’’یا رسول اللہ یہ جو آپ کے جانثار صحابی ابھی ابھی آپ کی محفل سے گئے ہیں یہ مجھے بہت پسند ہیں ۔دل کو بڑے بھلے لگتے ہیں ‘‘۔
’’ کیا تم نے یہ بات کبھی ان سے کہی ہے؟‘‘۔
’’ نہیں یا رسول اللہ‘‘۔ ’’ تو فوراً ان کی پیچھے جاؤ اور یہ با ت ان کو بتا کر آؤ‘‘۔
یہ ہے اسلامی تہذیب و ثقافت جس کی رُو سے دوست کو تنہائی میں سمجھانے اور محفل میں تعریف کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔جس میں دوست کو دوست کا آئینہ قرار دیا گیا ہے۔ایک ایسا آئینہ جو چپکے سے اس کی نہ صرف خامیاں ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کی خوبیاں بھی عیاں کرتا ہے ۔جس میں رَد کرنے سے زیادہ مان لینے کی رُوح سرگرم ہے ۔جو انسان اور انسانیت سے پیار کا درس دیتی ہے ۔جو یہ سکھاتی ہے کہ خوشخبری پہلے سناؤ اور ڈراؤ بعد میں۔ جو ثمرات کو اولیت دیتی ہے اورمضمرات کے ذکر کو مؤخر کرتی ہے ۔پہلے جنت کی تشویق دلاتی ہے جہنم کا ذکر بعد میں کرتی ہے ۔یہ تہذیب رسالت مآب کو بشیر کہتی ہے نہ کہ داروغہ۔اس تہذیب کا شارع ایسا مہربان ہے کی قرآن نے انہیں ’’حریص‘‘ کہا ہے ۔آپ اُمت کے ہر فرد کی نجات کی فکر میں ایسے مگن رہے کہ خالق کو ان کی فکر لاحق ہوئی ’’ اے محمد ! کہیں خود کو ان کی فکر میں ہلاک نہ کر ڈالنا‘‘۔ایسا مہربان کہ اہلِ طائف کے پتھر کھا کر بھی کہے تو محض اتنا ’’یہ مجھے نہیں جانتے۔ میں محمد ہوں ان کا سب سے بڑا خیرخواہ‘‘۔کسی نے ایک بزرگ سے دین میں خیر خواہی کے مقام پر استفسار کیا تو جواب ملا۔ ’’کیا دین خیر خواہی کے علاوہ بھی کسی اور چیز کا نام ہو سکتا ہے۔ دین تو محبت ہے اور محبت دین‘‘۔
پیارے قارئین خدا صاحبِ جمال ہے اور جمال پسند کرتا ہے۔اپنے ظاہر اور باطن کو جمالی بنا کر (اپنے جلال پر قابو پاتے ہوئے)ہی ہم رب ذوالجلال کے جلال سے بچ سکتے ہیں۔اس مہربان ذات کے غضب سے کہ جس کا کرم اس کے جلال پر مقدم ہے ۔ جس نے رحمت کو اپنی ذاتِ بے نیاز پر واجب کر لیا ہے ۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر جب میں اپنے معاشرے پر نظر کرتا ہوں تو سر شرم سے جھک سا جاتا ہے اور کسی مفکر کے کہے ہوئے الفاظ درِ احساس پر دستک دینے لگتے ہیں ’’ اسلام بہترین دین ہے اور مسلمان بدترین امت‘‘۔ کس قدر دکھ کا مقام کہ آجناب تو فر ماتے ہیں میں قیامت کے دن اپنی کثرت امت پر فخر کروں گا اور ہم مسلمان (معاذاللہ)ان کو شرمسار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔اللہ ہمیں اس طوفان سے آشنا کر دے جس سے ہمارے بحر کی موجیں مضطرب ہوں۔
اور اقبال کو یہ نہ کہنا پڑے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
قاضی صاحب کو میں جانتا کم اور مانتا بہت زیادہ ہوں۔ جاننا تو ایک مسلسل عمل ہے اورکہاں ضروری ہے کہ ہماری یہ جان پہچان ماننے پر منتج ہو۔ کیا عجب ہے کہ ماننے اور تسلیم کے لیے شناسائی تک ضروری نہیں کہ جب مان لیا تو پہلے پلکیں جھکتی ہیں پھر سر جھکتا ہے اور بالآ خر دل بھی یہ کہتا نظر آتا ہے
’’سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ‘‘۔
