروِس کرنا اور پنکچر لگانا سِکھا دو۔مجھے اپنا چھوٹا بنا لو۔ مجھے پیسے دینے کی ضرورت نہیں۔مُفت میں تمہاری مدد ہو جائے گی، اگر امتحان میں پاس ہو گیا تب بھی مجھے ایک فائدہ مند ہُنر آ جائے گا ‘‘۔
میَں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ نصیر کی دکان پر کام کرنے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اسکی عموماً کرائے پر دیئے جانے والی چھوٹے سائز کی سائیکل مُفت چلانے کا موقع مجھے میسّر آ جائے گا۔ ایک ٹکٹ میں ایک سے زیادہ فائدے ہو سکتے ہیں!
نصیر نے آسمان پر چکر لگاتی چیلوں کی طرف نگاہ اُٹھا کر ایک لمحہ سوچا پھر میرے اُمید لگائے چہرے کو دیکھ کر ہامی بھر لی ، ’’ٹھیک ہے۔ جب تمہارے پاس وقت ہو آ جایا کرنا۔ لیکن پرانے کپڑے پہن کر آنا۔ کبھی سُنا ہے ؟ کوئلے کی دلالی میں مُنہ کالا!!‘‘ اُس نے تیل اور گریس لگے اپنے مَیلے چِکَّٹ شلوار قمیض اور چہرے کی کالک کی طرف اشارہ کرکے اپنے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
میَں نے اگلے چند مہینوں میں سائیکل کی سَروِس کے بارے میں وہ سب کچھ سیکھ لیا جو باؔجی نے مِثال کے طور پر بتایا تھا ، سائیکل چلانے کے ظاہری علم اور اسکی دیکھ بھال کے باطنی علم، ہُنر اور آگہی سے اچھی شناسائی ہو گئی۔ نصیر کو مُفت میں ایک محنتی اور سیکھنے کا شوق رکھنے والا چھوٹا مل گیا۔ مجھے مُفت میں میرے سائز کی سائیکل چلانے کا مزا بھی نصیب ہو گیا، اپنی ہی دکان کے چھوٹے کا سائیکل مانگنے پر انکار کرنا اب نصیر کے لئے کچُھ مشکل سا ہو گیا تھا۔ رہ گیا میرا دلالی میں مُنہ کالا، تو اُس جانب کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ دھوپ میں پھرنے اور گھر میں باقی بہن بھائیوں کی نسبت سانولا ہونے کی وجہ سے ویسے بھی مجھے کالا بینگن کہہ کر چھیڑا جاتا تھا!
ایک دن اسکول سے واپس آنے کے بعد عِلم و آگہی حاصل کرنے کی سعی میں ہوم ورک کرنے کی بجائے چھت پر پتنگ اُڑانے کا تجربہ، مجاہدہ اور مشاہدہ کرتے میَں سہ پہر کے سورج سے اپنا مُنہ اور کالا کر رہا تھا تو پھر آپا گُلو سے ڈانٹ پڑی۔
’’فضولیات میں وقت ضائع کر رہے ہو۔ اگر تُم سالانہ امتحان میں فیل ہو گئے تو حسن دین موچی کی طرح جوُتے گانٹھو گے!‘‘
قہرِ درویش بر جانِ درویش، پِھر میرا میٹر گھومنا شروع ہو گیا۔ نیچے اُتر کر ہوم ورک ختم کیا تو امی جان نے مجھے پیسے اور تھیلا تھما کر سبزی لینے بھیجا۔سبزی کی دکانیں سُوری بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر تھیں۔ وہاں اومنی بس اسٹاپ والے فٹ پاتھ کے کونے پر حَسن دین موچی اپنا اڈا لگا کر بیٹھتا تھا اور حُقہ پینے کی وجہ سےکھانس کھانس کر بلغم خارج کیا کرتا تھا ۔ حسن دین سیالکوٹ کے گاؤں اُگو کی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے باؔجی کا گرائیں اور بچپن کا دوست تھا۔ باؔجی نے ہمیں بتایا تھا کہ حسن دین کی جب شادی ہوئی اسکی بیوی اتنی خوبصورت تھی کہ کہ گاؤں کی سب لڑکیاں اور عورتیں اسکو دیکھنے آیا کرتی تھیں۔اُنکے چودہ بچے ہوئے تھےلیکن ہم نے اُن میں سے صرف سات کو زندہ دیکھا۔ تلاشِ معاش کے سلسلے میں حسن دین لاہور آیا تو باؔجی سے رابطہ قائم کیا۔باؔجی نے اس کو کہا اپنی بیوی بچوں کو بھی لے آؤ اور کمال شفقت سے ان سب کو ہمارے کرشن نگر والے گھر میں ہی اوپر والے کمرے میں کچھ عرصہ رکھا تھا۔
