میں نے آپ دوستوں کی پوسٹس اور کمنٹس پڑھے اور آپ کے اذہان کو پڑھنے کی کوشش کی۔۔۔ میں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ ایک تحریر لکھ دی جائے جس میں آپکے ذہن میں آئے سوالات کے جوابات دیئے جائیں تاکہ اردو ادب کی خدمت ہو سکے۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثریت جو تبصرہ فرما رہے ہیں وہ شاعری اور علم عروض سے نابلد ہے۔ آپ اگر ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اس شعبے سے متعلق تمام علوم کو جاننا پڑے گا تب آپ ڈاکٹر بن سکیں گے۔ شاعری بھی ادب کا ایک شعبہ ہے آپ شعر کہنا چاہتے ہیں تو آپکو اس سے متعلق تمام علوم کو سیکھنا ازحد ضروری ہے۔
ایک سرجن ڈاکٹر کو سکھایا جاتا ہے کہ اسے آپریشن کرتے وقت مریض کا پیٹ چاک کرنے کے لیے کتنا گہرا کٹ لگانا ہے۔ ایک کیمیاگر کیمسٹ بخوبی جانتا ہے کہ وہ جو کسی مرض کی دوا تیار کر رہا ہے اس میں نمکیات و اجزاء کی نسبت کیا رکھنی ہے عمر کے لحاظ سے انسان کو کتنی ڈووز دینی ہے۔ ایک بلے باز کرکٹر کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ کس زاویے سے گیند کو ضرب لگائے گا تو وہ گراؤنڈ سے باہر جائے گی۔
بالکل اسی طرح شاعر کو بھی علم عروض میں سکھایا جاتا ہے کہ اپنے کلام میں الفاظ کے ہجوں کی کیا ترتیب رکھے تو کلام موزوں ہو گا اور اس میں موسیقیت پیدا ہو گی۔
جو عروضی ہوتے ہیں کیا وہ اچھے شاعر نہیں ہوتے؟
ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ہو سکتے۔
کچھ لوگوں کو یہ وہم سرزد ہو گیا ہے کہ جنکو عروض آتا ہے انکو شعر کہنا نہیں آتا۔۔۔
آپکو یہ بات بتاتا چلوں کہ علم عروض کی پہلی اردو کی کتاب بیسویں صدی میں لکھی گئی ہے جبکہ میر و غالب اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے شاعر ہیں۔۔۔ اس وقت کے شاعر عروضی اور شاعر بیک وقت ہوا کرتے تھے اور انہوں نے یہ علم سینہ بہ سینہ یہ علم آگے منتقل کیا بغیر کوئی کتاب لکھے مگر بیسویں صدی میں اس پر پہلی مفصل کتاب لکھی گئی۔۔۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے اس وقت کے شاعر پہلے عروضی اور پھر شاعر ہوا کرتے تھے۔۔۔
اگر میں موجودہ دور کے عروضیوں کی بات کرو تو پاکستان میں کوئی تین چار نام سامنے آتے ہیں جنہوں نے عروض کی کتابیں بھی لکھیں اور سکھا بھی رہے ہیں۔۔۔ ان میں محترم یعقوب آسی ، جناب علامہ سرسری اور محترم شیخ مزمل صاحب معتبر شخصیات ہیں جنکو میں جانتا ہوں۔۔۔ جناب یہ تینوں شخصیات بیک وقت علم عروض پر بھی ملکہ رکھتے ہیں اور باکمال شعر گوئی بھی کرتے ہیں۔
المختصر ایک اچھا شاعر اچھا عروضی بھی ہوتا ہے مگر ایک اچھے عروضی کا شاعر ہونا ضروری نہیں ہزار سال پہلے کی تاریخ میں جائیں علم عروض کا بانی خلیل ابن احمد شاعر نہیں تھا۔ اچھا شعر کہنے کے لئے آپکا کسی حد تک عروضی ہونا ضروری ہے۔
عروض اور شاعری دو الگ شعبے ہیں بالکل ایسے جیسے ریاضی اور انجیئرنگ
ایک ریاضی دان کا انجینئر ہونا ضروری نہیں مگر ایک انجینئر کے لئے ریاضی سیکھنا ضروری ہے۔۔۔ آجکی انجیئرنگ کل کے ریاضی دانوں کی مرہون منت ہے۔۔۔ ریاضی دان فارمولے اخذ نہ کرتے تو آج یہ انجیئرنگ کا شعبہ نہ ہوتا اور آپ آج بھی غاروں میں رہ رہے ہوتے۔۔۔
اسی طرح عروضی اگر بحریں ایجاد نہ کرتے تو شاید ہم شاعر بھی نہ ہوتے۔۔۔ جس طرح ایک انجینئر ریاضی دانوں کا محتاج ہے ویسے ہی ایک شاعر عروضیوں کا محتاج ہے۔۔۔
نہ ریاضی دان انجینئر کا محتاج ہے اور نہ عروضی شاعر کا۔۔۔
علم عروض کی شاعری میں کیا اہمیت ہے؟
علم عروض شعر میں موسیقیت اور رعنائیت پیدا کرتا ہے۔