یہ اکابر پرستی ہرگز نہیں حق پرستی ہے ۔ اس کا جواب کتنی خوبصورتی سے ایک صُوفی نے دیا تھا۔جب اس سے پوچھا گیاتھا کہ حضرت، صُوفی توصرف اللہ کی محبت کے قائل ہیں جبکہ آپ کو تو دنیا سے بھی پیار ہے ۔ جواباً مسکرا کر فرمایا ’’محبوب کی ہر چیز پیاری لگتی ہے ‘‘۔ یہی الحمد کا بھی مفہوم ہے کہ حمد اس کی ہے جو سزاوار ثنا ہے ۔
اور اگر کسی بندے کے کسی وصف کر سراہا جائے تو یہ بھی تو اس کے خالق ہی کی تعریف ہوئی کہ بندے کا ہر وصف ذاتی نہیں ہوتا عطائی ہوتا ہے اگر ذاتی ہو بھی تو توفیق تو خالق کی عطا کردہ نعمت ہے ۔جو الف کے آگے جھک جائے اس پر خدا کا فضل ہو جاتا ہے۔پھر اس کے ساتھ الف جڑ جاتا ہے اور وہ افضل ہو جاتا ہے اور اس میں مجھے قطعاً کوئی شک نہیں کہ قاضی صاحب پر اللہ کا فضل تھا۔
ان کی مقبولیت اور محبوبیت کا ایک زمانہ قائل بھی ہے اور گواہ بھی۔ان کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے کسی خواب اور انقلاب کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ان کے اندر خداداد صلاحتیں مضمر تھیں سو وہ مخلوق کی داد کے محتاج نہ رہے تھے ۔ ان کے لیے اینگری اولڈ مین حسن نثار کا تخلیق کردہ نعرہ ’’ظالموں قاضی آرہا ہے ‘‘ ، بھٹو کے روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے کے بعد وطنِ عزیز کی دوسری بڑی اور مؤثر آواز تھی۔اور اس کے لیے انھوں نے کسی تشہیری مہم کا بھی سہارا نہ لیاتھا۔
نہ کسی کے زیور اتارے تھے نہ چندے کے لیے ہاتھ پھیلائے تھے ۔پھر بھی اس نعرے کی گونج ہر پاکستانی با شعور شخص کے کانوں میں سنائی دیتی تھی۔لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی جماعت کو اسلامی بنا دیا میں کہتا ہوں بات یہ نہیں ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اس عوامی شخصیت نے جماعت اسلامی کو عوامی بنا کر مکمل کر دیا تھا ۔عوام کی اکثریت کا سب سے گہرا ناطہ اسلام ہی سے تو ہے ۔ وہ تو صرف ایک حلف اٹھاتی ہے اللہ اور اس کے رسول کی غلامی کا حلف ۔ بلکہ برطانیہ اور تاج برطانیہ سے انہیں کیا سروکار۔(یہ تو کسی اور کے سرکار ہیں) قائدِ قبضہ گروپ کی طرح آسمان کی دیکھ کر ہر گز نہیں تھوکتی۔ نہ اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے کسی اور کے سر تھوپتی ہے ۔ عوامی پذیرائی کے سبب وہ اپنی پارٹی کے نقادوں تک کو اپنا آپ منوا گئے۔
میں ان سے کبھی نہیں ملا ۔کبھی خط و کتابت بھی نہیں رہی ۔ میں نہ ان کی پارٹی کا ہوں۔ نہ ہم زبان ، نہ ہم علاقہ، نہ ہم عصر ، نہ ہم عقیدہ و مسلک۔(لیکن نہ جانے کیوں لگتا یہی ہے کہ وہ اور میں مل کر ’’ہم‘‘ بن جاتے ہیں)اس سب فرق کے باوجود ہم ، ہم آواز بھی تھے اور ہم خیال بھی ۔اس کا خواب مسالک کا اتحا د تھا اور آخر دم تک وہ اس کے لیے اپنوں سے بھی لڑتا رہا پرایوں سے بھی ۔ان کی وفات کے ساتھ حقیقی معنوں میں متحدہ مجلسِ عمل ٹوٹ گئی ۔پھر کبھی نہ جڑنے کے لیے ۔ کہ وہ بائینڈگ فورس ہی چلی گئی ۔ نورانی صاحب کی کمی تو انھوں نے پوری کر دی تھی۔ ان کا خلا شائد ہی کوئی پُر کر سکے ۔ان جیسا اب ایک بھی نہیں۔ ان کی اپنی جماعت میں تو ہرگز نہیں ۔ صوفیانہ نرم خوئی کا یہ خوگر شخص سخت سے سخت سوال کے بعد بھی مسکراتے ہوئے مدہم انداز کے ساتھ سوال کا جواب کچھ یوں دیتا تھا کہ مخالفین کو چونکاتا اور سوال کرنے والے کو سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا کرتا۔