الفاظ و معانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشیأ کو نام دینا انسان کی وہ صلاحیت ہے جو اُسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہرلفظ اپنی کُنہ میں نام ہوتا ہے یعنی اسم۔ فعل اور حرف بھی اپنی کُنہ میں اسمأ ہی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر فعل اَمر۔۔۔۔۔۔’’دوڑو!‘‘ ۔۔۔۔ نام ہے ایک عمل کا جو مخصوص زمانے اور مکان کی تعیین کے ساتھ ہوتا ہے۔ نام دینے کا عمل مشترکہ انسانی سرگرمی ہے جو فرداً فرداً واقع یا سرزد ہوتی رہتی ہے اور اسمأ و افعال بنتے رہتے ہیں۔الفاظ تخلیق ہوتے ہیں تو پہلے بچے ہوتے ہیں۔ پھر جوان ہوتے ہیں۔ اپنے بچے پیدا کرتے ہیں۔ اپنی فیملیز بناتے ہیں۔ پھر بوڑھے ہرکر مرجاتے ہیں۔ کسی لفظ کی تخلیق، پرورش ، جوانی اور کالعدم ہونے تک کا سفر صدیوں پر محیط ہوتاہے۔اپنی عمر کے تمام تر عرصہ میں وہ معانی کے مختلف لباس پہنتے ہیں۔ کبھی اچھے کبھی برے معانی وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ کی حیات پر بھی اثرات ڈالتے رہتے ہیں۔ کسی لفظ کا کوئی معانی کبھی مستقل قائم نہیں رہ سکتا۔
چنانچہ الفاظ کے اثرات ہوتے ہیں نہ کہ معانی کے۔ یہ اثرات مذکورہ متغیرات کے تابع رہتے ہیں۔ ایک لفظ ایک زمان و مکاں میں الگ اور دوسرے زمان و مکان میں الگ الگ تاثیر رکھتاہے۔اسمائے نکرہ بہت دھیمی رفتار سے اپنے معانی بدلتے ہیں۔اس قدر دھیمی رفتار سے کہ عام آدمی کے لیے اُن تبدیلیوں کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا۔
معانی کا جہان بالکل الگ ہے۔ معانی کا تعلق چونکہ کیفیات کے ساتھ ہوتاہے اس لیے معانی فرد کے باطن سے عارضی طور پر اُبھرتے ہیں۔ وہ اپنے معانی کے لیے کون سے الفاظ کا چناؤ کرتاہے اس بات کا تعلق اُس کی مہارتِ زبان، اکتساب، ذہانت، تجربات اور دیگر بہت سی باتوں کے ساتھ ہے۔ مناسب ترین الفاظ کا چناؤ کرنے والا شخص اپنے باطن میں موجود معانی کے قریب ترین مفہوم پہنچانے میں کسی حد تک کامیاب ہوتاہے۔ عامۃ الناس اپنی کیفیات کا اظہار جن الفاظ کےساتھ کرتے ہیں وہ ناکافی اور اُن کے اپنے حقیقی معانی سے دور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بولے یا لکھے گئے الفاظ کو سننے یا پڑھنے والے اُن کے معانی کو سمجھنے کے لیے اپنی ذاتی مہاتِ زبان، تجربات، اکتساب اور ذہانت کو کام میں لاکر ٹھیک ٹھیک معانی اخذ کرنے کی کسی حد تک کامیاب کوشش کرتاہے۔ بعض زمانی و مکانی معاملات میں سمجھنے والے اپنے ذاتی جذبات کو داخل کرکے معانی کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں ۔ تب بولے یا لکھے گئے الفاظ بدگمان یا خوش گمان سننے یا پڑھنے والے کی ذاتی جذباتی کیفیات کا شکار ہوکر اپنے مفاہیم اور مطالب کھو بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ قریب ترین معانی حاصل کرنے کے لیے بولنے اور سننے والے دونوں کا باطنی مفہوم قریب ترین ہونا ضروری ہوتاہے۔ غرض معانی الفاظ کے صوتی تاثیر میں کہیں اِس طرح موجود ہے کہ سننے یا پڑھنے والے پر اُس کے اپنے موضوعی تجربے کی بساط کے مطابق نشر ہوتاہے اور یوں یہ موضوعی و معروضی کا امتزاج ہے جو ہمیشہ اضافی رہیگا۔ نوم چومسکی کے بقول ایک یونیورسل گرامر بھی ہے لیکن وہ بہت ہی سادہ آوازوں کا مجموعہ ہے۔ جس سطح کی تجریدیت زیادہ گہری زبانوں میں کے الفاظ میں در آئی ہے اُس کے لیے یہی مناسب معلوم ہوتاہے کہ صوتی ٹکڑے کی تاثیر جو کسی چارجڈ بیٹری سیل کی طرح ایک ایک صوتیے میں بے پناہ توانائی لیے ہوتی ہے سننے یا پڑھنے والے کے موضوعی تجربات کے ساتھ مل کر وقتی طور پر ایک معنی کا اجرأ کرتی ہے۔
(مزید تفصیل میرے مضامین’’معنی کہاں واقع ہے‘‘ یا ’’الفاظ کی تاثیر‘‘ملاحظہ کی جاسکتی ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“