“ضرورت ایجاد کی ماں ہے”۔ یہ محاورہ مقبول تو ہے لیکن درست نہیں۔ اس سے تاثر یہ ابھرتا ہے جیسا کہ ضرورت پہلے آتی ہے اور اس کو پورا کرنے کے لئے ایجاد کی جاتی ہے۔ اگرچہ تاریخ میں ایسا ہوا تو ہے لیکن ایسی ایجادات کم رہی ہیں۔
ضرورت کے تحت ایجاد کرنے کی ایک مشہور مثال ایٹم بم ہے۔ اس کو ایجاد کرنے کے لئے 1942 میں آج کے وقت کے حساب سے بیس ارب ڈالر خرچ کر کے ایک تباہ کن ہتھیار کی ضرورت پورا کرنے کے لئے یہ ایجاد کی گئی۔ تاریخ میں اس طرح کی ایک اور مثال کاٹن جن ہے جس کو کپاس کی صفائی کے لئے افرادی قوت پر انحصار ختم کرنے کے لئے ایجاد کیا گیا یا پھر جیمز واٹ نے بھاپ کا انجن برطانیہ میں کوئلے کی کانوں میں پانی پمپ کرنے کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایجاد کیا۔
زیادہ تر ایجادات کی وجہ تجسس اور چیزوں سے کھیلنے کا شوق رہا ہے۔ اور ایسا کرنے والوں کو اس ایجاد کی ڈیمانڈ کا علم نہہں ہوتا۔ ایک بار کچھ ایجاد ہو جائے تو پھر اس کا استعمال ڈھونڈا جاتا ہے اور پھر اس کی صارفین کو اس کو “ضرورت” سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ جدید دنیا میں ہونے والی اکثر ایجادات بھی ایسے رہی ہیں۔ ہوائی جہاز، گاڑی، ٹرانسسٹر، فونوگراف وغیرہ میں ایجاد ضرورت کی ماں تھی۔
جب تھامس ایڈیسن نے فونوگراف ایجاد کیا جس سے پہلی مرتبہ آواز ریکارڈ کی جا سکتی تھی تو انہوں نے ایک آرٹیکل پبلش کیا جس میں اس کے دس فوائد بتائے۔ مرنے والے کی آخری خواہش ریکارڈ کرنا، نابینا افراد کے لئے کتابیں ریکارڈ کرنا، وقت کا اعلان کرنا، سپیلنگ سکھانا وغیرہ تو تھے لیکن اس کا ہونے والے بڑا استعمال یعنی موسیقی ان دس میں نہیں تھا۔ کچھ سال بعد انہوں نے اپنے ایک اسسٹنٹ سے اعتراف کیا کہ اس ایجاد کی کوئی کمرشل ویلیو نہیں ہے۔ کچھ سال بعد پھر ان کا ذہن بدلا اور اس کو مارکیٹ کرنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ آفس میں ڈکٹیشن کے لئے۔ جب اس سے جیوک بوکس بنائے گئے جس میں سکہ ڈالنے کے بعد ایک گانا بجتا تو ایڈیسن نے اس استعمال پر اعتراض کیا۔ ان کے نزدیک ایسا کرنا ایک سنجیدہ ایجاد کو کھلونا بنا دینا تھا۔ بیس سال کے بعد ایڈیسن نے ججھکتے ہوئے تسلیم کیا کہ فونوگراف کا بڑا استعمال موسیقی ریکارڈ کر کے اس کو دوبارہ بجانا ہے۔
جب موٹر گاڑی ایجاد ہوئی تو اس کا استعمال آج تو ایسے لگتا ہے کہ ہونا ہی تھا لیکن اس وقت یہ اس طرح واضح نہیں تھا۔ اس کو کسی ضرورت پوری کرنے کے لئے ایجاد نہیں کیا گیا تھا۔ نکولاس اوٹو نے جب گیس کا انجن بنایا تو اس وقت گھوڑے ٹرانسپورٹ کا کام چھ ہزار سال سے بخوبی سرانجام دے رہے تھے اور ان کا ساتھ دینے کے لئے بھاپ کے انجن پر چلنے والی ریل گاڑیاں کئی دہائیوں سے کام کر رہی تھیں۔ کسی کو اوٹو کے انجن کی “ضرورت” نہیں تھی۔ یہ انجن نہ صرف بھاری اور کمزور تھا بلکہ سات فٹ اونچا بھی۔ یہ گھوڑوں کی جگہ بھلا کیسے لے سکتا تھا۔ 1885 میں جا کر یہ اس قابل ہوا کہ ڈائمر نے اس کو سائیکل کے ساتھ لگا کر پہلی موٹر سائکل بنائی اور اس سے ایک سال بعد اگلا ٹرک۔
