میری پشت پر زور سے لات پڑی اور میں چھ فٹ تک اچھلتا ہوا دروازے کے اندر جاپڑا۔ میرے حلق سے ایک چیخ نکلی، بمشکل اٹھ کر واپس مڑا لیکن تاحد نظر پھیلا ہوا آہنی دروازہ بند ہوچکا تھا۔ میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میں آہستہ آہستہ گھوما اور میری ایک اور چیخ نکل گئی۔ سامنے ہر طرف بھڑکتی ہوئی آگ تھی اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ الٹے لٹکے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں کے ننگے بدن پر کوڑے مارے جارہے تھے، کچھ کو سانپ کاٹ رہے تھے اور کچھ کو بچھوئوں نے منتخب کیا ہوا تھا۔ ایک لمحے میں مجھے سمجھ آگئی کہ مجھے دوزخ نصیب ہوچکی ہے۔۔۔!
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مجھے کیوں دوزخ میں ڈال دیا گیا۔ میں تو انتہائی نیک تھا، میری ساری گرل فرینڈز مجھے ولی اللہ کہتی تھیں، ہر امیر بندہ میری دیانتداری کا معترف تھا‘ میں نے تو ہر کامیاب سمگلنگ کے بعد گھر میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا تھا، جب جب مجرا دیکھا اگلے چھ دن محلے میں نیاز بانٹی۔ میں نے تو اپنے ڈرائیور کے سرونٹ کوارٹر میں بھی اے سی لگوا کردیا ہوا تھا اور بل بھی نہیں لیتا تھا۔۔۔ بل خاک لینا تھا، لائن ہی ڈائریکٹ لگوائی ہوئی تھی۔ لیکن مجھے دوزخ مل گئی۔۔۔!
میں پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا کہ اچانک کسی نے میرے کندھے پرہاتھ رکھا۔ میں نے چونک کر دیکھا اور حیران رہ گیا۔ مولانا نیک دین میرے پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ میں چلایا ''مولانا آپ اور دوزخ میں؟۔۔۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘‘ مولانا مسکرائے، جواب دینے کی بجائے میرا ہاتھ پکڑا اوردائیں طرف چل پڑے۔ ایک جگہ ابلتے ہوئے بڑے سے کڑاہے میں گنہگاروں کو فرائی کیا جارہا تھا، ان کی چیخوں سے کان پھٹے جا رہے تھے۔ میں تھرتھرکانپنے لگا۔ مولانا نے میرا ہاتھ مزید مضبوطی سے پکڑ ا اور جلدی سے آگے چل پڑے۔ تھوڑی دور چل کر ایک اور منظر نے قدم روک لیے۔ یہاں لوگوں کا جم غفیر اپنے آپ کو مار رہا تھا۔ کوئی اپنے سر میں گولی ماررہا تھا، کوئی اونچائی سے چھلانگ لگاکر بار بار مر رہا تھا اور کوئی مسلسل اپنے پیٹ میں چھریاں مار رہا تھا۔ میری تو جان ہی نکل گئی۔ میں نے مولانا سے پوچھ ہی لیاکہ ''قبلہ آپ بھی تو دوزخ میں ہیں،آپ کو کوئی سزا نہیں ملی؟‘‘ مولانا نے پہلے ایک قہقہہ لگایا ‘ پھر زاروقطا ر رونے لگے۔ وجہ پوچھی تو بولے''ہنسا میں اس لیے ہوں کہ مجھے ذرا کم درجے کی سزا ملی ہے اور رویا اس لیے ہوں کہ اب یہی سزا تمہیں بھی ملنے والی ہے‘‘۔ میرے ہوش اڑ گئے''کون سی سزا ملنے والی ہے؟‘‘ مولانا نے سامنے اشارہ کیا اور سامنے دیکھتے ہی گویا میری آنکھیں پتھر کی ہوگئیں۔ سامنے ایک بڑی سی انگیٹھی میں دہکتے ہوئے کوئلے تھے اور اوپر سیخ میں پروئے ہوئے کچھ لوگ تکے کباب کی طرح لٹک رہے تھے۔ میں ہذیانی انداز میں چلانا شروع ہوگیا: ''نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں مر جائوں گا۔۔۔۔میں مرجائوں گا‘‘۔ مولوی صاحب نے مجھے کہنی ماری ''ابے چپ! تم آل ریڈی مرچکے ہو‘‘۔ میں پوری قوت سے چیخا ''مجھے یہ سزا نہیں منظور‘‘۔ مولوی صاحب نے قہقہہ لگایا ''ابے یہاںاپنی مرضی سے سزائیں نہیں ملتیں‘‘۔ میں نے دانت پیسے ''تو پھر آپ ابھی تک یہاں کیوں نہیں لٹکے؟‘‘ یہ سنتے ہی مولوی صاحب یکدم چپ کر گئے، کچھ دیر میری طرف دیکھا، پھر ان کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں، انہوں نے اپنی زبان باہر نکالی اور میں کانپ گیا۔ ان کی زبان پر موٹے موٹے چھالے پڑے ہوئے تھے۔''میری زبان کو روز گرم سلاخوں سے داغا جاتاہے کیونکہ میں اسلام پھیلانے کی بجائے تفرقہ پھیلاتا تھا۔ میں اپنے پاس سے واقعات گھڑ گھڑ کر لوگوں کو اپنے مسلک میں آنے کی دعوت دیتا تھا۔ میں لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانے کی بجائے دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں لگا رہتا تھا۔ میری قبر پر میرے مرید آتے ہیں‘ میری برسی منائی جاتی ہے‘ مجھ سے دعائیں کی جاتی ہیں، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ میں کس حال میں ہوں۔۔۔۔لو اب میں چلتا ہوں ‘ میری سزا کا وقت شروع ہونے والا ہے۔۔۔‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ڈھیلے قدموں سے دوسری طرف مڑ گئے!
