جب ہم نے عفت نوید صاحبہ کے دیپ جلتے دیکھے تو ذہن میں یہی تھا کہ حالات موافق ہی رہے ہوں گے تبھی ان کی زندگی میں امیدوں کے دیپ اپنی پوری تابانی کے ساتھ روشن ہیں ۔ مگر جب ان کی زندگی کی داستان پڑھی تو اندازہ ہوا کہ ان امید کے دیوؤں کو انھوں نے اپنی ہتھیلی کی اوٹ دیکر بجھنے سے بچایا ہے ۔ غیر ممکن ہے کہ اب ان ہتھیلیوں کی پشت پر ان آندھی طوفانوں کی مسلسل یلغار سے دراڑیں نہ پڑی ہوں اور ہتھیلیوں میں اس دئیے کے جھلساؤ کے نشانات معدوم ہو گئے ہوں۔
یہ کتاب آپ بیتی بھی ہے اور جو جو جگ ہر بیتی اس کی بھی داستان ورق در ورق پھیلی ہوئی ہے ۔ داستان شروع تو وہاں سے ہوتی ہے جہاں عفت اپنی عملی زندگی میں اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کا فیصلہ خود کرتی ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ کچھ نفسیاتی اور ذہنی پیچیدگیاں ان کے ہونے والے ساتھی میں ہیں وہ نہ صرف انھیں اپنانے کا فیصلہ کرتی ہیں بلکہ انھی پیچیدگیوں کی وجہ سے زندگی میں بار بار آنے والی مشکلات کا مقابلہ کبھی خندہ پیشانی تو کبھی شکستگی کے احساس کے ساتھ کرتی چلی جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک بار ایسا موقع آ بھی جاتا ہے جب وہ اپنی بیماری کے ہاتھوں مجبور میاں سے زد و کوب ہونے کے بعد ان سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کا فیصلہ کر لیتی ہیں ۔ لیکن میر نوید احمد صاحب کے تشدد سے تائب ہونے کی شرط پر ایک بار پھر ازدواجی زندگی کا یہ جوا دوبارہ کھیلنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں ۔ میر نوید احمد صاحب عمدہ شاعر اہل بیت ہونے کے باوجود لفظوں اور جذبوں کی تجارت نہ کر سکے ۔ اور دنیاداری کے گر نہ آنے کے سبب شاعروں میں اپنا جائز مقام حاصل نہ کر پائے ۔ان کے ذہنی یکسوئی کی عدم موجودگی میں معاشی آسودگی مہیا نہ کر پا سکنے پر عفت نے خود نوکریاں اور گھر محلے شہر بدلتے انھوں نے نہ صرف اپنے خون یا کاغذ کے رشتوں کا تلخ ذائقہ چکھا۔ بلکہ سماج کے چہرے پر سے بھی کئی نقاب الٹتے دیکھے ۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں زمانے کی منافقت کو آشکار کیا اسی دلیری اور سچائی کے ساتھ اپنی سوچ میں در آنے والے منفی خیالات کا بھی کھل کر اظہار کیا ۔ عموماً آپ بیتی لکھنے والے اپنی کسی خامی یا کوتاہی سے صرف نظر کرتے ہیں ۔ مگر عفت نے اپنے شریک حیات سے لیکر زمانے اور خود اپنی ذات کو بھی کوئی رعایت نہ دی ۔ ایک مختلف مسلک گھرانے میں شادی کرکے اپنے مسلک کے ساتھ ساتھ سسرالی مسلک کو بھی نہ صرف پوری طرح اپنایا بلکہ قرینے سے نبھایا بھی۔ انھیں کئی بار کرائے کا گھر اہل تشیع ہونے پر چھوڑنا پڑا اور کئی بار اہل تشیع نہ ہونے کے شبے میں دربدری سہنا پڑی ۔ مگر عزم اور استقلال میں کہیں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اور آج وہ اپنے بچوں کو ان کی منزل مراد پر پہنچا کر خود اپنے شریک حیات کے ساتھ آسودہ وقت گزار رہی ہیں
داستان اتنی عمدگی سے لکھی گئی ہے کہ آپ بیتی ہوتے ہوئے ناول کا مزا دے گئی ۔ جملوں کی بنت اور زندگی کی کہانی کی قلم میں ایسی روانی کم کم دیکھنے میں آتی ہے ۔ کتاب میں اتنی چیزیں قابل ذکر ہیں کہ ہم اگر انھیں یہاں اختصار سے بیان کرنے کی کوشش بھی کریں تو ڈر ہے کہ پوری کتاب لکھنا پڑ جائے گی ۔ اور پھر وہی بات کہ ساری باتیں یہاں لکھ دی جائیں تو پڑھتے ہوئے اپنا تجسس اور لطف دونوں کھو دیں گی ۔
سب سے اہم بات یہ کہ اس آپ بیتی میں ہم غیر محسوس طور پر خود ایک کردار بن گئے تھے جو عفت کے ساتھ ساتھ دربدری اور لوگوں کے غیر متوقع تکلیف دہ رویوں کو سہتا ہے ۔ جب یہ کتاب ختم ہو گئی تو ایسے لگا جیسے ہم خود اپنی دنیا سے بچھڑ گئے ہوں ۔ خود کو اسی داستان کے اندر کہیں بھول آئے ۔
زیادہ اس لیے نہیں لکھیں گے کہ آپ کے پڑھنے کا تجسس برقرار رہے ۔ ساری باتیں اگر کہہ دیں ساری باتیں اگر سن لیں تو باقی کیا رھ جائے گا ۔
حالات کے دھارے
ہر شخص کی نوجوانی میں ایک ایسا وقت یا ایسا لمحہ ضرور آتا ہے، جب نوجوان لڑکے، لڑکیوں میں جذباتیت...