موٹر کار 1905 تک بھی بہت مہنگی تھی۔ صرف امیروں کا کھلونا۔ پہلی جنگِ عظیم تک عوام گھوڑوں اور ٹرینوں سے مطمئن تھے۔ اس جنگ میں ملٹری نے پہلی بار ٹرک کی اہمیت کا اندازہ لگایا۔ ٹرک بنانے والوں اور افواج کے اشتراک سے گھوڑوں کی جگہ یہ ٹرک لینا شروع ہوئے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں میں بھی اس ایجاد کو ٹرانسپورٹ کا طریقہ بنتے پچاس برس لگے۔
صرف امریکہ میں ہر سال ستر ہزار ایجادات کے پیٹنٹ منظور ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے کمرشل استعمال مل جاتے ہیں، زیادہ تر کے نہیں۔
ایجادات کے مقبول نظریے کا ایک اور غلط پہلو یہ ہے کہ “فلاں نے فلاں چیز ایجاد کی”۔ یہ تصور بھی درست نہیں ہے۔ کوئی ہیرو کہیں خلا میں ایجاد نہیں کرتا۔ “جیمز واٹ نے 1769 میں سٹیم انجن ایجاد کیا جب انہوں نے کیتلی سے بھاپ نکلتے دیکھی”۔ ایسی کہانیاں پڑھنے میں لطف ضرور دیتی ہیں، ایسا ہوتا نہیں۔ جیمز واٹ کو نیوکومن کے سٹیم انجن کی مرمت کے دورا اس کو بہتر کرنے کا خیال آیا تھا جو نیوکومن نے 57 برس پہلے ایجاد کیا تھا۔ نیوکومن نے اس کو تھامس سیوری کے پیٹنٹ سے لیا تھا جو 1698 میں ہوا تھا۔ انہوں نے ڈئنس پاپن کے خیال سے یہ آئیڈیا لیا تھا جو انہوں نے 1680 میں پیش کیا لیکن بنایا نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جیمز واٹ کا اس میں کوئی کمال نہیں تھا لیکن ان کو اپنی ایجاد کے لئے خیالات کی گہری بنیاد ملی تھی۔
ایڈیسن کی بلب کی مشہور ایجاد جو انہوں نے 21 اکتوبر 1879 میں کی یہ کئی اور موجدوں کے ڈیزائن پر امپروومنٹ تھی جن کے پیٹنٹ 1841 سے 1878 کے درمیان ہوئے۔ رائٹ برادرز نے جو ہوائی جہاز بنایا، اس میں آٹو لیتھل کے گلائیڈر اور سیموئیل لانگلے کے اڑنے والے جہاز سے آئیڈیا لیا گیا تھا۔ مورس کے ٹیلی گراف سے پہلے جوزف ہنری، ولیم کک اور چارلس وہیٹ سٹون تھے۔ ایلی وہٹنی کی روئی پیلنے کی مشین ہزاروں سال سے کپاس کو پیلنے والے مختلف آلات سے سبق لے کر بنی تھی۔
جیمز واٹ، ایڈیسن، رائٹ برادرز، مورس، وہنٹی جیسے موجدین نے پچھلے خیالات کو بہت آگے بڑھایا اور ان کی اپنی ایجادات کے استعمال بھی وہ نہیں تھے جو انہوں نے سوچے تھے۔ جیمز واٹ تو بس کوئلے کی کانوں سے پانی نکالنا آسان کرنا چاہتے تھے۔ انہیں یہ بناتے وقت ادراک نہیں ہو گا کہ ان کی یہ ایجاد ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہو گی۔