میں ششدر کھڑا تھا۔ مولانا تو زندگی میں میرے آئیڈیل تھے۔ میں نے خود ان کے مزار پر لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی دیکھی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ مولانا کی قبر پر پڑے نمک کو زبان پر لگانے سے زبان کے چھالے فوراً ختم ہوجاتے ہیں، لیکن یہاں تو۔۔۔۔!
اتنے میں ایک بغیر دھڑ کا لہو لہان مردانہ سر اُڑتا ہوا میرے قریب آگرا، میں بدک کر دور ہوگیا۔ کٹا ہوا سر میری طرف گھوما ''دوزخ میں خوش آمدید‘‘۔ میں نے پہلی دفعہ کسی سر کو یوں بولتے دیکھا تھا، اس لیے پہلے تو ڈر گیا لیکن پھر سوچا یہ دوزخ ہے، یہاں تو ایسے نظارے جا بجا ملیں گے۔ میں نے حوصلہ کرکے پوچھ ہی لیا ''تمہارا گناہ کیا تھا؟‘‘ سر کے چہرے پر کرب کے آثار پھیل گئے۔''کیا تو ثواب سمجھ کے تھا لیکن کیا پتا تھا کہ دوزخ کا ٹکٹ کٹوا رہا ہوں‘‘۔ میں نے کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں کہا ''سادہ الفاظ میں بتائو ناں‘‘۔ اور پھر کٹے ہوئے سر نے مجھے بتایا کہ اسے یقین دلایا گیا تھا کہ اگر وہ جسم پر بارود سے بھری جیکٹ پہن کر بھرے بازار میں خود کو اڑا لے گا تو خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے جنت کی حوریں اسے اپنی بانہوں میں لے لیں گی۔اسے بتایا گیا تھا کہ صرف وہی مسلمان ہے، باقی سب کافر ہیں۔ اِس کٹے ہوئے سر نے ایسا ہی کیا لیکن عجیب بات ہوئی۔۔۔۔ جن کو اس نے اڑایا تھا وہ سب جنت میں چلے گئے اور یہ دوزخ کا مکین بن گیا۔ اب اسے سزا ملی ہوئی تھی کہ دن میں ہزاروں بار اس کا جسم پھٹتا تھا‘ جڑتا تھا اور پھر پھٹ جاتا تھا۔ تکلیف ہوتی تھی لیکن موت نہیں آتی تھی۔
مجھے دوزخ میں کئی ایسے لوگ ملے جنہیں زمین پر رہتے ہوئے میں پکا جنتی سمجھتا رہا۔ ان میں وہ عام لوگ بھی تھے جن کی قبروں پر ہم نے جلی حروف میں شہید لکھوایا ہوا ہے۔ وہ بھی تھے جن کی قبروں کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ وہاں سے خوشبو آتی ہے۔ وہ بھی دیکھے جو ساری زندگی بظاہر اچھائیاں کرتے رہے۔ وہ بھی نظر آئے جن کی زبانیں ورد کرتی تھیں اور قلم گندگی اگلتے تھے۔ ایک جگہ کافی سارے لڑکوں کو میں نے زنانہ لباس پہنے آگ کے کنوئوں میں رقص کرتے دیکھا۔ پتا چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فیس بک پر لڑکیوں کے نام کے اکائونٹ بنا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے تو مجھے پہچان کر آواز بھی لگا دی ''نوخیز بھائی…معاف کریں، میںآپ کی وہی فیس بک فرینڈ شکیلہ ہوں جس کو آپ نے کئی بار کرینہ کپور سے تشبیہ دی تھی‘‘۔ اتنے ہولناک انکشاف پر میری رگیں تن گئیں ‘ میں نے وٹہ اٹھا کر زور سے اس کو دے مارا۔ ایک طرف کچھ عجیب قسم کی عورتیں نظرآئیں جن کے ہاتھ پائوں مڑے ہوئے تھے اور آنکھیں عجیب سے انداز میں پھیلی ہوئی تھیں۔ پہلے تو میں سمجھا کہ یہ پولیو کی مریض خواتین ہیں ‘ پھر پتا چلا کہ یہ وہ ہیں جو ایک دن میں سولہ درجن سلفیاں بنایا کرتی تھیں اور اسی پوز میں ان کی موت ہوگئی۔ ابھی میں کچھ اور بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ ایک مضبوط ہاتھ نے مجھے پکڑکر ہوا میں معلق کر دیا۔ آواز آئی:''چلو! اب تمہاری سزا بھی شروع ہوا چاہتی ہے‘‘ اور میرے پیٹ میں ایک تپتی ہوئی سلاخ گھسیڑ دی ۔ میرے حلق سے ایک کربناک چیخ نکلی اور ساتھ ہی کسی نے مجھے جھنجوڑا ''کیوں صبح صبح چیخ رہے ہو، اُٹھواور دیکھو، بجلی کا بل کتنازیادہ آگیا ہے۔۔۔۔‘‘۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔گھبرا کر اپنا جائزہ لیا اور سامنے دیکھا۔ بیگم کے ہاتھ میں بجلی کابل تھا۔۔۔۔ اور تب مجھ پر کھلا کہ میں واقعی دوزخ میں ہوں۔۔۔۔!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