ادلب، شام کا فیصلہ کن میدانِ جنگ
عرب بہار نے سیاسی استحکام کی بجائے مشرقِ وسطیٰ میں نہ صرف سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے بلکہ عالمی اور علاقائی طاقتوں کو میدانِ جنگ میں کودنے کے کھلے مواقع فراہم کردئیے ہیں۔ عالمی دہشت گرد تنظیم القائدہ جس کو کچلنے کے بہانے امریکی سامراج نے افغانستان پر یلغار کرکے ایک بار پھر (1979ء کے بعد) اسے میدانِ جنگ میں بدل دیا، وہی القائدہ شام اور لیبیا میں اسی امریکہ کی اتحادی بلکہ مشرقِ وسطیٰ کو جنگوں کا میدان بنانے کے لیے ہراول دستے کے طور پر پیش پیش ہے۔ جنگ، سامراج، دہشت گردی اور اِن دہشت گرد تنظیموں کا گورکھ دھندا جو لوگ اَب بھی نہ سمجھ پائیں، اُن کے لیے عقل وشعور کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ عراقی ریاست کی چولیں ہلا دینے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی لیبیا جیسی خوش حال اور قرضوں سے پاک ریاست کو کھنڈر بنا دینے سے کیا اسلام ، اسلامی نظام اور مسلمانوں کا فائدہ ہوا، جو اَب شام کی ریاست کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوششوں سے ہورہا ہے۔ کیا اس سے شام میں بسنے والے مسلمانوں کو اس جہان میں جہنم نصیب کرنے کے انتظامات نہیں؟ شام بھی لیبیا کی طرح قرضوں سے پاک معیشت تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شام، عراق اور لیبیا کی طرح تیل کی معیشت رکھنے والی ریاست نہیں تھی۔ شام کو امریکی سامراج نے جس طرح میدانِ جنگ بنایا، افسوس افغانستان کے بعد ہلاکو اور چنگیز خان کے سے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
شام میں مسلمانوں کو جنگ زدہ اور اُن پر برپا مظالم دیکھ کر میرے جیسے نرم دل شخص کے رونگٹے ہی نہیں کھڑے ہوجاتے بلکہ ان برپا مظالم نے میرے اندر کئی نفسیاتی تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور کچھ فکری تصورات نے حیرت انگیز تغیر لیا ہے۔ جب عرب بہار برپا تھی، اُن دنوں انہی صفحات پر 24جولائی 2012ء کو میرا ایک کالم بہ عنوان ’’شام تقسیم کے دہانے پر‘‘شائع ہوا، جس میں موجودہ شام کی خون سے رنگی تصویر پیش کی گئی تھی۔ میں نے شام کا ایک مختصر سفر کررکھا ہے، مطالعے کے علاوہ مشاہدے سے میں نے اس سیکیورٹی سٹیٹ کے جبر کو دیکھ رکھا ہے۔ میری شریک حیات ریما گوئندی جن کا تعلق لبنان سے ہے اور اُن کے خاندان کا تعلق شام کی سنّی اتاسی فیملی سے ہے جو حافظ الاسد سے پہلے وہاں حکمرانی کرتے رہے ہیں اور اس حوالے سے اتاسی فیملی اسد حکومت کے خلاف سیاسی مزاحمت ومخاصمت کی اپنی تاریخ رکھتی ہے۔ اسی لحاظ سے ریما گوئندی کی ہمیشہ ہمدردیا ں دمشق حکومت کے خلاف رہی ہیں۔ بشار الاسد ایک آمر حکمران ہیں، لیکن امریکی سامراج کی شام میں مداخلت اور شام کو مشرقِ وسطیٰ کا میدانِ جنگ بنانے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے عام لوگ، آمرانہ حکمرانی اور دہشت گردوں کے مابین، آمرانہ حکمرانی کو ماننے پر مجبور ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے لوگ القائدہ اور داعش جیسی پُراسرار دہشت گرد تنظیموں کو اپنے اوپر حکمرانی کی بجائے صدام حسین، قذافی اور بشارالاسد جیسی ڈکٹیٹرشپ کو قبول کرنے میں غنیمت محسوس کرتے ہیں۔
شام میں امریکی سامراج نے دہشت گردی کے ذریعے جس نام نہاد مزاحمت کی سرپرستی کی ہے، اس نے شام کے میدانِ جنگ میں علاقائی اور دیگر عالمی طاقتوں کو مداخلت کے مواقع دئیے ہیں جن میں روس، ایران اور ترکی شامل ہیں۔ ترکی، ناٹو کا رکن اور امریکہ کا اتحادی ہونے کے ناتے شام کے مسئلے پر امریکہ کا اوّلین حمایتی تھا۔ لیکن 2016ء سے شام کے مسئلے پر ترکی، امریکہ کے موقف سے نامتفق اور باہم فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ترکی براہِ راست شام کے اندر فوجی مداخلت کرتے ہوئے اپنے قومی اور علاقائی مفادات کی نگہبانی کررہا ہے۔ لیکن سب سے اہم روس کا شام کے تنازعے میں سفارتی ہی نہیں فوجی سطح پر مکمل مداخلت کرنا ہے۔ روس، سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی سرحدوں سے دور کسی تنازع میں شامل ہوا ہے۔ روس کی اس تنازع میں شمولیت نے جہاں شام کے اندر برپا دہشت گرد تنظیموں کو شکست سے دوچار کیا ہے، وہیں یکایک اور حیرانگی کی حد تک روس ترکی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ اور یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شام کے تنازع میں روس، جوکہ ترکی کا روایتی دشمن ملک قرار دیا جاتا ہے، اب ایک اتحادی کے طور پر جانا جا رہا ہے۔ 