اگر کسی خیال پر الفاظ کا اوڑھنا اوڑھ دیا جائے تو نثر تو کہلائے گا مگر شعر نہیں۔۔۔ اسے شعر بنانے کے لیے علم عروض کو برتنا ہو گا۔
جب تک شعر میں علم عروض نہ برتا گیا ہو وہ شعر ہی نہیں کہلائے گا چاہے خیال کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اساتذہ آپکے غیر موزوں شعر پر اصلاح نہیں دیں گے بلکہ کہیں گے۔
پہلے علم عروض سیکھ کر آؤ پھر شعر کہنا۔
گاؤں کا ان پڑھ مستری بھی جب ایک دیوار کھڑی کرتا ہے تو پیمائشی آلات کا استعمال کرتا ہے۔۔۔ اسکے پاس شالو دھاگا ہوتا ہے جس سے وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ ایک بھی اینٹ ایک سینٹی میٹر بھی دیوار سے باہر نہ ہو ورنہ دیوار ٹیڑھی ہو جائے گی دیکھنے والے اسے میری نالائقی خیال کریں گے اور ایسی دیوار پر عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی اور چھت کسی بھی وقت زمین پر آ لگے گی۔۔۔ وہ جن اینٹوں کا استعمال کرتا ہے وہ بھی ایک مخصوص سانچے میں ڈھال کر تیار کی جاتی ہیں۔۔۔
علم عروض کی بحریں شاعر کے لئے پیمائشی آلات ہیں جو شعر کو مضبوط عمارت بنا دیتے ہیں اور اس کو ہر عیب سے پاک کر دیتے ہیں۔۔۔
جس طرح ایک قابل معمار کو پتا ہوتا ہے کہ عمارت کے اس حصے میں کس سائز کا پتھر رکھنا ہے اسی طرح ایک علم عروض پر دسترس رکھنے والا شاعر بھی جانتا ہے کہ شعر کے اس حصے میں کس وزن کا لفظ لانا ہو گا ، اس لفظ کے ہجے ، تلفظ اور بناوٹ کیسی ہونی چاہیے تاکہ شعر کا ردم نہ ٹوٹے اور اسکی روانی برقرار رہے۔
سوال 1 :- کیا شاعری کسی انسان کی فطرتی صلاحیت ہے ؟؟؟
جواب :- ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی طالب علم ریاضی میں اچھا ہوتا ہے تو کسی کو بیالوجی کا مضمون اچھا لگتا ہے بالکل اسی طرح کسی میں اچھا شاعر ہونے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اور کوئی شاعری کا بکثرت مطالعہ کر کے شعر کہنے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے۔
سوال 2 :- کیا شاعری کے لئے علم عروض سیکھنا ضروری ہے؟ کیا تمام شعراء نے یہ علم سیکھا ہے؟
جواب :- شاعری کہنے کے لئے بہت سے علوم کا جاننا ضروری ہے جن میں سے ایک علم علم عروض ہے۔ اردو زبان کے پہلے شاعر امیر خسرو سے لے کر وصی شاہ ، تہذیب حافی تک تمام شعراء نے یہ علم سیکھا ہے۔
سوال 3 :- کیا علم عروض جانے بغیر شعر کہنا ممکن ہے؟ کیا علم عروض خیالات کو تباہ کر دیتا ہے؟
جواب :- اکثر دوست یہ سمجھتے ہیں وہ رات کو خواب دیکھیں اور صبح کو غزل ہو جائے۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ شاعری لفظ شعور سے نکلا ہے اور شعور عمر کے ساتھ آتا ہے بالکل اسی طرح شاعری بھی عمر کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے کوئی پہلے دن شاعر نہیں بن جاتا اور نہ ہی کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آتا ہے۔
میر و غالب اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے شاعر ہیں لیکن آج بھی انکا نام بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا ہے اسکی کیا وجہ ہے ؟ اسکی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وہ تمام علوم سیکھے جو شعر کہنے کے لئے ضروری تھے جسکی بدولت انہوں نے لازوال اشعار تخلیق کیے آج بھی اگر کوئی انکا کلام پڑھتا ہے تو سر دھنتا ہے۔
ہر نامور زبان میں چاہے وہ عربی ہو فارسی ہو اردو ہو انگلش ہو سب میں شاعری کچھ اصولوں کے تابع ہے جسے علم عروض کہا جاتا ہے۔ اس علم کا مقصد شاعری میں موسیقیت پیدا کرنا ہے تاکہ قاری اسے روانی سے پڑھ سکے اور سامع کی سماعت پر گراں نہ گزرے اور اسے گایا بھی جا سکے۔ اگر آپ کا کلام ان اصولوں پر پورا نہیں اترے گا تو قاری جلد بیزار ہو جائے گا اور نہ ہی اسے سر میں گایا جا سکے گا۔ علم عروض نثر اور شعر میں فرق کرنے کا ایک پیمانہ ہے۔