چند سالوں میں ہماری ہی گلی میں نصیر سائیکل ورکس کے ساتھ ایک خالی زمین کے ٹکڑے پر انہوں نے اپنا دو کمروں والاٹھکانہ تعمیر کر لیا۔ اُسکے صحن میں بیٹھ کر بہن موچن چرخے پر سوت کاتا کرتی تھی جہاں باجی مانی نے بھی کچھ دوپہریں لگا کر بہن موچن سے چرخے پر سُوت کاتنا سیکھ لیا تھا۔ اس مکان کے احاطے میں اُنہوں نے ایک بھینس بھی رکھ لی جس کا دودھ لے کر بہن موچن ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ انکے مکان کی دیواروں پر بھینس کے گوبر سے انتہائی محنت و مشقت سے بنائے گئے اُپلے دھوپ میں سُوکھ رہے ہوتے تھے جو عموماً حسن دین کی چلم گرم کرنے اور اُنکے لکڑیوں کے چُولہے کو دھکا سٹارٹ کرنے کے کام آتے تھے۔ میری امّی اپنے حُقے کی چلم کے لئے سُوکھے اُپلے لینے مجھےحسن دین کے گھر بھیجا کرتی تھیں۔ میَں بڑے شوق سے امی کی چِلم تیار کیا کرتا تھا۔ اُپلوں کی آگ چِلم میں دھیمی دھیمی جلتی تھی لیکن جب امّی زور سے حُقّہ گڑگڑاتی تھیں تو چنگاریاں بھی نکلتی تھیں۔
حسن دین کا بڑا بیٹا غلام رسول تھا جس کو بہن موچن ہمیشہ غلامُر سول کہا کرتی تھی۔ ایک بیٹی رسول عرف رسولاں تھی جس نے غلطی سے آپا گُلو کی لیبارٹری سے لائی ہوئی سپرٹ پانی سمجھ کر پی لی تھی اور ہمیں پریشانی کے عالم میں اُسے ہسپتال لے جانا پڑا تھا جہاں اُس کے پیٹ سے پمپ کے ساتھ سپرٹ نکال کر اُس کی جان بچائی گئی تھی۔ بعد میں رسولاں کی شادی کامونکی میں ہو گئی تھی اور اس نے اپنی دو بیٹیوں کو ایم اے تک پڑھایا تھا۔ دوسرا بیٹا اقبال عرف بالا تھا جس کاشاید پولیو کی وجہ سے ایک پاؤں خراب تھا اور بہن موچن اکثر اسکے لئے چین کے ’’شیر کی چربی ‘‘کی مالش کے فائدے کی بات کیا کرتی تھی جو ہم بچوں کے لئے بڑی عجیب و غریب بات تھی ۔ کئی سالوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ واقعی ایسی کوئی چیز ہوتی ہے جب میَں نے خود ٹائیگر بام (Tiger Balm) کی ڈِبیا دیکھی۔ بعد میں ریٹائر ہونے پر حسن دین نے اپنی دکان بالے کے حوالے کردی تھی۔
دکان سےسبزی لے کر میَں دو تین سیڑھیاں نیچے اُترا تو حسن دین موچی اور اُس کے اڈّے پر نظر پڑی۔ میں نے سلام کیا۔اُس نے میراحال پوچھا۔ میَں نے بتا دیا کہ آپا گُلو نے کیا کہا تھا۔ آپا گلو کو گھر میں ہمارے سب بڑے کَنّو کہتے تھے۔ حسن دین زور سے کھنگارا اور اپنے پیچھے والی نالی میں بلغم تھوکنے کے بعد بولا،
