(Last Updated On: )
کتاب:۔علم اور مذہبی تجربہ
مترجم:۔ ڈاکٹر محمود علی انجم ، نائب صدر : بزم فکرِ اقبال، پاکستان؛ صدر بزم فکرِ اقبال، لاہور
مطبوعہ:۔ نورِ ذات پبلشرز، شعبہ نشرواشاعت، بزم فکر اقبال (پاکستان)
(تعارف و تبصرہ):۔ پروفیسر ڈاکٹر قمر اقبال (پی ایچ ڈی اقبالیات)، صدر ’بزمِ فکرِ اقبال، راولپنڈی
ہمارے عظیم اسلامی مفکر علامہ محمد اقبال نے بیسویں صدی میں اپنے شاندار افکار و خیالات اور بے مثال شاعری کے ذریعے برصغیر کی مسلم قوم کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونکی اور امتِ مسلمہ کو تگ وتازِ زندگانی میں سر اٹھا کر جینے کے قرینوں سے آگاہ کیا۔آپ کا یہ کارنامہ انسانی تاریخ کا ایک نادر اور شاندار واقعہ ہے۔علامہ اقبال کی فکر اور فلسفہ جہاں انھیں انسانی فکر و فلسفے کی تاریخ میں ایک بلند مقام عطا کرتا ہے وہاں وہ اسلامی فلسفے اور الٰہیات کی تاریخ میں بھی ایک منفرد اور عہد ساز مقام پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنی فلسفیانہ شاعری کے ذریعے جہاں امت ِمسلمہ کو ایک ولولہ تازہ دیا اور اسے راز ہائے الوَندی بتائے وہاں اپنے معرکۃالآرا خطبات کے ذریعے الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کا فکرِ اسلامی صدیوں سے راستہ دیکھ رہی تھی۔اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید کی یہی وہ خدمت ہے جو علامہ اقبال کو انسانی تاریخ کے نابغوں اور اسلامی مفکرین کی صف اول میں لا کھڑا کرتی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنے ان بے مثال اور شاندار خطبات کے ذریعے مسلمانوں کے جدید علم ِکلام کی بنیاد رکھنے کا گراں قدر کارنامہ انجام دیا۔انہوں نے ان خطبات میں اسلامی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے جدید فکری انداز میں الٰہیات اسلامیہ کی تشکیلِ نو کا فریضہ انجام دیا اور جدید سائنسی اور فلسفیانہ انداز میں مذہب کی حقانیت اور وجود باری تعالیٰ کے ادراک و اثبات کے مراحل طے کرنے میں کامیاب ہوئے۔علامہ اقبال کے یہ خطبات مغربی فلسفیوں کے انکارِ خدا اور انکارِ مذہب کے فلسفوں کے خلاف ایک توانا آواز اور ان کا مسکت جواب ہیں۔علامہ اقبال کو جدید سائنس اور جدید فلسفے کی بنیاد پر تشکیل پانے والے لادین اور الحاد پر مبنی مغربی فلسفے کا چیلنج درپیش تھا جس سے برصغیر کے مسلم نوجوان بڑی شدت سے متاثر ہو رہے تھے ؎
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اقبال نے یہ چیلنج کھلے دل سے قبول کیا اور ہستی باری تعالیٰ اور مابعدالطبیعات یعنی مذہب کے اثبات کو اپنی فکر و نظر کا مرکز و محور بناکر اسلامی عقائد کی ترجمانی، دفاع اور تشکیلِ جدید کا اہم فریضہ انجام دیا۔
اقبال خطبات میں مذہبی وجدان کو صوفیانہ شعور سے تعبیر کرتے ہوئے روحانی تجربے کی ثقاہت پر زور دیتے ہیں۔یوں انہوں نے صوفیانہ یعنی روحانی تجربے کی حقیقت،وقعت اور ثروت واضح کرکے دراصل مابعدالطبیعات یعنی مذہب اور وجود باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے اور مغرب کے خدا، سائنس اور فلسفے کو بھرپور جواب دیا ہے۔اقبال غیر اسلامی یعنی عجمی تصوف سے تو کھلم کھلا بیزاری کا اظہار کرتے ہیں مگر خطبات کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ اسلام کے اعلیٰ تصوف کو حقیقتِ مطلق کے ادراک اور اس سے اتصال کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔وہ ادراک و قربِ ذاتِ الٰہی کے لیے علمِ باطن کی اہمیت، اس کی آفاقیت اور رسائی کے دل سے قائل ہیں اور اقبال کا یہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے علم بالحواس اور حسی تجربے ہی کو سب کچھ سمجھنے والی سائنس کی پروردہ مادہ پرست دنیا میں روحانیت کے چراغ روشن کیے۔
