دنیا اسی حساب سے بہتر بنائی جائے
پہلے پتہ کرو کہ اسے کیا پسند ہے
۔۔۔۔۔
دِگرگوں سب سفینوں اور جزیروں کا مقدر لگ رہا تھا
وہ اتنی خوبصورت تھی کہ اُس کو دیکھ کر ڈر لگ رہا تھا
۔۔۔۔۔
کہہ دیتا ہوں ویسے مرا کہنا نہیں بنتا
اس دل کے علاوہ ترا رہنا نہیں بنتا
تم ہی کہو، ان آنکھوں کی، ان ہونٹوں کی خاطر
دنیا کی ہر ایک بات کو سہنا نہیں بنتا؟
۔۔۔۔۔
پھر ایک دن مجھے اپنی کتاب یاد آئی
تو وہ چراغ وہیں تھا، مگر بجھا ہوا تھا
۔۔۔۔۔
دل کہیں دہر کے دستور کی اک شق ہی نہ ہو
کہیں اندر سے یہ کافر بھی منافق ہی نہ ہو
دل کی دھڑکن بھی ہے تشویش کا باعث بابر
یہ دھماکے سے ذرا قبل کی ٹک ٹک ہی نہ ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک ایسے وقت میں سب پیڑ میں نے نقل کیے
جہاں مَیں پھر انہیں شاداب دیکھ سکتا تھا
کہانیوں نے مری عادتیں بگاڑ دی تھیں
میں صرف سچ کو ظفریاب دیکھ سکتا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اجڑ کے دل کبھی آباد ہو نہیں سکتا
کبھی یہ پھول کِھلا تو دوبارہ اس کا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو بھی ہو میں بھی ہوں اک جگہ پہ اور وقت بھی ہو
اتنی گنجائشیں رکھتی نہیں دنیا مرے دوست
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ لوگ سو رہے ہوں گے تبھی تو آج تلک
ظروف خاک سے خوابوں بھرے نکلتے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اتنی گُھپ چُپ کہ بولنے والا
اپنی آواز دیکھ سکتا تھا
وہی آنکھیں تھیں اور میں خود کو
نظر انداز دیکھ سکتا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اچانک الگ سمتوں کو جانے والی جو دو گاڑیاں چھوٹتی ہیں
یہ وہ سِین تھا جب مری انگلیوں سے تری انگلیاں چھوٹتی ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سو دنیا میں جینا بسنا، دل کو مرنے مت دینا
یار، کرایہ دار کو گھر پر قبضہ کرنے مت دینا
ایسی لہریں ایسی بحریں کب قسمت سے ملتی ہیں
اچھے مانجھی اب نیّا کو پار اُترنے مت دینا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ درخت اپنی جڑیں ساتھ لیے پھرتے ہیں
اسے مجبوری سمجھ لیجیے، ہجرت کیسی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسی تنہائی کہ دیوار پہ میں
چھپکلی دیکھ کے رونے لگا ہوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت
پھر بھی اے دوست، تری ایک نظر سے کم ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زمیں کے خواب آسماں پہ جا کھلے
ستارے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی
تو یوں ہوا، میں اس سے کچھ نہ کہہ سکا
اور اس طرح شروع شاعری ہوئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ جس کے گال چھویں تو ستارہ بنتا تھا
ہمارا تھا تو نہیں پر ہمارا بنتا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مجھ سے اپنا حصہ لے چکا ہے
اور اب میں صرف اپنا رہ گیا ہوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پہاڑوں کے جگر چھلنی پڑے ہیں
انہیں اندر سے دریا کاٹتا ہے
یہ دنیا ٹوٹتی بنتی رہے گی
وہ میری کال اٹھاتا کاٹتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کانپنے لگتا ہے کاغذ بھی، قلم بھی، دل بھی
اپنے سوچے ہوئے کردار سے خوف آتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کچھ آثار ہیں اس خواب شدہ بستی کے
یہیں بہتا تھا وہ دل نام کا دریا، صاحب!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حرف کی لو میں ادھر اور بڑھا دیتا ہوں
آپ بتلائیں تو یہ خواب جدھر سے کم ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ڈائیلاگ اتنے پک چکے ہیں کہ ردی والے بھی تھک چکے ہیں
یہ بیسٹ سیلر .. تری کہانی .. مری کہانی نہیں تو کیا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ٹوٹ جاتا ہے جو پیمانہ عطا کرتے ہو
دلبری کرتے تھے کیا ساقی گری سے پہلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب میز پہ کمی بھی اسی چیز کی تو تھی
میں پھول کاڑھتا رہا سگریٹ کی راکھ سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ابھی جزیرے پر ہم تم نئے نئے تو ہیں دوست
ڈرو نہیں، مجھے سب کچھ بنانا آتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جیتی رہو کہانیو، ملتے ہیں یار ایک دن
