آئیے، ہم 1600 میں چلتے ہیں اور ایک پڑھے لکھے برطانوی کی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ (برطانیہ کا انتخاب اس وجہ سے کہ اگلی بڑی تبدیلی وہاں سے آئی، ورنہ کوئی بھی ملک ہو سکتا تھا)
وہ چڑیلوں پر یقین رکھتا ہے۔ اس نے ڈیمنولوجی پڑھی ہے۔ یہ کتاب جیمز ششم نے لکھی ہے، جو برطانوی سلطنت کے بادشاہ بننے والے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ سمندر میں جہاز ڈوبنے کی وجہ جادوگروں کے سحر ہوتے ہیں۔ (جیمز خود ایک ایسے واقعے میں ڈوبتے ڈوبتے بچے تھے)۔ وہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ چودہویں کی رات کو کچھ لوگ بھیڑئے بن جاتے ہیں۔ وہ علمِ نجوم کو علم سمجھتا ہے۔ یہ یونیوسٹی میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے خیال میں unicorn اصل جانور ہے۔ اس نے اس کا سینگ بھی دیکھا ہے لیکن اس کو کبھی نہیں دیکھا۔ اس کا خیال ہے کہ مقتول کی لاش سے قاتل کی موجودگی میں خون بہنا شروع ہو جائے گا۔ اس کے خیال میں پودے کی شکل، رنگ اور چکناہٹ سے پتا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس دوا کا علاج ہو گا کیونکہ پودوں کا کام ہی یہ ہے۔ ان کو بنایا ہی اس لئے گیا ہے۔ دھاتوں سے سونا بنایا جا سکتا ہے۔ (شاید اس پر شک ہے کہ کوئی ایسا ابھی تک کر سکا ہے)۔ اس کو یقین ہے کہ خلا موجود نہیں ہوتی۔ قوسِ قزح اور شہابیے اس کے لئے حیران کن مظاہر ہیں۔ قوسِ قزح ہمیں تسلی دینے کا سگنل ہے۔ زمین ساکن ہے اور ستارے زمین کے گرد چوبیس گھنٹے میں چکر مکمل کرتے ہیں۔ اس کو اپنی تاریخِ پیدائش کا علم تو نہیں لیکن یہ پتا ہے کہ نجومی اسے بتا دے گا۔ اسے یقین ہے کہ ارسطو جیسا فلسفی دنیا میں نہیں گزرا۔ پلائینی نیچرل ہسٹری میں، جالینوس اناٹومی میں اور بطلیموس فلکیات میں اتھارٹی ہیں۔ بھوسے میں چوہے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ خواب مستقبل کی خبر دیتے ہیں، بس تعبیر بتانے والے ہونا چاہیے۔ اس کے پاس پڑھنے کے لئے درجن بھر کتابیں بھی ہیں۔
آج دنیا کے کسی پسماندہ ترین ملک میں پڑھا لکھا شخص بھی ان باتوں کو پڑھ کر قہقہہ لگا کر ہنسے گا لیکن سوچ کا یہ انقلاب آسانی سے نہیں آیا تھا۔
لیکن تبدیلی کی ہوا چلنا شروع ہو گئی۔ ہم وقت میں کچھ چھلانگ لگا کر 1733 میں چلتے ہیں اور والٹئیر کی کتاب کے باب کا لفظی ترجمہ پڑھتے ہیں،
“آج کا انگریز دنیا میں علم کے حوالے سے باقی سب سے آگے نکل چکا ہے۔ فرنچ، اطالوی، جرمن یا ڈچ ان کے قریب نہیں آتے۔ اس نے ٹیلی سکوپ سے آسمان کو اور مائیکروسکوپ سے چھوٹی دنیا کو دیکھ لیا ہے۔ اس کے پاس پنڈولم والی گھڑی اور پریشر ناپنے کے لئے بیرومیٹر ہے۔ اس کو خلا کا پتا ہے۔ وہ کسی ایسے پڑھے لکھے انگریز کو نہیں جانتا ہو گا جو کو رات کو بھیس بدل لینے والے بھیڑیوں، چڑیلوں، عاملوں، نجومیوں، الکیمیا پر یقین رکھتا ہو۔ اوڈیسی کہانی ہے، حقیقت نہیں۔ اسے اعتماد ہے کہ یونیکورن خیالی جانور ہے۔ وہ پودے کی شکل صورت دیکھ کر دوائی نہیں بناتا۔ آنکھ سے دیکھی جانے والی کوئی بھی چیز خود بخود پیدا نہیں ہو سکتی۔ مکھی بھی نہیں۔ اس کو پتا ہے کہ مقتول کے خون کا بہنا قاتل پہچاننے کا ٹیسٹ نہیں۔ اسے پتا ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ قوسِ قزح روشنی کی ریفرکشن سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا ہماری زندگی میں عمل دخل نہیں۔ مستقبل کو کسی طریقے سے نہیں جانا جا سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ دل ایک پمپ ہے۔ اس نے سٹیم انجن کو کام کرتے دیکھا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ علم کی طاقت دنیا کو بدل دے گی۔ آج کی دنیا میں رہنے والے پرانی دنیا میں رہنے والوں کی سوچ سے بھی زیادہ آگے نکل چکے ہیں۔ وہ لاک کو فلسفی مانتا ہے اور نیوٹن کو سائنسدان۔ اس کے پاس سو سے دو ہزار کے درمیان کتابیں ہیں۔”
جس کو والٹئیر برطانیہ کا معجزہ کہہ رہے تھے، بہت جلد دوسرے ملکوں تک پہنچ گیا۔ دنیا کے کئی علاقوں میں کچھ اس “نئے فلسفے” کے خلاف مزاحمت بھی رہی۔ لیکن دنیا کا نقشہ الٹ گیا۔ مزاحمت کرنے والوں کا وقت جلد ختم ہو گیا۔
اس قدر جلد یہ سب کچھ ہوا کیسے؟ یہ دریافت کی دریافت اور سائنس کی ایجاد کی کہانی ہے۔ (دریافت یا “ڈسکوری” کا لفظ سولہویں صدی تک دنیا کی زبانوں کا حصہ نہیں تھا)