آج پھر دنیا میں روحانیت اور مادیت آمنے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ وجود باری تعالیٰ کے اثبات اور انکارِ خدا کے نظریات پھر ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔مغرب کی مادہ پرست، لادین ذہنیت اور الحادی فلسفے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو متاثر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں الحادی اور سیکولر ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے۔نوجوانوں کی اکثریت مغرب کی طرح خوگرِ پیکرِ محسوس بن کر رہ گئی ہے ؎
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
ایسے میں اقبال کا یہ عظیم الشان فلسفہ کہ صوفیانہ مشاہدہ اور روحانی تجربہ اتنا ہی باوقعت، قابلِ اعتماد اور مستند ہے جتنا کہ کوئی اور حسی اور سائنسی تجربہ اور دراصل یہ روحانی تجربہ ہی کشف و وجدان کے راستے سے اثباتِ مذہب کی منزل تک لے جاتا ہے اور حقیقت ِمطلقہ کے کلی ادراک اور اس سے قرب و اتصال کا ذریعہ بن سکتا ہے۔اس طرح آج علامہ اقبال کے ان معرکۃ الآراء خطبات کی تفہیم و توضیح کی اقبال کے دور سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ان خطبات کی تفہیم و تشریح کے ذریعے نہ صرف مغرب کے الحاد، لادینیت اور مادیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے مذہب کی حقانیت کے ساتھ اسلام کی تبلیغ و دعوت کا فریضہ بطریق احسن انجام دیا جا سکتا ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے نوجوان کا تصوف، روحانیت اور مذہب پر اعتماد بحال کر کے بے شمار فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ان خطبات کی روشنی میں اعلیٰ اسلامی تصوف کی تعلیم اور پھر صوفیانہ مشاہدے کے ذریعے امت ِمسلمہ قرب و اتصال الٰہی کی منزل پر پہنچ کر ہی خلافتِ الٰہی اور امامت ِاقوامِ عالم کے منصب پر فائز ہو سکتی ہے۔
انھی حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہمارے شاگردِ رشید، تصوف کی نورانی وادی کے عملی شاہ سوار،فکرِ اقبال کے نباض و ترجمان اور تصوف اور اقبالیات کے ان تھک محقق ڈاکٹر محمود علی انجم نے علامہ اقبال کے خطبات کی سہل ترجمانی کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے خطبات اقبال کے ترجمے کا ارادہ کیا ہے۔اس سلسلے میں پہلے خطبے "Knowledge and Religious Experience" کا ترجمہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔یہاں اقبالیات اور مطالعہ خطباتِ اقبال سے تھوڑی بہت شد بد رکھنے والے قاری کے ذہن میں بھی قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نامور اقبال شناسوں اور ماہرینِ اقبالیات کے کیے ہوئے متعدد تراجم اور خطبات کی تفہیم وتوضیح پر مشتمل کتابوں کے ہوتے ہوئے ایک اور ترجمے کا آخر کیا جواز ہے۔
