علاج جاری ہے
ایک پرانے لطیفے کے مطابق مینٹل ہاسپٹل کا نیا انچارج ڈاکٹر تعینات ہوا۔ پہلے روز ہی ہسپتال کے راؤنڈ کے دوران اس نے دیکھا کہ ایک پاگل پودوں اور درختوں سے خطاب کر رہا ہے۔ ڈاکٹر نے رک کر اس کی گفتگو سنی تو اسے اندازہ ہوا کہ یہ مریض دوسروں کی نسبت جلد ٹھیک ہو سکتا ہے۔
دوسرے روز اس نے مریض کو اپنے کمرے میں بلایا اور اس کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے اس کے ساتھ گفتگو شروع کر دی۔ مریض جو بظاہر نارمل محسوس ہوتا تھا، بہت اچھی باتیں کر رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ اگر اسے یہاں سے ڈسچارج کر دیا جائے تو وہ باہر جا کر کیا کرے گا؟
مریض نے کہا: کرنا کیا ہے، گیٹ سے باہر نکلوں گا، سڑک کے کونے پر سائیکل پنکچر کی دکان پر جاؤں گا، اس سے ایک پرانی ٹیوب خریدوں گا، دو شاخہ لکڑی میرے پاس ہے، اس سے غلیل بناؤں گا اور چڑیاں ماروں گا۔
ڈاکٹر نے حیرت اور تشویش سے مریض کی جانب دیکھا، اس کی ادویات میں کچھ رد وبدل تجویز کیا اور اسے ایک ماہ کی آبزرویشن پر رکھ لیا۔
اگلے ماہ پھر اس نے مریض کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ اب اسے باہر بھیج دیا جائے تو وہ کیا کرے گا؟
مریض نے کہا: میں یہاں سے باہر جاؤں گا۔ اپنے لیے کوئی ملازمت ڈھونڈوں گا۔
ڈاکٹر اس کی ذہنی حالت میں تبدیلی دیکھ کر بہت خوش ہوا اور پوچھا کہ نوکری کر کے کیا کرو گے؟
مریض بولا: کرنا کیا ہے، دو تین ماہ کی تنخواہ سے پیسے بچا کر سائیکل خریدوں گا، اسی پر دفتر جایا کروں گا، جب اس کی ٹیوبیں پرانی ہو جائیں گی تو انہیں نکال لوں گا، دو شاخہ لکڑی میرے پاس ہے، اس سے غلیل بناؤں گا اور چڑیاں ماروں گا۔
ڈاکٹر جزبز ہو کر بولا: آخر سائیکل کی ٹیوب نکال کر غلیل کیوں بناؤ گے ۔۔۔۔ تمہیں اگر ٹھیک ہونا ہے تو یہ خیال دماغ سے نکال دو۔ اس نے پھر ادویات میں کچھ ردوبدل کیا اور کہا کہ یہ آخری موقع ہے، اب اگر تم ٹھیک نہ ہوئے تو باہر نہ جا سکو گے۔
ایک ماہ کے بعد ڈاکٹر نے پھر مریض کو معائنے کے لیے بلایا اور اس سے گفتگو شروع کر دی۔
ڈاکٹر: اب تم کیسا محسوس کرتے ہو؟
مریض اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔
ڈاکٹر: اب تو سائیکل اور اس کی ٹیوب ۔۔۔۔۔
مریض (بات کاٹتے ہوئے) ڈاکٹر صاحب، ان منحوس چیزوں کا نام نہ لیں۔ ان کی وجہ سے میرے کئی سال ضائع ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر بہت خوش ہوا اور پوچھا کہ اب وہ کیا کرے گا؟
مریض: ڈاکٹر صاحب، اب میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں اور ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر: وہ کیسے؟
مریض: اب میں باہر جا کر کوئی نوکری تلاش کروں گا، ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لوں گا۔
ڈاکٹر: پھر۔۔۔۔؟
مریض: پھر میں شادی کروں گا۔ میرا ایک چھوٹا سا خاندان ہو گا۔ بچے تو دو ہی اچھے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر اب تو تم بالکل ٹھیک ہو گئے ہو۔ میں کل ہی تمہیں ڈسچارج کر دوں گا۔
مریض: بہت شکریہ سر ۔۔۔۔ وہ میں بتا رہا تھا کہ دو بچوں کے بعد مجھے فیملی پلاننگ کرنا ہو گی۔
ڈاکٹر: بھئی واہ ۔۔۔ تمہیں فیملی پلاننگ کا بھی پتا ہے؟
مریض: کیوں نہیں ۔۔۔۔ میں کوئی پاگل تھوڑی ہوں۔
ڈاکٹر: اچھا تو پھر فیملی پلاننگ کے لیے کیا طریقہ اختیار کرو گے؟
مریض: میں کنڈوم استعمال کروں گا اور استعمال شدہ کنڈوم جمع کروں گا۔
ڈاکٹر: ہیں۔۔۔۔؟ وہ کیوں؟
مریض: دو شاخہ لکڑی میرے پاس ہے، اس سے غلیل بناؤں گا اور چڑیاں ماروں گا۔
بتانا آپ کو یہ تھا کہ کچھ لوگوں کا 70 سال سے علاج جاری ہے ۔۔۔۔ کبھی سوویت یونین، کبھی بھارت، کبھی افغانستان، کبھی امریکا ۔۔۔۔۔ لیکن بات آخرکار وہیں پر آجاتی ہے ۔۔۔۔ "دو شاخہ لکڑی میرے پاس ہے، اس سے غلیل بناؤں گا اور چڑیاں ماروں گا۔"
دیکھ لیجیے اب میں نے کسی کا نام نہیں لیا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