بدترین حالات میں آئیڈیل کی اُمید کرنا ایک عام بیماری ہے۔ ہم سبھی اِس علت کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارے تصورِ زندگی اور نظریۂ دُنیا میں بھی یہ عناصر پائے جاتے ہیں۔ تازہ بریک اَپ کے بعد نوجوانوں کو آئیڈیل لڑکی/لڑکے کی تلاش ہوتی ہے۔ جعلی سرٹیفیکیٹ بنوانے کے لیے جاہل کونسلر سے ملاقات نہ کر پانے والے کو ایک زبردست اور ایمان دار حکمران کی خواہش ہوتی ہے۔ لڑکیوں کے ہاتھوں کی تصویروں پر ہارٹ والے لائیکس دینے والوں کو اپنی ماں جیسی کامل عورت چاہیے ہوتی ہے۔
بابا فرید کے بقول:
لوڑیں داکھ بجوڑیاں، ککر بیجے جٹ
ہنڈھے اُن کتائیندا، پیدھا لوڑیں پٹ
یعنی تم باجوڑ کی کھجوروں کے خواہش مند ہو، جبکہ کسان کیکر کے بیج اُگاتا ہے۔ تم کاتی ہوئی اون پہنتے ہو، لیکن ریشم پہننے کی تمنا رکھتے ہو۔
جیسے ’’بدترین حالات‘‘ سے آپ ہم دوچار ہیں، قدیم مصری ادب کی نظمیں اور ہرمی ادب اٹھا کر دیکھ لیں، تب بھی ایسا ہی تھا۔ آپ کو قدیم مصری ادب میں ’’بددیانتی کے خلاف‘‘ اخبارات کے کالموں جیسے کئی نمونے مل جائیں گے۔
حتیٰ کہ ہم اپنی دنیا کو اچھا دیکھنے کے لیے اِسے برباد یا منہدم ہوتا دیکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دجال کی آمد اور انقلاب کی تمنا اسی کا پرتو ہیں۔ ہمیں مرنے سے نہیں قتل ہونے سے ڈر لگتا ہے۔ کوئی اور مارے گا تو موت آئے گی، کوئی اپنا مارے گا تو قتل ہو گا۔
ہمیں یہ پتا کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں انقلابات کے ساتھ کیا گزری۔ جاری جدید دور کے انقلابات میں تو ہمیشہ منفی قوتوں نے ہی فائدہ اُٹھایا، جس کی ایک مثال تحریر سکوائر ہمارے سامنے ہے۔ اب کوئی بھی اچانک اور بڑا انقلاب آنے والا نہیں۔ کوئی نہیں اُترے گا۔ آئیڈیل وہی ہے جو آپ انسان دوستی کے اصولوں کے مطابق خود کو بنانے میں کچھ درجہ کامیاب ہو سکیں۔ اور انسان دوستی یہی ہے کہ انسانی معاملات کے حل انسانی ذرائع سے تلاش کیے جائیں۔ ہم جن حل شدہ مسائل کا مزہ لے رہے ہیں (جیسے ووٹ، آٹھ گھنٹے کام، وغیرہ) اُن میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ آئندہ بھی انسان پیدا ہوں گے، چاہے وہ انسان کی موجودہ تعریف پر پورے نہ بھی اُترتے ہوں۔ آئیڈیل ایک مرض ہے۔
یاسر جواد