آٸیڈیل کیا ہے، پسند کی لڑکی، پسند کی گاڑی، پسند کا کھانا، پسند کا گھر آخر یہی سب تو ہے جس کی تلاش میں عمریں گزر جایا کرتی ہیں اور جب یہ سب حاصل ہوتا ہے تو وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے تلاش کی ڈگڈگی باندھ کر ناچتے ناچتے ہمت ہار چکی ہوتی ہے مگر انسان کبھی اپنے آپ سے بھی سچاٸی کا اعتراف نہیں کرتا ،آٸیڈیل کی اس جنگ میں نقصان سب سے زیادہ آنے والی نسلوں کا ہوا کرتا ہے بچوں کو تھکے ،مردم بیزار والدین نصیب ہوتے ہیں جو زندگی کے مختلف محاذوں پر ایسی شدید لڑاٸیاں لڑ چکے ہوتے ہیں کہ بالآخر اولاد کو دینے کے لیے ڈیپریشن کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہوتاایک وقت تھا جب میری راۓ تھی کہ شادی جلدی نہیں کرنی چا ہیے کیونکہ شادی ذمہ داریاں نبھانے کا نام ہے اور کم عمری میں سسرال اور میاں بیوی کے کمپلیکس رشتے کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے مگر آج میری راۓ مختلف ہے کیونکہ جب بڑی عمر کے لوگ والدین بنتے ہیں تو بچوں کی تعداد بھی عموماً ایک یا دوہی ہوتی ہے اور بچوں کی زندگی کے بہت سے لوازمات بھی والدین کی آدم بیزاری کی نذر ہو جاتے ہیں جس سے احساس کمتری کی نٸ صورتیں جنم لیتی ہیں، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین کی تھکن بیماری کی صورت اختیار کر جاتی ہے اور سکول جاتے بچوں کو والدین کی تیارداریں اور گھر کی ذمہ داریاں بھیبھی نبھانی پڑتی ہیں مجھے یاد ہے نو سال کی عمر میں بلڈ پریشر کا نام سنا تھا پہلی بار اور کچھ عرصہ بعد آنکھوں میں موتیا اترنے کا بھی پتہ لگ گیا ، بعض اوقات پیپر دیتے سمے دھیان گھر میں پڑے بیماروں کی طرف ہی رہا کرتا ،یہی حال ہنی مون کے لیۓ گھر سے رخصت ہوتے ہوے تھا ،اب زندگی کے مختلف پہلو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ایک نسل کے دکھ دوسری میں منتقل نہیں ہونے چاہیں ورنہ ہمارے جیسی ”اداس نسلیں“ ہی ہمیشہ وجود میں آتی رہیں گی ، بچے جونہی بالغ ہوں اور سمجھ دار ہوں تو ان کی مرضی اور اپنیپسند کو شامل کر کے بچوں کو اپنی قید سے آزاد کر دینا چاہیے ،بچوں کو اڑنے دیں نہ اولاد کو اپنی بیماریوں اور اذیتوں میں حصہ دار بناٸیں کہ انسانی ڈیپریشن ختم کرنے کا واحد ذریعہ میرے نزدیک تو یہی ہے اور شاٸد یورپ یہ راز جان چکا ہے اسی وجہ سے وہاں والدین بھی جوان رہتے ہیں اور بچے بھی ذمہ دار خوش باش شہری بنتے ہیں اور اپنے پاٶں پر بھی جلدی کھڑے ہو جاتے ہیں