سرکار دو عالم حضرت محمد ص انہیں چیزوں کا مجموعہ تھے ، اور آج بھی نہ صرف valid ہیں بلکلہ انہیں کی اسوہ حسنہ کو follow کرنا بہترین زندگی گزارنے کا طریقہ ہے ۔ انہیں کی بتائ ہوئیں انسانی اقدار یہاں اور آخرت میں نجات کا زریعہ ہیں ۔ میرے ایک بہت عالم فاضل دوست نے میری کل کی پوسٹ کو سراہنے کہ بعد کچھ یوں تبصرہ کیا ۔
“عمران خان نے نہ تو کوئی پلاننگ کی ہے اور نہ کوئی پیپر ورک کیا ہوا ہے اور اوپر سے بدنام زمانہ بیوروکریٹس و مشیروں کی ٹیم اکھٹا کیا۔۔اللہ خیر کریں مجھے تو آگے اندھیرا نظر آ رہا ہے”
اصل میں یہی میری اور رؤف کلاسرا جیسے لوگوں کی عمران پر تنقید کی وجہ ہے ۔ میں تو امریکہ بیٹھا ہوں کلاسرا صاحب پاکستان میں خوش ہم نے کیا لینا دینا خان صاحب سے ۔
مجھے تو اب Algorithms کی یلغار اتنی تنگ کرتی نظر نہیں آتی جتنا اخلاقی قدروں اور انسانیت کا فقدان ۔ دبئ سے میرے بہت پیارے فولور کہ رہے تھے کہ
“نزر صاحب ، عمران تو کہتا تھا کہ مغرب میں تو لوگ جتنی جانور کی قدر کرتے ہیں پاکستان میں تو انسان کی اتنی قدر نہیں، اور اب عمران ۔۔”
جی یہ حقیقت ہے ، میں جب گھر سے نکل کر رہا تھا تو بیگم Simba کو کہ رہی تھی ، بیٹا سوری مجھے دیر ہو گی اٹھنے میں ابھی تمہارا ناشتہ دیتی ہوں۔ پچھلے دنوں جب ہم نے اسے pet clinic سے لیا ڈاکٹر نے کہا دیکھو تمہارے mom اور dad ، تمہے لینے آئے ہیں ۔ یہی spirit انسانوں کہ بارے میں یہاں امریکی معاشرہ میں ہے ۔ ہاں البتہ کارپوریشنز اور حکومتیں جو انسان کا استحصال کر رہی ہیں ان کی سوچ یکسر مختلف اور وحشیانہ ۔
میں نے یوُوال ہراری کی نئ آئ کتاب کا مطالعہ بھی کیا ، جس میں وہ ۲۱ صدی کہ ۲۱ سبق سکھاتا ہے ۔ بہت زبردست کتاب ہے ضرور مطالعہ کریں ۔ ہراری پیدا تو یہودی خاندان میں ہوا تھا لیکن بُدھا کا فولور ہے اور اسی کی ویپاسنہ meditation روز دو دفعہ کرتا ہے ۔ پچھلے ایک سال سے ہراری نے سمارٹ فون کا استمعال بند کر دیا ہے ۔ لگتا ہے آہستہ آہستہ وہ بھی دنیا سے asha کی طرح کنارہ کشی کر کہ کہیں دور پہاڑوں میں پڑاؤ ڈالے۔ اس کتاب میں ہراری بہت خوبصورت دلائیل کہ ساتھ انسانیت اور اخلاقیات والا بیانیہ پیش کرتا ہے ۔ اس کہ نزدیک جب کم آبادی تھی تو اخلاقیات اور قانون کا نفاز آسان تھا ۔ ہم جرم ہوتا دیکھتے تھے یا کردار عیاں تھے ۔ اب وہ مثال دیتا ہے کہ اگر ہم ایک تیل کی کمپنی کہ شئیر خریدتے ہیں اور اس کہ عوض جو بھی سالانہ منافع ملتا ہے بہت خوش ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ یہ تیل کی کمپنی تو کہیں اپنا پیٹرو کیمیکل فُضلہ کسی سمندر میں پھینک کر ہمارا ماحول خراب کر رہی ہیں ۔ یہ تو ہم اپنی موت کہ پروانہ پر دستخط کر رہے ہیں ۔ اور مزید اسے ایسے بیان کرتا ہے ۔
“the greater crimes in modern history resulted not just from hatred and greed but even more so from ignorance and indifference. Charming English ladies financed the Atlantic slave trade by buying shares and bonds in the London Stock exchange without ever setting foot in either Africa or the Caribbean. They then sweetened their four o clock tea with Snow White sugar cubes produced in hellish plantations about which they knew nothing”
ہراری کہ نزدیک دنیا بہت کمپلیکس ہو گی ہے ۔ ہم چاہیں بھی تو ہمیں بہت ساری چیزیں پتہ کرنا مشکل ہے ۔ ہم پھر کیا کرتے ہیں مسائیل کو downsize یا سرے سے ہی deny کر دیتے ہیں ۔ وہ down sizing میں شام کی مثال دیتا ہے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بس ایک طرف اسد ہے اور دوسری طرف rebels ۔ اصل وجوہات اور معاملات نہ ہم پتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی چاہتے ہیں ۔ اسی پر سیاستدان ، میڈیا سب خوش ۔ پاکستان میں کل سے اسی بات پر بتنگڑ بنا ہوا ہے کہ ہندوستان نے وزیر خارجہ کہ لیول پر ملاقات کی پاکستانی پیشکش کیوں ٹھکرا دی ۔ ہم نے اپنے لیڈروں کو infallible مانا ، ان کی idol worshipping کی حالنکہ انہوں نے تو ہماری خدمت کا وعدہ کیا تھا وہ بادشاہ کیسے ؟ کربلا کا واقعہ ، منصور اور سرمد کا سر قلم کرنا یہی ماجرا تھا ، وہ بادشاہت کہ خلاف تھے ان سب کہ نزدیک بادشاہ تو خالق ہے اور اس کی صورت میں ہم سب ۔ اسٹیک ہولڈر تو ہم ہیں ۔ وہ تو باہر دوڑ جاہیں گے crime کر کہ ایون فیلڈ کی رہائشگاہوں میں ڈبلو ببلو کی طرح ۔