’’ کَنّو ٹھیک ہی تو کہتی ہے!مجھے ہی دیکھ لو، نہ پڑھنے کا نتیجہ! میرے آباؤاجداد چمڑے کا کام مغلوں کے وقت سے کرتے آئے ہیں۔ پہلے جوتوں کے علاوہ فوج کے گھوڑوں کی زین، تھیلے،بکسے،بستر بند بھی بنایا کرتے تھے۔ میرے باپ نے مجھے بہت کہا ’’ انگریزوں کا زمانہ ہے، پڑھ لکھ کر فوج میں ہی نوکری کر لو‘‘۔ میں نا سمجھ تھا، سُست تھا، بس کھیلنا کُودنا چاہتا تھا۔باپ سے جوتے بنانے اورمرمت کرنے سیکھ لئے اور گزارے لائق اسی کام کو کافی سمجھا۔ جب شادی ہو گئی ، چودہ بچے بھی ہو گئے جن میں سے سات کی موت دیکھنی پڑی۔ مال و جان کی مشکل ہوئی تو کچھ سمجھ آئی۔ خدا تمہارے باپ کا بھلا کرے اس نے ہمارے لاہور آنے پر جو مدد کی وہ اپنے بھی نہیں کرتے۔ سب سےاچھی بات، اس موچی کے پیشے کے باوجود میری عزت کرتا ہے۔ یہاں کے دوسرے لوگ تو مجھے انسان ہی نہیں سمجھتے‘‘۔ حسن دین نے پالش سے رنگے ہاتھ کی پُشت سے اپنی آنکھ سے ڈھلکتا آنسو پُونچھا۔
کُچھ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی درد آشنا نہ تھا
کُچھ آبروئے دیدۂِ نم آپ ہی سےتھی
گلی کے کونے پر سبزی کی دکان کی سیڑھیوں سے دو گز دور، کچھ دِن پہلے سڑک پرسٹیم رولر سے بچھائی گئی تازہ تازہ خُوشبوُ دار تارکول کے قالین پر بچھے کُھردرے ٹاٹ کے اُوپر چمڑے کے رنگ برنگے ٹکڑوں، اوزاروں، مرمت طلب اور مرمت شدہ تہہ در تہہ جوتیوں سے گھرِا، اس کام کو گزارے لائق کافی سمجھتا،مَیلی کچیلی دھوتی اور پھٹی بنیان میں ملبوس حسن دین موچی چوکڑی مار کر بیٹھا تھا۔ رنگ برنگی پالش سے لتھڑے کُھردرے ہاتھوں سے تھاما اپنا حُقہ گڑگڑاتے، دھوپ میں سیاہ شدہ چہرے پر وقت کے قدموں کے نشانوں کے پیچ و خم سے بھر پور
سِلوٹیں ہیں میرے چہرے پہ حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تُم سے زیادہ پہنا
چودہ میں سے سات زندہ بچوں کے نحیف و ناتواں باپ حسن دین کے مُنہ سے میَں نےباؔجی اورموچی کے پیشے کی عزّت کی بات سُنی۔ ظاہر اور باطن کا فرق اور تکبّر کو دماغ میں جگہ نہ دینے والی باؔجی کی نصیحت یاد آئی تو مجھے اپنا مُدّعا کہنے کا حوصلہ ہوا۔ میَں نے ذرا سا جھک کر اپنے سینے پر ہاتھ رک کر احترام کے ساتھ کہا،
’’اگر میَں فیل ہو گیا تو میَں نے آپکے پاس آنا ہی ہے۔ آپ مجھے یہ کام سکھا دیں۔امتحان میں پاس ہو گیا تو یہ ہُنر کبھی نہ کبھی کھیل ہی سہی کام تو آئے گا۔‘‘
’’اور اگر تمہارے باپ نے یا گھر والوں نے دیکھ لیا کہ تم یہاں فُٹ پاتھ پر میرے پاس بیٹھے جُوتیاں گانٹھتے اور بُوٹ پالش کر رہے ہو تو کیا کہیں گے‘‘؟
حسن دین نے ایک ہاتھ سے اپنے ارد گرد بکھری ہوئی جوتیاں اور اوزاروں کی طرف اِشارہ کرتے اور دوسرے ہاتھ سے حُقہ گڑگڑاتے ایک کش لے کر نتھنوں سے دھواں منتشر کرتےاستفسار کیا۔
’’اسکی آپ فکر نہ کریں۔ اُن کو میَں منا لوں گا‘‘ میَں نے جلدی سے کہا قبل اسکے کہ حسن دین اپنا ارادہ بدل دے۔
عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسُن سے کسبِ ہُنر کیا کرتے