ایسے میں اس کی آنکھوں میں معصومانہ چمک اور چہرے پرشرارت رقصاں ہوتی تھی ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مولوی کو صرف مولوی رہنا چاہیے (اور فوجی کو بھی صرف فوجی)سیاسی نہیں بننا چاہیے کہ اس کے مزاج کی کرختگی عوام کی دل شکتگی کا باعث بن جاتی ہے اور وہ نہ مولوی رہتا ہے نہ سیاسی بن پاتا ہے اور صرف سنیاسی بن کر رہ جاتا ہے ۔ ہاں اگر قاضی صاحب جیسا بننے کی ہمت ہے تو اسے ضرور خارزار سیاست میں آبلہ پائی کی اجازت ہے ۔میری دوسری پسندیدہ شخصیت حافظ حسین احمد ہیں (ہاں وہی ’’مذاق رات ‘‘والے )بہت دفعہ ایسا ہوا کہ حافظ اور قاضی صاحب کے الفاظ گڈ مڈ ہوجایا کرتے تھے ۔ لیکن اب تو بد قسمتی سے یہ الجھن بھی دور ہوگئی ہے ۔کہ اب قاضی صاحب کے نام کے ساتھ ’’تھے اور تھا ‘‘کے الفاظ جڑ گئے ہیں ۔ کہ اللہ بس باقی ہوس۔حافظ صاحب کو الگ کر کے ان کی جماعت الگ تھلگ سی ہو گئی ہے اور کہیں کی بھی نہیں رہی ۔ادھر ہم بھی قاضی صاحب کو کھو چکے ہیں ۔ میں اس شخص کی کے کیا اوصاف بیان کروں کہ ایک ایسے ملک میں جہا ں وطن دشمن کہہ دیا جانا ایک فیشن بن چکا ہو ، جہاں دشمن کا ایجنٹ قرار دینا ایک سیاسی تکیہ کلام ہو وہاں وہ ان چند گنے چنے افراد میں سے ایک تھا جس کے نعرے کو خالص پاکستانی نعرہ کہا گیا ۔کسی نے اس کی نیت پر شک نہ کیا نہ اس کے نعرۂ مستا نہ کو ’’درآمد شدہ‘‘ کہا گیا۔ لگتا ہے وہ خود بھی ایک خود آگاہ شخص بھی تھا ۔ اقبال کے اس عاشق اور اس کے کلام کے حافظ کو خود آگاہی کی دولت نصیب ہو گئی تھی ۔ جبھی تو ذوالفقار مرزا، الطاف حسین اور علامہ قادری کی طرح کبھی قرآن اٹھاتے ، سر پر رکھتے اور حلف دیتے نہیں دیکھا۔
وہ تو مذاق میں بھی جھوٹ کو ایک گناہ گردانتا تھا ۔ سو اس کو قسم اٹھانے اور مال بیچنے کی کیا ضرورت تھی ۔ یہ تو وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے مال بنانا ہو (اور وبال کمانا )اور ڈبے سیل کرنے ہوتے ہیں جن کے اوپر کچھ درج ہوتا ہے اور اندر سے کچھ اور نکلتا ہے ۔
جان ایلیا نے خود کو اردو کا سب سے بڑا شاعر کہا تو فراز نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جب تم تسلیم نہیں کرو گے تو انسان یہی سب کہے گا‘‘۔ ہم بھی جانے کیوں تسلیم نہیں کرتے ۔(مر جائے تب ریا کارانہ بلکہ فنکارانہ تعظیم بجا لاتے ہیں )اگر کر لیں تو بت پرستی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔یہ بات جماعت کا کریڈٹ کہی جائے گی کہ اس نے ’’علامہ مودودی‘‘کی قبر کو نہیں تھاما اس کی فکر کو تھاما ہے ۔ قاضی صاحب بھی چلے گئے۔ اگر گستاخی نہ سمجھیں تو عرض کروں گا کہ جماعتِ اسلامی کا فرض ہے وہ ان پر لکھے گئے تمام کالموں کو کتابی صورت میں ضرور شائع کریں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی اسلامی اور عوامی فکر کی بھی ترویج کریں ۔ اگر یہ بدعت ہے بھی تو اسے ’’بدعت حسنہ ‘‘ کہہ جائے گا۔
میرا دعوی ہے کہ قاضی صاحب کی روح سر شاری کے عالم میں رخصت ہوئی ہے ۔ جی کر نہیں تومر کر تو وہ تمام مسالک کو اکھٹا کر گئے ۔ ان کے جنازے پر ہر مسلک کے اکابر موجود بھی تھے اور مغموم بھی ۔مجھے یاد ہے ممتاز دانشور حیدر جاوید سید کے کالم کے عنوان پر رحمتہ اللہ علیہ لکھا دیکھ کر نوجوان کالم نگار احمدحسن عوان نے بے ساختہ کہا تھا ’’ مجھے یہ کالم پڑھنے کی ضرورت ہرگز نہیں ۔ کالم کا عنوان ہی بتا رہا ہے کی یہ خاصے کی چیز ہے ۔ اور میں نے تائید میں سر ہلا دیاتھا۔