میرے خیال میں اس ترجمے کا سب سے بڑا جواز تو یہی ہے کہ یہ ترجمہ ڈاکٹر محمود علی انجم جیسا باریک بین، چابکدست اور اپنی تحقیق، تخلیق اور ترجمے میں خونِ جگر صرف کرنے والا محقق کر رہا ہے۔محمود علی انجم جس تحقیقی کام میں بھی ہاتھ ڈالتا ہے،اپنی جدت پسند طبیعت،ذہانت اور سخت اور مسلسل محنت کی عادت کے باعث اس میں جان ڈال دیتا ہے۔میں اتنا بڑا دعویٰ بغیر کسی دلیل کے نہیں کر رہا بلکہ محمود کے ایم۔ فل کے مقالے، ”پیام مشرق کی اردو شروح و تراجم کا تحقیقی جائزہ“، پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالے ”پروفیسرڈاکٹرمحمد ریاض کی علمی خدمات(مطالعاتِ اقبال کے خصوصی حوالے سے تحقیقی و تنقیدی جائزہ“،تصوف پر اس کی معرکۃ الآراء کتاب ”نورِ عرفان“، ان کی انتہائی وقیع تحقیقی کتاب ”تعداد آیاتِ قرآنی“اور اقبالیاتی تحقیق کی شاہکار کتاب ”اقبال کی انگریزی نثر میں قرآنی آیات کے تراجم“ کا بنظر ِغائر مطالعہ کرنے اور عمیق جائزہ لینے کے بعد، پورے وثوق سے یہ دعویٰ کر رہا ہوں۔محمود علی انجم کی مذکورہ کتابیں اور اور آپ کے ہاتھوں میں موجود یہ کتاب میرے اس دعوے پر دال ہیں۔
سید نذیر نیازی کے ترجمے”تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ“ سے لے کر شہزاد احمد کے ترجمے ”اسلامی فکر کی نئی تشکیل“تک جب میں خطباتِ اقبال کے متعدد تراجم اور ڈاکٹر سید عبداللہ کی”متعلقات خطباتِ اقبال“ سے لے کر ڈاکٹر محمدعارف خان کی ”مباحث خطباتِ اقبال“تک خطباتِ اقبال کی تفہیم و توضیح پر مشتمل متعدد کتابوں سے جب میں اپنے شاگرد ڈاکٹر محمود علی انجم کے،علامہ اقبال کے پہلے خطبے کے، اس ترجمے کا تقابل کرتا ہوں تو میرا دل تشکر، طمانیت، تحسین اور فخر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے کہ ہمارے اس ہونہار شاگرد نے اپنے مخصوص جدید انداز میں علامہ اقبال کے خطبے کا ایسا شاندار عالمانہ ترجمہ کیا ہے جو بیک وقت اقبال کے وقیع خطبے کا سہل مگر عالمانہ ترجمہ بھی ہے اور تفہیم و توضیح بھی۔
ڈاکٹر محمود علی انجم کے ترجمے کی خاص بات جو اسے اپنے پیش رو ترجموں سے منفرد مقام عطا کرتی ہے یہ ہے کہ باقی ہر ترجمے میں پہلے ترجموں، خاص طور پر سید نذیر نیازی کے ترجمے کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے جب کہ محمود انجم کا یہ ترجمہ بالکل ایک منفرد اور جدید انداز کا حامل ہے جو محمود علی انجم کا اپنا انداز ہے اور اس کی یہی اختراعات اور الگ انداز نے اس ترجمے کو ایک ایسا بلند مقام عطا کیا ہے جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔محمود علی انجم کیونکہ خود تصوف اور روحانیات کے نورانی راستوں کا راہی اور طالب علم ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ تقابلِ ادیان، سیرت، تاریخ اور متعدد باطنی اور روحی علوم پر دسترس رکھتا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اسے انگریزی زبان پر بھی مکمل دسترس اور عبور حاصل ہے۔ان علوم سے فیضیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے فکرِ اقبال کے گہرے سمندر میں بھی خوب غواصی کی اور اس سمندر کی گہرائی میں اترنے کے بعد جب اس نے اقبالیات میں ایم۔فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی منزلیں طے کر لیں تو پھر کہیں جا کر وہ خطباتِ اقبال کے ترجمے کی طرف متوجہ ہوا۔مختلف علوم پر دسترس، انگریزی زبان میں مہارت، ترجمے کی مشق اور فکرِ اقبال میں اس کے انہماک اور ذوق و شوق نے اس کے اس ترجمے کو ایک کراماتی روانی اور رعنائی کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی بلند عالمانہ انداز بھی عطا کیا ہے۔
