آج – ٦ ؍جون؍ ١٩٣٦
ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور، بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ اور معروف شاعر” اخلاق احمد شہریار ؔ صاحب“ کا یومِ ولادت…
کنور اخلاق احمد دنیائے ادب میں شہر یار کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔وہ ٦ جون ١٩٣٦ء کو آنولہ ، ضلع بریلی ، اُتر پردیش میں پیدا ہُوئے۔ابتدائی تعلیم ہردوئی میں حاصل کی۔1948میں علی گڑھ آئے۔1961 میں اردو میں ایم اے کیا۔1966میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے۔1996میں یہیں سے پروفیسر اور صدر اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ہاکی،بیڈمنٹن اور رمی کھیلنا پسند کرتے تھے ۔اپنی مے نوشی کے لیے بھی جانے جاتے تھے ۔ خلیل الرحمن اعظمی سے قربت کے بعد شاعری کا آغاز ہوا ۔کچھ غزلیں کنور اخلاق احمد کے نام سے شائع ہوئیں ۔ شاذ تمکنت کے مشورے پر اپنا نام شہر یارؔ رکھا ۔ان کے والد پولس انسپکٹر تھے ۔انجمن ترقی اردو (ہند )علی گڑھ میں لٹریری اسسٹنٹ بھی رہے اورانجمن کے رسائل اردو ادب اور ہماری زبان کی ادارت کی ۔مغنی تبسم کے ساتھ شعر وحکمت کی ادارت بھی کی ۔ان کی شہرت میں مظفر علی کی گمن اور امراؤں جان جیسی فلموں کا اہم رول ہے ۔فلم انجمن کے گانے بھی انہی کے لکھےہوئے ہیں۔ساہیتہ اکادمی کے لیے بیدار بخت نے مری این ائر کی مدد سے ان کے منتخب کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا ۔ایک انگریزی ترجمہ رخشندہ جلیل نے بھی کیا ہے ۔سنگ میل پبلی کیشنز پاکستان سے ان کا کلیات شائع ہوا جس میں ان کے چھے مجموعے شامل ہیں ۔یہی کلیات سورج کو نکلتا دیکھوں کے نام سے ہندوستان سے شائع ہو چکا ہے ۔ ان کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن ، روسی ،مراٹھی ،بنگالی اور تیلگو میں ہو چکا ہے ۔گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکیڈمی سمیت متعد د اعزازات سے نوازے گئے ۔ ١٣ فرروری ٢٠١٢ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر شہر یار ؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی
آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی
—
آندھیاں آتی تھیں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا
خوف کے مارے جدا شاخ سے پتا نہ ہوا
—
آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے
ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات
—
اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھر سے
—
اس کو کسی کے واسطے بے تاب دیکھتے
ہم بھی کبھی یہ منظرِ نایاب دیکھتے
—
امید سے کم چشمِ خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
—
اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں
—
ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہیئے آنا وہیں نہیں آتا
—
تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو
کب سے پلکوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو
—
ان آنکھوں کی مستی کے دیوانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
—
جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا
سمجھوتا کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا
—
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
—
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
—
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
—
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
—
عمر کا باقی سفر کرنا ہے اس شرط کے ساتھ
دھوپ دیکھیں تو اسے سائے سے تعبیر کریں
—
گردش وقت کا کتنا بڑا احساں ہے کہ آج
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
—
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا
—
کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا
غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا
—
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
—
ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ
ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے
اخلاق احمد شہریار ؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