کیا علم عروض خیالات کو تباہ کرتا ہے ؟ جی نہیں علم عروض خیالات کو رعنائیت بخشتا ہے۔ یہ شاعر کا فن ہوتا ہے کہ وہ کیسے اپنے خیالات کو علم عروض کے تابع کرتا ہے اسی فن کی وجہ سے تو اسے شاعر کہتے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے آپکا ابتدائی خیال علم عروض سے گزرنے کے بعد اپنی اصل ہئیت تبدیل کر لے یا اسکی جگہ اس سے ملتا جلتا خیال لے لے۔
مسعود حساس صاحب سے سنا تھا۔
شاعری کے لئے تین م کا یکجا ہونا بہت ضروری ہے
مطالعہ
مشق
مشورہ
یہ تین م آپس میں ملتی ہیں تو ایک اچھا شاعر وجود میں آتا ہے۔
سوال 4 :- نئے شعراء کو اساتذہ کی جانب سے تنقید کا کیوں سامنا کرنا پڑتا ہے؟
جواب :- کوئی بھی علم ہے اسے بغیر استاد کے نہیں سیکھا جا سکتا۔ تنقید بھی ہمارے ادب کا حصہ ہے اور میرے خیال میں میر و غالب سمیت کوئی شاعر اس سے بچا ہوا نہیں مبتدی اور نئے شعراء تو اپنی جگہ رہ گئے۔
نئے شعراء کے کلام میں کچھ غلطیاں ہوتی ہیں جنکی بناء پر انکی اصلاح کی جاتی ہے جیسے اوزان کی غلطیاں ، شاعری عیوب کا ہونا ، محاوروں کا غلط استعمال ، دوسری زبان کے الفاظ کا شامل ہونا وغیرہ
اوزان کے لئے علم عروض سیکھنا ضروری ہے۔
شاعری عیوب سے نجات کے لئے علم بیان ، علم معانی اور علم صنائع بدائع وغیرہ کا جاننا ضروری ہے۔
اردو ادب میں کسی لفظ کی جگہ اس کا ہم معنی لفظ لایا جائے تو محاورہ غلط ہو جاتا ہے جیسے
اس نے اسکا خون کر دیا ہے۔
اس جملے میں خون کرنا محاورہ بولا گیا ہے جس کا مطلب قتل کرنا ہے اب اگر خون کرنے کی جگہ لہو کرنا بولا جائے تو محاورہ غلط ہو جائے گا چاہے لہو بھی لفظ خون کا ہم معنی ہے۔
اسی طرح غیر فطرتی باتوں کا اشعار میں لانا بھی درست نہیں ہوتا۔ جیسے مشہور زمانہ گانا ہے ” بہتی ہوا سا تھا وہ ”
اس میں یہ عیب ہے کہ ہوا بہتی نہیں اڑتی ہے۔ بہتی ہوا یہ الفاظ فطرت کے خلاف ہیں۔
اسی طرح شعر کا واضح ہونا بہت ضروری ہے تاکہ قاری کو سمجھ آ سکے۔ شعر میں پہیلی نہیں ڈالی جا سکتی۔ شعر اپنے مطالب پوری طرح بیان کر رہا ہو۔ پہلے مصرعے کا دوسرے مصرعے کے ساتھ ربط ہو ۔۔۔ ایسا نہ ہو پہلے مصرعہ غالب کا دوسرا اقبال کا لگے۔
یہ تمام چیزیں جب مبتدی کے سامنے آتی ہیں تو وہ خائف ہو جاتا ہے اور الٹا عروضیوں اور نقاد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتا ہے۔
سوال 5 :- کیا کوئی علم عروض سیکھے بغیر شاعری کر سکتا ہے ؟
جواب :- علم عروض سیکھے بغیر شاعری کرنا ناممکن ہے لیکن اسکو سیکھنے کے آسان طریقے ضرور موجود ہیں۔
اس کی وضاحت کرنے سے پہلے ایک واقعہ آپکو سناتا ہوں ۔
میں نے اپنی ایک غزل کچھ نعت گو طالب علموں کو دی کہ وہ اسے ترنم سے تیار کر کے لائیں تو جب وہ اگلے دن سنانے کے لئے آئے تو انہوں نے کچھ مشہور گانوں کی طرز پر وہ غزل سنائی اور یقین جانیں ان گانوں اور اس غزل کی بحر ایک ہی تھی حالانکہ وہ علم عروض نہیں جانتے تھے۔
کچھ شاعر ایسے بھی ہیں جو کسی مشہور غزل کو بار بار گاتے ہیں تو اسکا آہنگ انکی زبان پر چڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے خیالات کو بآسانی اس غزل کی بحر پر اسی ردھم میں گا کر پورا اتار لیتے ہیں اور وہ کلام موزوں ہو جاتا ہے۔ اسکے لئے بھی یقینا مشق کی ضرورت ہے۔
امید ہے آپکو آپکے سوالات کا جواب مل گیا ہو گا۔ آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو آپ بلا جھجک پوچھ سکتے ہیں۔