یہ باون رسالے ہیں اور تیرپنواں رسالہ جس کا نام جامعہ ہے۔ اس میں ان رسالوں کا خلاصہ ہے۔ ان رسالوں کے خطی نسخے عرب اور برصغیر کے کتب خانوں میں ملتے ہیں۔ یہ رسالے مصر اور بمبئی میں چھپ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک رسالے کا مولوی اکرام نے جامع کا اردو ترجمہ کیا اور محمد فیض اللہ نے 1852ء میں کلکتہ میں اس ترجمہ کو چھاپا۔ اس کا پی ڈی ایف میرے پاس ہے۔ اس کو میں نے سرسری دیکھا اور ابھی تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ہے۔
ان رسالوں کے مولفین نام نہیں ملتے ہیں۔ اس لیے لوگوں میں اختلاف ہے کہ یہ کس نے لکھے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اس امام کا کلام ہے جو حضرت علیؓ کی نسل سے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ متعزلیوں کی تصنیف ہیں۔ مگر ابو ریحان توحیدی کا کہنا ہے کہ رفاعہ چوتھٰ صدی ہجری میں ایک عالم گزرا ہے۔ یہ بصرہ میں رہا ہے جہاں اس نے مختلف فضلاء ابو سفیان، ابوالحسن، ابواحمد الہرجانی، العوفی وغیرہ سے مل کر ایک انجمن بنائی اور طہ کیا کہ مثالی زندگی بسر کریں گے۔ انہوں نے ایک مذہب ایجاد کیا جو ان کے مطابق اللہ کی قربت اور خشنوی کا باعث ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شریعت کو جاہلوں نے ناپاک کردیا ہے۔ اسے فلسفہ ہی پاک کرسکتا ہے اور عربی دین اور یونانی دین مل جائیں تو کمال ہوگا۔ انہوں نے یہ رسالے لکھے۔ ابو ریحان توحیدی کا کہنا ہے کہ میں نے یہ رسالے دیکھے ہیں۔ ان میں ہر فن پر لکھا ہے مگر یہ نہایت اختصار سے ہیں۔ اس میں بشتر خرافات، کنایات اور اشارے ہیں۔
آلوسی کا کہنا ہے کہ یہ رسائل قرامطہ کے مذہب پر مبنی ہیں اور تیسری صدی ہجری میں بنی بویہ کے دور میں لکھے گئے۔ بعض لوگ انہیں حضرت جعفر صادق سے منسوب کرتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ ان کا مولف قاسم الاندلسی مجریطی ہے۔ان رسالوں میں تصوف اور فلسفہ دونوں ملے ہوئے ہیں اور ان میں شیعت کی جھلک نظر آتی ہے۔ آلوسی کے اس قول پر احمد زکی پاشاہ نے بحث کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مجریطی کے نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیوں کے مجریطی کا کہنا ہے میں نے تمام مسلوں کھول کر بیان کئے ہیں اخوان صفاء والے کہتے ہیں کہ ہم نے اختصار سے بیان کیے ہیں۔
اسمعلیوں کی روایت ہے یہ امام احمد بن عبداللہ نے تصنیف کیے ہیں۔ انہوں نے ان رسالوں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شریعت اور فلسفہ آپس میں متفق ہیں۔ کیوں کہ خلیفہ مامون نے دین میں تفرقہ پیدا کر رہا تھا۔ جب رسالے لکھ کر مسجدوں میں رکھوائے گئے تو مامون کو پتہ چل گیا کہ امام زندہ تو وہ اپنے ارادے سے باز آیا۔ یہ وجہ ہے بمبئی میں شائع شدہ نخسے میں مولف کا نام الامام احمد بن عبداللہ لکھا ہے۔ لیکن ان رسالوں کا کسی اسمعیلی امام اور داعی نے حوالہ نہیں دیا ہے۔ ممکن ہے ان رسالوں کو قرامطہ نے تصنیف کیے ہوں۔
ان رسالوں کو پڑھ کر تجس بیدار ہوتا ہے مگر تسلی نہیں ہوتی ہے۔ ان کی دلیلیں اور حجتیں واضح نہیں ہیں اور انہوں نے اپنے مقاصد کی طرف اشارہ تو کیا ہے لیکن واضح نہیں کیا ہے۔ ان رسالوں میں دعویٰ کیا گیا کہ اہل خیر کا دور شروع ہونے والا ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ہمم ظہور کا سال اور ماہ بتاسکتے ہی۔ پرفیسر سانوا کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہٰں ہے یہ رسالے قرامطہ یا اسمعیلوں نے تصنیف کئے ہوں۔ کیوں کہ ان اس میں ہر دور میں ایک امام کا ہونا ان کی دعوت اور اس کے ارکان کا ذکر دور کشف اور دور ستر کا ذکر یہ عقیدے اسمعیلیوں کے ہیں۔
اس رسالوں میں کہا گیا ہے ہم اہل عدل، اہل بیت اور رسول، ہم علم خدا اور نبوت کے وارث ہین۔ ہمارا جوہر سمادی، ہمار عالم علوی ہے۔ اس لیے ہم پر زمانے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ ہم میں اور دوسرے انسانوں میں وہی فرق ہے جو کہ حیوان ناطق اور غیر حیوان ناطق میں فرق ہے۔ ہم دنیا میں امام برحق ہیں، ہماری پیروی میں نجات ہے، ہمارا ہر فرد خدا کی حجت ہے، جو دنیا سے کبھی ختم نہیں ہوگا، ہمارا مذہب دوسرے تمام مذہبوں سے اعلیٰ ہے، ہم دشمنوں کے خوف سے مخفی ہوگئے ہیں اور ہم جلد ظاہر ہوں گے، زمین کو انصاف اور عدل سے بھر دیں گے۔ ان رسالوں ہم نے اپنے مقاصد پر روشنی ڈالی ہے۔ ابو ریحان توحیدی نے یہ رسالے اپنے شیخ ابو سلمان سجستانی کو دیکھائے۔ انہوں نے اس کا مطالعہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں نے مشقت اٹھائی، پانی کی تلاش میں گھومے مگر چشمے تک نہیں پہنچ سکے۔ راگ الاپے مگر لے پیدا نہیں کرسکے۔ ناممکنات کو وجود میں لانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔
ہمارے بہت سے دانشوروں نے اس کی بڑی تعریفیں کیں ہیں اور اسے اولین انسائیکلو پیڈیا کا درجہ دیا ہے۔ مثلاً پروفیسر وارث میر نے اس پر روز نامہ جنگ میں اس پر کئی کالم لکھے تھے۔ مگر لگتا ہے انہوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ اس میں مختلف علوم و فنون پر بحث کی گئی ہے۔ مگر اس میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مستشرقین نے ان رسالوں پر بہت توجہ دی ہے۔ ڈی بویر نے اپنی کتاب تاریخ فلسفہ اسلام میں ان رسائل پر تفصیلی بحث کی ہے۔