ایک ہزار ایک رات، ایک ہزار ایک دن
آنکھ بچا کے لے گیا، ہاتھ بڑھا کے لے گیا
رات کے پار ایک خواب، خواب کے پار ایک دن
وہ جسے ڈھونڈتی پھری تم نے چُھپائی ڈائری
یاد ہے یار ایک بار، یاد ہے یار ایک دن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھوپ دالان میں در آتی ہُوئی
خالی پنجروں سے الجھنے کے لیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی تصویر لے نہیں سکتا
ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک بادل کرائے پر لے لیں
اور سارے مری کی سیر کریں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پیش گوئی کرنے والے کو رہا
حادثے کے واقعی ہونے کا غم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بساط پر گنوا دیا گیا نہ ہو
مجھے غلط بڑھا دیا گیا نہ ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مجھے دیکھ کر خموش رہا
اور اک شور مچ گیا مجھ میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل ستارہ تو نہیں تھا کہ اچانک بجھ جائے
ابر جتنا بھی مری راکھ پہ برسے کم ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں ہے اتفاق سے دشت بھی گھر کے ساتھ ساتھ
چاہے قیام بھی کریں آپ سفر کے ساتھ ساتھ
آج تو جیسے دن کے ساتھ دل بھی غروب ہوگیا
شام کی چائے بھی گئی، موت کے ڈر کے ساتھ ساتھ
اس کو غزل ہی جان کے سرسری دیکھ لیجیے
ورنہ یہ حالِ دل تو ہے، عرضِ ہنر کے ساتھ ساتھ
درد کا دل کا شام کا بزم کا مے کا جام کا
رنگ بدل بدل گیا ایک نظر کے ساتھ ساتھ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس طرح میں بچھڑنا چاہتا ہوں
وہ ابھی اس طرح ملا ہی نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان کا رستہ دیکھ رہے ہیں بستے بیچنے والے
یہ جو پھول ہیں سڑکوں پر گلدستے بیچنے والے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ وقت بھی گزر نہیں رہا ہے اور
میں خود اسے گزار بھی نہیں رہا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سمجھتی ہے کہ میں اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں
میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی ٹھیک تھی اپنی جگہ
یار تیرے مارے جانے پر بہت افسوس ہے
اور اپنے بچ نکلنے کی خوشی اپنی جگہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں سے مٹی میں کتنی گہرائی تک گئی ہیں جڑیں ہوا کی
یہ کوہ پیمائی خود سمندر سے چھیڑ خانی نہیں تو کیا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہی ذرا سا تعلق ہمارا اس کا ہے
ہمارا ہے نہ اکیلے گزارا اس کا ہے
ایک اسٹیج ایسی کردار پہ آ جاتی ہے
کچھ نہ کرنا بھی شاید ممکن نئیں ہوتا
۔۔۔۔۔
جب ہم اترے تو فلک پینٹ کیا جا چکا تھا
یار، دو چار ستاروں کی جگہ ہے کہ نہیں؟
۔۔۔۔۔
چلا بادل ندی تک، ندیا دریا تک اٹھا لائی
کہاں تک ساتھ دیتا ہے سمندر، دیکھ لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
وہ مسکراتا رہا، پیڑ سر ہلاتا رہا
یہ جان کر بھی کہ کوئی ٹھہرنے والا نہیں
دھول میں پھول مسکرا رہے ہیں
ان کی سازش پہ شعر لکھ دیا جائے
۔۔۔۔۔۔
کوئی سروش سی ندی، کوئی خموش پہاڑ
میں رہ پڑوں گا، جہاں کوئی ہمزباں ہو گا
۔۔۔۔۔۔
مسکرا کر کسی کی رہ روکوں
اور چیخوں کہ میں اکیلا ہوں
۔۔۔۔۔۔
اشک دہلیز پر تھمے رہیں گے
اس کے یکلخت مسکرانے تک
۔۔۔۔۔
بات افسانہ، رات ناول ہے
قصۂ مختصر، پتہ نہیں کیا
۔۔۔۔۔۔
ہوا کی بات چلی ہے، ہوا چلے نہ چلے
یہی بہت ہے، پرندے اگر سمجھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
دریا وہ کہاں رہا ہے، جو تھا
اس شہر میں اک ہی قصہ گو تھا
ثابت نہیں کرسکو گے تم لوگ
کیا میرا وجود تھا؟ چلو، تھا
۔۔۔۔۔۔
ستارے ٹوٹتے دیکھوں تو جی بہل جائے
کہ بس مجھے ہی نہیں رائگاں بنایا گیا
۔۔۔۔۔۔
چاند اپنے مدار میں خوش باش
ہم بھی کمرے میں گھوم لیتے ہیں
اب ان آنکھوں کو کون سمجھائے
لوگ تصویر چوم لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
سوچیے کیا کوئی کر سکتا ہے
وہ بھی جب سوچنے کاوقت نہ ہو
۔۔۔۔۔۔
میرے ساتھ کہاں تک چل سکتا ہے کوئی
اک حد تک تو یہ تنہائی جا سکتی ہے
۔۔۔۔۔۔
یہ ناؤ ڈوبنے کو ہے اور اس پر مشتعل لوگ
سنہرے ساحلوں کے گیت گائے جارہے ہیں