اگلے ایک سال کے دوران میرے گھر والوں کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ معمول کے بہانے اور ٹال مٹول کی بجائے میَں سبزی اور دیگر سودا لانے کے لئے ایکدم کیوں تیار ہو جاتا تھا اور واپس آنے میں اتنی دیر کیوں لگاتا تھا۔ سُوری بلڈنگ کے اومنی بس اسٹاپ پر چڑھنے اُترنے والوں کو اکثر گرمی کے موسم میں اسکول کی چھُٹیوں میں دوپہر کے وقت جب بڑے لوگ گھر میں پڑے سو رہے ہوتے تھے ایک نو دس سال کا بچہ نیکراور گندی بنیان پہنے حسن دین کے پاس ٹاٹ پر بیٹھا موچی کا کام کرتا اور اکثر اوقات اسکی چِلم گرم کرتا دکھائی دیتا تھا۔ رفتہ رفتہ میَں نے جوُتا گانٹھنا ، مرمت کے اوزاروں کا استعمال، چمڑا کاٹنا،پیوند لگانا، میخوں اور چمڑے کو جوڑنے والی خاص واٹر پروف گوند کے ساتھ نئی ایڑی لگانا، موم رگڑی ڈوری اور آل کے ساتھ بڑے سلیقے کی سلائی کے ساتھ نیا سول لگانا ، اور آسٹریلیا کی ایجاد کردہ کِوی بوُٹ پالش کی ڈبیا کو موم بتی سے ذرا ساگرم کر کے ڈِبیا کے ڈھکنے میں پانی اور برش پر پالش کو مِکس کر کے نرم کپڑا رگڑ کر چمک دار واٹر پالش کے ہُنر کا عِلم اور آگہی بھی حاصل کرلی۔ حسن دین بھی خوش کہ اسکا ہاتھ بٹا، اسکی باتیں غور سے سُننے اور سیکھنے والا اور اسکی چلم بنانے والا کوئی ہمدرد ساتھی ملا۔ ایک دو دفعہ وہاں سے گزرتے ہوئے باؔجی نے مجھے حسن دین کے پاس بیٹھا موچیوں والا کام کرتے دیکھا لیکن ایسے نظر انداز کر دیا جیسے دیکھا ہی نہیں۔ بعد میں حسن دین نے بتایا کہ باؔجی نےایک دن اس کو علیحدہ لے جا کر پوچھا تھا کہ میں وہاں کیا کر رہا تھا اور حسن دین کا جواب سُن کر خاصے محظوظ ہوئے تھے۔
یہ جُوئے شیِر معُجزہ جوشِ جنوں کا ہے
کہتے ہیں جس کو تیشہِ فرہاد کچھ نہیں
محض اتفاق تھا کہ میَں اِمتحان میں بھی پاس ہوتاگیا اور سائیکل کی سروِس کے علاوہ موچی کا کام بھی سیکھ لیا۔ جب میَں خود ٹاٹ پر نیچا ہو کر بیٹھا تو حسن دین کو انسان نہ سمجھنے والے، محلے میں گردن اکڑا کر، ناک اُونچی کرکے،پنجوں کے بل چلتے پھرتے, بے ہمت نیم دِلی سے کام کرتے لیکن متکبر بُتوں کے مٹی سے بنے پاؤں دیکھے۔ اُن کے آتے جاتے پیَروں میں پہنی گھسی پٹی بدبو دار مرمت طلب جُوتیوں کا میَں نے بہت غور سے مشاہدہ کیا۔ ایک ہاتھ میں آل دوسرے میں موم رگڑی ڈوری پکڑ کر نفاست سے اُنہی جُوتیوں کے نئے تَلوں کی سلائی کرتے یا پالش کا برش تھامے، کبھی پانی اور کبھی اپنے لعابِ دہن سے گَرد آلود جُوتوں کو واٹر پالش سے چمکانے کا مجاہدہ کیا۔ زندگی سے بیزار تھکے ماندے چڑچڑے بدمزاج گاہکوں سے لین دین کرنا سیکھا۔ تکبر کے بارے میں بآجی کی بات بالآخر سمجھ آئی کہ کسر نفسی کی کسرت اچھی ورزش ہے۔ ناک اونچی کر کے پنجوں کے بل چلنا نہیں پڑتا۔ گردن نہیں اکڑتی۔ مزاج نرم اور ٹھنڈا رہتا ہے۔ دل زور سے نہیں دھڑکتا۔ خون کا دباؤ ٹھیک رہتا ہے۔ معدہ خراب نہیں ہوتا۔ خوراک آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے۔ بخار نہیں چڑھتا۔ رات کو نیند بہترین آتی ہے۔ ہر کام میں دل لگتا ہے۔ ہر ایک سے رشتۂ اخوت بڑھتا ہے۔ تخیل کو مہمیز ملتی ہے، خیال اور سوچ کا انداز مثبت ہو جاتا ہے۔ مسائل حل کرنے کے نِت نئے طریقے آشکار ہوتے ہیں۔ جُوتا چُبھنا بند ہو جائے تو زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔
جی ہاں! ابھی تو صرف ایک ہی کسرت کی بات کی ہے۔ ۔ ۔ ۔
کسرتیں اور بھی ہیں دنیا میں وصل کی کسرت کے سوا
موچی کے ٹاٹ پر بیٹھا میَں اپنا تجربہ، مشاہدہ، مجاہدہ، اور مراقبہ کرتا کرتا بڑا ہو گیا۔ ہاتھ میں سٹیرنگ وھیل پکڑ کر خود گاڑی چلائی۔ آسٹریلیا کی سب سے بڑی کان کُن کمپنی بی ایچ پی (BHP) کے بڑے بڑے سمندری جہازوں (Bulk carriers) کی بھاپ سے چلنے والی ہائی اسپیڈ ٹربائین کی تھرتھراہٹ (Vibration) ناپی۔ شومئی قسمت سے اس تجربے کا پیپر 1997 میں گھومنے والی مشینوں کی تھرتھراہٹ پر خان ریسرچ لیبارٹریز کی ایک کانفرنس میں پیش کیا۔ یورنیم کو علیحدہ کر کے خالص اور کثیف کرنے والی ہائی سپیڈ سینٹری فیوگل مشین کی تھرتھراہٹ سے تباہی کے امکان کا پتہ چلا۔ بالآخر وھیل بیلنس یعنی گُھومتے پہیے کے توازن کی بے انتہا اہمیت پر گہرے مراقبہ سے تھوڑی تھوڑی آگہی نصیب ہوئی۔۔
۔۔ کہ بار بار جل کر بُجھ جانے والے کروڑوں ستاروں کی خاک اور مٹی سے گوندھے گئے انسان بھی گردش کرتی کہکشانی چاک پر کُمہارِ کائنات کے اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے مٹّی کے لَٹّو کی مانند ہوتے ہیں۔زندہ رہنے کی تگ و دو میں اپنے اپنے مرکز کے گِرد گردش کرتے لیکن اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ اپنی ذات میں اِدھر سے موٹے، اُدھر سے پتلے ہوں تو زندگی کا وھیل بیلنس بگڑ سکتا ہے، انسان ڈگمگا سکتا ہے، گِر سکتا ہے، ہار سکتا ہے۔ بس اپنی ذات کو اِدھر سے رگڑنا گِھسانا،اُدھر لاکھ کی موم لگانا اور بار بار کبھی ہتھیلی پر کبھی فرش پر گُھما کر اسکا ڈگمگانا غور سے دیکھنا آ جائے تو توازن درست رہتا ہے۔ لَٹُّو زیادہ دیر گُھومتا ہے۔ جیتتا ہے!
۔۔کہ عِلم کی بھی چِلم ہوتی ہے جس کو بڑے شوق سے تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس میں محنت و مشقت کےاُپلوں کی آگ دھیمی دھیمی جلتی ہے اور اگر غیر معمولی کوشش سے دماغ کا حُقّہ زور سے گڑگڑایا جائے تو نِت نئے خیالات اور ایجادات کی چنگاریوں کا غیَر معمولی مکاشفہ حاصل ہو سکتا ہے۔۔ کہ کائنات کے اسرار بھی ایک چِلم کی مانند ہیں جِسے سُلگانے اور اچھی طرح گَڑگَڑانے کی توفیق کے لئے زمین پر بِچھے کُھردرے ٹاٹ پر بیٹھنا پڑتا ہے۔اپنے محبوب کُمہار کے سامنے امرتا پریتم کے الفاظ میں گِڑگِڑانا پڑتا ہے۔
’’سائیں! تو اپنی چِلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
جب بتی سلگ جائے گی
ہلکی سی مہک آئے گی
اور پھر میری ہستی
راکھ ہو کر
تیرے قدم چھوئے گی
اسے تیری درگاہ کی
مٹی میں ملنا ہے۔ ۔ ۔
سائیں! تو اپنی چِلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔‘‘
****
تحریر: بُش احمد آسٹریلیا