یہی حال ہراری کہ نزدیک مزہبی سربراہوں کا ہے ۔ وہ کربلا کی مثال دیتا ہے کہ مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے ، کیکن باوجود اس کہ پیغمبر کہ نواسے کہ ساتھ زیادتی ہوئ ۔ اور مزید بُدھ مزہب کہ میانمار میں monk آشن وراراتُھو کی مثال دیتا ہے کہ ، ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ مکھی بھی نہیں مارنی دوسری طرف مسلمانوں کا قتل عام میانمار میں وہ اکیلا شخص کروا رہا ہے ۔
ایک اور طریقہ downsizing کا وہ بتاتا ہے کہ اس کو اور تنگ اور چھوٹا کر دو ۔ ایک لڑکی روکیہ کہ ساتھ مالی میں زیادتی ہوئ اس کو فوکس کر لو اور اس کی تو مدد ہو جائے گی لیکن اگر کہا جائے کہ اس مسئلہ میں اور بھی لڑکیاں ہیں ان کی بھی مدد کریں تو سب دوڑ جاتے ہیں ۔ ملالہ والا معاملہ ۔ تیسرا طریقہ ہے کہ کوئ سازش کی تھیوری پیش کر دو ، جیسے کہ یہ بات پھیلا دو کہ بیس لوگ جو ملٹی بلینیر ہیں وہی پوری دنیا پر قابض ہیں ۔ حالنکہ ہراری کہ نزدیک اس طرح کہ بیس ہر محلہ میں موجود ہیں ۔ چوتھا طریقہ اس سچ کو چھپانے کا Denial ہے ۔ ایک اور نیا dogma پیدا کر دو ۔ جیسے مسلمانوں میں قادیانی اور عیسائ مزہب میں مورمون، یا جتنے جعلی ڈبہ پیر۔ اب ہراری کہ نزدیک حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ
We now suffer from global problems, without having a global community. Neither Facebook , nationalism , nor religion is any where near creating such a community. All the existing human tribes are absorbed in advancing their particular interests rather than in understanding the global truth
اب ہم سب پھنس گئے ہیں ۔ کیا ہم اپنی شکست مان لیں ؟ ہر اری کہتا ہے کہ اب معاملہ ہماری hacking تک پہنچ گیا ہے ۔ algorithms انسان کو ہیک کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، کیسے بچا جائے ؟ بہت آسان حل ، جو میں بھی اکثر بتاتا ہوں کئ حوالوں سے ۔ اپنے اندر جھانکنے کا۔ اپنے اندر اپنے سچ کو تلاش کرنے والا۔ اس میں مست ہو جائیں ۔ مراقبہ کریں ، دھرتی کو محسوس کریں ۔ ستاروں کو اٹھ اٹھ کر رات کو دیکھیں ۔ بادلوں کہ سنگ سفر کریں ۔ اپنے کائنات کا حصہ بننے کا مقصد تلاش کریں ۔ کل ایک دوست ریاست مینیسوٹا سے فون کر کہ کہتا آپ کا پیسہ کمانے کا کیا سلسلہ ہے ، میں نے کہا میں اس سے آزاد ہو گیا ہوں ۔ یہ اوروں کی فکر ہے میری نہیں ۔ میں کائنات سے لطف اندوز ہو رہا ہوں ۔ ہراری آکسفورڈ کا ہی ایچ ڈی ہے اور آجکل سب کچھ unlearn کر رہا ہے ۔ emptiness ہی سچ ہے ۔ کچھ نہ کرنا ہی سب کچھ کرنا ہے ۔ اپنے آپ کو جانیے جسے ہراری بہت خوبصورت الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔
“for thousands of years philosophers and prophets have urged people to know themselves. But this advice was never more urgent than in the 21st century, because unlike in the days of Laozi or Socrates , now you have serious competition. Coca Cola, Amazon , Baidu , and the government are all racing to hack you”
ان سب سے ہیک ہونے سے بچیں ۔ اپنی زندگی گزاریں خواہ کسی جھونپڑی میں ۔ algorithms کی کیا مجال کہ آپ کو dictate کرے ۔ میں اپنا فون ۱۵ گھنٹے بند رکھتا ہوں ، اپنی زندگی کا اختیار میں کسی اور کو کیوں دوں ۔
اپنے آپ کو زرداری ، نواز شریف اور عمران خان سے ہیک ہونے سے بچائیں ۔ اپنی زندگیاں گزاریں ۔
بہت خوش رہیں ۔ ایک شاعرہ نگہت میری فالور ہیں اگلے دن کچھ اشعار ٹویٹ کیے ۔
دیدہءتر کر
دل کو سمندر کر
اترجا میرے دل میں
درد کو باہم کر
مجھ سے گفتگو نہ سہی
بات تو پیہم کر