قاضی صاحب چلے گئے ۔ منتقل ہوگئے ۔لگتا ہے یہاں کی نسبت ان کی وہاں ضرورت زیادہ تھی ۔ وہ دریا تھا سمندر میں اتر گیا ۔ وہ ’’دیدہ ور ‘‘خورشید کی طرح ڈوب کر پھر طلوع ہوگا۔ذات کی صورت میں نہ سہی افکار و نظریات کی صورت ہی سہی۔اقبال نے شاید انہی جیسوں کے لیے کہا تھا ۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِ دھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُ دھر ڈوبے اِدھر نکلے
فخرِ ریاست نقوی احمد پوری کیا اچھے ہمارے اندرکا بچہ
ہر انسان کے اند ر ایک بچہ چھپا ہوتا ہے ۔جس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے باہر کا ماحول اسے بہت جلد یہ احساس دلا اور جتا دیتا ہے کہ اب وہ اب بچہ نہیں رہا۔
اس کو مسائل کے حل کی ایک ہی چابی رب نے تھما ئی ہوتی ہے ….یعنی
محبت کی ’’ ماسٹر کی ‘ ‘…
لیکن اس کا بیرونی ماحول اس کے اس بچگانہ اسلحے کی خوب ہنسی اڑاتا ہے
اتنی کہ بچہ اپنی وہ چابی بے کار جان کر پھینک دیتا اور منہ بنا لیتا ہے……
ایسے میں ’’ بڑے ‘‘ اسے بہلانے کے لئے ’’سکہ رائج الوقت‘‘ بطور چابی تھما دیا کرتے ہیں ۔
مسلسل تجربات سے اسے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ یہی وہ چابی ہے
کہ خواہشوں پر پڑے اکثر تالے جس سے باآسانی کھل جاتے ہیں ۔
اب وہ بچہ چونکہ بڑا ہو چکا ہوتا ہے سو وہ سکے کے حصول میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا اور اپنا آپ کھپا دیتا ہے ۔اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ و ہ اب بھی پچھلی صفوں میں ٹھہرا ہے تو اس کے اندر حسد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔جس کی حدت اسکے اندر شدت کو جنم دیتی ہے ۔اور یوں شدت کی یہ آ گ اس کی انسانیت چاٹ جاتی ہے ۔اسی شدید آگ سے جلی انسانیت کی لاش سے تعصب کی وہ سرانڈ اٹھتی
کہ جو ذات سے لیکر کائنات تک کی ہر چیز کا ناک ’’ جلا ‘‘ ڈالتی ہے ۔
قصہ کوتاہ …
گندگی خارج میں ہو تو تعفن کا سبب ہوتی ہے
اور………………………………… باطن میں ہو تو تعصب کا
اگر ہم نے اس سرانڈ سے اپنی ذات اور کائنا ت کو بچانا اور اس دنیا کو پھر سے رہنے کے قابل بنانا ہے تو ہمیں تعصب کی جگہ محبت کو فروغ دینا ہو گا کہ محبت ایک فرد سے لیکر معاشرے تک کے ہر فرد کی بنیادی اور اولین ضرورت ہے ۔ اور یہی وہ ’’ماسٹر کی ‘‘ جس کی مدد سے ہم ہر مسئلے کے ڈیڈ لاک کا لاک باآسانی کھول کر معاشرے میں حل پیدا کر سکتے ہیں کہ ہم نے اب تک تو صرف مسئلے ہی پیدا کئے ہیں۔
آئیں اپنے سماج کو پھر سے اس قابل بنا دیں کہ جہاں محبت کا پھیلاؤ ہر سمت پھیلا دکھائی دے ۔ اس کے لئے ہمیں بس اتنا کرنا ہے کہ اپنے اور اپنے بچوں کے اندر چھپے اس بچے کو زندہ رکھنا ہے کہ محبت کی ماسٹر کی جس کا واحد اسلحہ ہے ہاں قارئین یہ وہ چابی ہے کہ خواہشوں پر پڑے اکثر جس سے باآسانی کھل جاتے ہیں ۔
کسی نے کیا اچھا کہا ہے
محبت جہاں ہے وہاں زندگی ہے
محبت نہ ہو تو کہاں زندگی ہے پر یا د آئے
پھیل جانا شہر میں سورج کی کرنوں کی طرح
اپنے مرکز سے نہ ہٹنا اور گھر گھر بولنا