7ستمبر کو تہران میں روسی صدر پوتن، ترک صدر اردوآن اور ایرانی صدر روحانی کی ملاقات شام کے معاملے پر ایک اہم ملاقات قرار دی جا رہی ہے۔ شام میں امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والی دہشت گرد تنظیمیں جو جہاد کی دعوے دار ہیں، تقریباً شکست سے دوچار ہو چکی ہیں۔ چند سال قبل لگتا تھاکہ شام مکمل طور پر اِن دہشت گرد تنظیموں کے زیر ہو جائے گا، مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ اس میں اہم ترین کردار روس اور ایران کا ہے اور پچھلے دو سالوں سے ترکی بھی شام میں موجود اِن دہشت گرد تنظیموں کے خلاف روس اور ایران کے موقف اور حکمت عملی کے قریب قریب ہے۔ 7ستمبر کو تہران میں روس، ترکی اور ایران کے سربراہانِ حکومت کی ملاقات شام میں آخری جنگی معرکے کے حوالے سے اہم قرار دی جا رہی ہے۔
ادلب، شام کا آخری میدانِ جنگ ہے جہاں تقریباً پچیس لاکھ معصوم شہری تیس ہزار دہشت گردوں کے رحم وکرم پر رہ رہے ہیں۔ روس اور ایران، دمشق حکومت کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں کو کچلنے کا آغاز کرچکے ہیں۔ مگر جو سب سے بڑا خدشہ اس حملے کے سبب ابھرا ہے، وہ اِن دہشت گردوں کے ہاتھوں، گیس ہتھیاروں کا ستعمال ہے۔ ذرا امریکی سامراج کا تضاد دیکھیں۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے جب انہی دہشت گردوں نے گیس ہتھیار استعمال کیے تو امریکہ نے شعوری اور منافقانہ طور پر یہ اعلان کیا کہ دمشق حکومت گیس ہتھیار استعمال کررہی ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ حتیٰ کہ عالمی میڈیا بھی امریکہ کے اس جھوٹے بیان کو پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔اب ادلب میں بھی یہی خدشات ہیں کہ معصوم شہریوں کو Human Shields کے طو رپر استعمال کرنے والے یہ دہشت گرد، جن کا موجد اور سرپرست امریکی سامراج ہے، روس، ایران، ترکی اور دمشق حکومت کے حملے کے ردِعمل میں گیس ہتھیار استعمال کریں گے اور امریکہ اس کا الزام دمشق حکومت پر لگائے گا۔ امریکہ نے ترکی، ایران، روس اور دمشق حکومت کی طرف سے ان دہشت گردوں پر آخری وار کے اعلان پر کہا ہے کہ اگر ادلب پر حملہ ہوا تو امریکہ سخت جنگی ردِعمل دکھائے گا۔ ادلب کو اگر نقشے پر دیکھیں تو اس جنگ کی تصویر واضح ہوتی ہے۔ دمشق حکومت کے اتحادی اب روس ، ایران اور ترکی بھی ہیں۔ تین طرف دمشق حکومت اور ایک طرف ترکی کی سرحد لگتی ہے اور یوں ادلب چاروں طرف سے گھیرے میں ہے۔ اگلے چند روز میں ادلب، مشرقِ وسطیٰ کا بڑا میدانِ جنگ بننے جا رہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ دہشت گردوں کی جانب سے Human Shieldsبنائے جانے کے سبب بڑی تعداد میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں ہیں جس کے بارے میں دمشق حکومت، روس، ایران اور ترکی زیادہ سے زیادہ محتاط مگر فیصلہ کن جنگ ٹھان کر ان دہشت گردوں کو قلع قمع کرنے کی عزم کر چکے ہیں۔ امریکہ نے ایسے میں بڑے حملوں کی دھمکی دے دی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی بحیرۂ روم میں شام کے ساحل کنارے روسی نیوی کا ایک اڈا طرطوس میں قائم ہے۔ اسی روسی اڈے نے شام کی جنگ کی کایا پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو روس نے ترکی سے نکلنے والے واحد سمندری راستے باسفورس سے تین بڑے بحری بیڑوں کو طرطوس کی جانب روانہ کیا ہے جو کسی بڑے جنگی حملے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، جس میں ٹینک اور دیگر جدید جنگی سہولیات موجود ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ نے روس کے اس بحری بیڑے کی بحیرۂ روم میں آمد پر احتجاج کیا ہے۔ ادلب میں جہاں ان ہزاروں دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے ان پچیس لاکھ بے گناہ شہریوں کی عملاً رہائی ایک خوش خبری متوقع ہے،وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جنگ میں لاتعداد بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن روس، ایران، ترکی اور دمشق حکومت نے اب یہ طے کرلیا ہے کہ شام کے اس آخری میدانِ جنگ میں ہرصورت فیصلہ کن وار کرکے خطے کو امریکہ کے پیداکردہ اِن دہشت گردوں سے چھٹکارا دیا جائے کہ یہ خطے میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے۔
“