ایک بار کوئی موجد کسی ایجاد کا استعمال ڈھونڈ لے تو اس کا اگلا چیلنج یہ کہ سوسائٹی اس کو قبول کر لے۔ صرف بہتر، اچھی ، طاقتور چیز کا بن جانا ہی ضروری نہیں۔ کئی بار اس میں بڑی مزاحمت آتی ہے۔ اس کی مثال برطانیہ میں برقی روشنی کا منع کئے جانا ہے۔ امریکی کانگریس نے سپرسانک ٹرانسپورٹ پر 1971 میں پابندی لگائی۔ ہم اس وقت جو کی بورڈ استعمال کر رہے ہیں، یہ ایک ایسا ڈیزائن ہے جس کا مقصد ٹائپنگ کی رفتار کم کرنا تھا لیکن عادت ہو جانے کی وجہ سے اب اس کو بدلنا ممکن نہیں لگتا۔
ایجادات افراد نہیں، معاشرہ کرتا ہے۔
ایجادات کہاں پر ہوتی ہیں؟ اس کے بڑے فیکٹر کیا ہیں؟ سائنس کے مورخین ان کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔
متوقع زندگی۔ اگر مجھے علم ہے کہ میں لمبی زندگی گزار سکتا ہوں تو ایسی چیزوں پر کام کروں گا جس کا فائدہ بے شک کئی سالوں کے بعد بھی ہو۔
اگر کہیں سستے مزدور یا پھر غلام دستیاب ہوں تو ایسی جگہوں پر ایجادات کرنے کا فائدہ نہیں۔ افرادی قوت کی کمی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر حل تلاش کرنے میں مدد کرتی ہے۔
ملکیتی حقوق کا تحفظ۔ اگر یہ تحفظ میسر نہیں تو ایجاد پر کام کرنا بے کار ہے۔
خطرات مول لینے کی حوصلہ افزائی۔ ایسا کلچر جس میں نیا کرنے اور رِسک لینے کو روکنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
رواداری۔ نئے خیالات کسی سے اور کہیں سے بھی آ سکتے ہیں۔ روایتی سوچ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ قرونِ وسطیٰ کا اندلس ہو یا آج کا امریکہ، یہ جدت میں اس لئے آگے رہے ہیں کہ دنیا بھر سے آنے والے نت نئے خیالات یہاں پر اکٹھے ہوتے رہے ہیں۔
دوسرے معاشروں سے آزادانہ تجارت اور تعلقات۔ کٹے ہوئے معاشرے پسماندہ رہ جاتے ہیں کیونکہ دوسروں سے سیکھ نہیں پاتے۔ دنیا میں دریافت ہونے والی سب سے پسماندہ تہذیب تسمانیہ کی تھی اور ان کی پسماندگی کی وجہ دس ہزار برس کی تنہائی تھی۔
طرزِ کہن پر اڑنے کا کلچر۔ وہ حل جو ماضی میں کام کرتے رہے تھے، ان پر اڑ جانے پر اصرار۔ اس کی ایک مثال جاپانیوں کی بندوق کی ایجاد کو مسترد کر دینا ہے۔ ڈیڑھ سو برس تک اس کو نہ اپنانے کی وجہ ان کا اپنا سمورائی کلچر تھا۔ یا پھر چین کا سمندری سفر، گھڑیاں اور پانی سے چلنے والا پہیہ ترک کر دینا، اس وقت جب وہ دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی میں سب سے آگے تھا۔
پتھر کے اوزار سے سمارٹ فون یا لیزر پرنٹر کی ایجادات تک، ہر ایجاد کہاں پر ہوئی، کس نے کی، اس کے اپنانے تک کیسے پہنچا گیا اور اس سے زیادہ اہم ۔۔۔۔ یہ ایجادات کہاں پر نہیں ہوئیں ۔۔۔۔ ہر ایک کے پیچھے لمبی کہانی ہے۔ کچھ بھی بس ایسے ہی نہیں ہوتا۔