ڈاکٹر محمود علی انجم نے خطبات کی آسان تفہیم کے لیے جو نئے طریقے اختیار کیے ہیں، اس ضمن میں سب سے پہلی اور اہم بات تو یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے کے لیے خطبات کا مستند ترین متداول نسخہ یعنی پروفیسر محمد سعید کا مرتب کیا ہوا نسخہ استعمال کیا اور دوسری بات یہ کہ انہوں نے ہر صفحے کے اردو ترجمے کے مقابل انگریزی متن بھی رکھ دیا ہے جو خطبات کے تراجم میں بالکل نئی اور بہت مفید بات ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہترین تفہیم کے لئے انگریزی متن میں مشکل الفاظ اور اصطلاحات کے اردو معنی اور اسی طرح اردو ترجمے میں مشکل الفاظ اور اصطلاحات کے انگریزی معنی قوسین میں لکھ دیے ہیں۔پروفیسر سعید نے اقبال کے انگریزی خطبات پر انگریزی ہی میں بڑی محنت سے وقیع حواشی و تعلیقات اور خطبات میں در آنے والے سیکڑوں حوالہ جات کی تخریج کرکے عظیم کارنامہ انجام دیا تھا مگر مدت سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ وطنِ عزیز کے ایک بڑے اردو خواں طبقے کے لئے ان انتہائی قیمتی حواشی و تعلیقات کا اردو ترجمہ کیا جائے۔ڈاکٹر وحید عشرت مرحوم نے بھی اپنے ترجمے میں ان حواشی و تعلیقات کو انگریزی میں جوں کا توں رکھ دیا تھا مگر شاید یہ سعادت بھی محمود انجم ہی کے حصے میں آنی تھی کہ انہوں نے نہ صرف پروفیسر سعید کے ان حواشی و تعلیقات کا خوبصورت اردو ترجمہ کیا بلکہ جہاں جہاں کوئی کمی رہ گئی تھی وہاں اپنے عالمانہ حواشی و تعلیقات کے ذریعے اس کمی کو پورا کر دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف اقبالیات بلکہ ساری قوم پر ان کا احسان ہے۔محمود علی انجم کے اس ترجمے کی ایک اور قابلِ قدر خوبی،اس ترجمے پر اس کا لکھا ہوا ’معروضات‘ پر مبنی ضخیم عالمانہ ’مقدمہ‘ ہے۔’مقدمہ‘ کیا ہے،خطباتِ اقبال،ان کے انگریزی نسخوں، اردو تراجم اور ان کی تفہیم و توضیح پر مشتمل کتابوں کی ایک مبسوط تاریخ ہے۔’معروضات“ میں خطباتِ اقبال اور ان کے تراجم میں موجود قرآنی آیات کے تراجم میں تسامحات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مترجم نے نہ صرف خطبات کے ترجمے میں ان کی اصلاح کر دی ہے بلکہ اقبال کی ساری انگریزی نثر اور اس کے تراجم میں بھی ان آیات کے تراجم کی اغلاط کی درستی پر مشتمل،الگ سے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’اقبال کی انگریزی نثر میں قرآنی آیات کے تراجم (تحقیقی و تنقیدی جائزہ)‘ بھی لکھ دی ہے۔اس میں خطباتِ اقبال کے حوالے سے اب تک لکھی جانے والی تراجم اور تحقیق و تنقید پر مشتمل تقریبا تمام کتابوں کا تقابلی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔مقدمے کے ان تمام مباحث نے اس مقدمے کو خود خطباتِ اقبال، اس کے تراجم اور تفہیم و توضیح اور تنقید کا ایک جامع انسائیکلوپیڈیا بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر محمود علی انجم نے اس دور میں خطباتِ اقبال کی قدر و قیمت اور ان کی تفہیمی اور توضیحی ضرورت و اہمیت کو سمجھ کر اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ترجمے کا ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ جس کے ذریعے اقبال کے مقصد و مدعا کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ خطباتِ اقبال کے ترجمے کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ الٰہیات اسلامیہ کی تاریخ میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کی اس عظیم علمی راہنمائی کو ملت اسلامیہ کے افراد باآسانی سمجھ لیں اور اسے عملی طور پر بروئے کار لاتے ہوئے، اپنے دینی معتقدات اور عظیم تہذیب کی جدید علمی انداز میں بازیافت کرتے ہوئے اس جہان رنگ و بو میں فخر سے سر اٹھا کر جی سکیں اور مجھے ڈاکٹر محمود علی انجم کا یہ ترجمہ اپنے اس مقصد میں پوری طرح سرخرو دکھائی دیتا ہے۔
شعبہ نشرواشاعت بزم فکر اقبال پاکستان
“