(نوٹ: 30 دسمبر 2018ء کو لٙیہ پاکستان کے مقام پر محترم احمدمنیب نے ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا تعارف کراتے ہوئے یہ مقالہ پڑھا۔ چیئرمین ادارہ۔ توصیف ترنل)
بعض لوگ اپنی ساخت کے اعتبار سے مشکیزہ بردار ہوتے ہیں۔ فردِ واحد کو نہیں بلکہ کل عالم کو سیراب کرنا چاہتے ہیں اور حتی المقدور کر بھی جاتے ہیں۔
اللہ رب العزت سورة البقرہ میں فرماتا ہے:
واللہ مخرج ماکنتم تکتمون
عادت اللہ اور سنت اللہ یہی ہے کہ ہر وہ چیز اور بات جسے تم چھپاتے ہو وہ نکال کے باہر لے آتا ہے۔
دوسرے سورہ یاسین میں فرمایا کہ نافع الناس اور باجود وجود کے حامل انسان کو عمرِ دراز عطا فرماتا ہے تا وہ تادیر سلامت رہے اور حقوق العباد ادا کرتا رہے۔
میری مراد ایک شخص، ایک انجمن، ایک استعارہ، ایک ستارہ، ایک ادارہ، ایک معتبر اور مدبر شخصیت، آسمانِ ادب کا روشن ماہتاب جناب توصیف ترنل ہیں۔
کشمیر جنت نظیر کے سپوت اور فی الوقت عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کی جان اور فروغِ علم و فن کی روحِ رواں ہیں۔
حاضرین محترم! بیس سال پہلے "کشمیر سحرِ ادب" کے ذریعہ ادب کی خدمت کا بیڑہ اٹھانے والا اکیلا انسان آج ایک انجمن ہے، ایک کاروان کا نام ہے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
کشمیر سے جست بھری اور ہانگ کانگ منتقل ہو گئے جگہ بدل گئی مقصد نہیں بدلا، خدمت ادب کے زاویے نہیں بدلے۔
بیس سالہ سفر میں تین سال قبل یعنی 2015 میں برقی دنیا میں انقلابی قدم رکھ دیا۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں "ادارہ" کا لفظ پہلی بار استعمال کیا گیا۔ آج اس کی اُڑان سبھی دیکھ رہے۔
حاضرین محترم! اگر میں اس ادارے کی طرف سے کی جانے والی ادب کی خدمت کا تذکرہ شروع کر دوں تو بلا مبالغہ جملہ مساعی کا احاطہء لفظی کرنے کے لیے کئی دن کی کئی ایک نشستیں درکار ہوں گی لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ آج مختصر وقت میں اس ادارہ کی عظیم الشان کارکردگی مختصر لیکن انتہائی جامع طور پر پیش کر سکوں۔
توصیف ترنل ایک حقیقت پسند اور فعالیت پسند انسان ہے جو چھوٹے درجہ پہ راضی نہیں ہوتا۔ کام کی عام نوعیت اسے قطعاٙٙ متاثر نہیں کرتی۔ یہ وہ شخص ہے جو ادارہ سے منسلک ہر فرد سے نتیجہ کا متمنی ہے۔
یہ وہ ادارہ ہے جس کا ہر ایک فعال ممبر توصیف ترنل کے دل کی دھڑکن ہے۔ کوئی اس کو دیوانے کی بڑ نہ سمجھے اس دعویٰ کی دلیل میں آپ کے سامنے میں محض تین سال کی کارگزاریاں رکھتا ہوں۔ تفصیلات کے لیے گوگل کھولیں اور لکھیں بیسٹ اردو پوئٹری تو اس ادارہ کی سب کارگزاریاں ایک کلک میں آپ کے سامنے ہوں گی۔
گود سے گور تک حصولِ علم میرا مشغلہ اور اس بہار کو عام کرنا میرا پیشہ ہے۔
اس گروپ میں نظم و نثر پیش کرنے والے کی تربیت اس رنگ میں ہوئی ہے کہ وہ اپنی کاوش پہ پیش کی جانے والی نقدونظر کو ایک نعمت غیر مترقبہ گردانتا ہے اور اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے کہ اسے سیکھنے کو ملا۔
پذیرائی اور دادوتحسین اپنی جگہ اس میں کمی کیے بغیر حسن و قبح پر بات کرنا اور شعرا و نثر نگاروں کا اس نقدونظر کو کھلے دل سے قبول کرنا اس ادارہ کے ہر ممبر کا طرہء امتیاز ہے۔
نقدونظر کے میدان میں ادارہ محترم المقام ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب بھارت، محترم المقام ضیا شاہدانی صاحب بھارت، محترم المقام مسعود حساس صاحب کویت، محترم المقام ڈاکٹر عدیل ارشد خان صاحب بھارت اور حکیم ایم ایچ مرشد صاحب پاکستان کا تہِ دل سے ممنون ہے اور ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہے جو علم کی دولت کو بے لوث عام کرنے میں رتی بھر بخل یا جانب داری سے کام نہیں لیتے۔ اللہم ایدہم بنصرک العزیز۔
اس پلیٹ فارم پر چیئرمین اور سیکریٹری ادارہ کے علاوہ سو سے زائد اعزازی ایڈمن ہیں اور تقریباٙٙ اڑھائی صد ممبران ہیں جن کا تعلق پاکستان، ہندوستان، مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سے ہے۔ یہ سبھی ایک کنبہ کی طرح باہم جُڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ ادارہ انڈوپاک کی گیارہ دیگر ادبی تنظیمات کے اشتراک سے بھی ہروگرام پیش کر چکا ہے جو اپنی ذات میں ایک ریکارڈ ہے۔ ان اداروں کے نام ملاحظہ ہوں:
عالمی ادب اکیڈمی راولپنڈی اسلام آباد پاکستان
دعوت شیراز۔
دریچہ ڈیرہ غازی خان پاکستان۔
گلشنِ مختار بھارت۔
بزمِ متین بھارت۔
جگنو انٹرنیشنل لاہور پاکستان۔
بزمِ اربابِِ سخن بھارت۔
فروغِ علم و ادب سوسائٹی آزاد کشمیر۔
انجمن بقائے اردو کامرہ پاکستان۔
فروغِ علم و ادب ضلع نیلم آزادکشمیر۔ اور
حلقہ اربابِ ذوق ڈیرہ غازی خان پاکستان۔
حاضرین محترم! ماہنامہ "آسمانِ ادب" اس ادارہ کا ایسا جریدہ ہے جو معیاری ادبی ماہنامہ ہے۔ اس کے مدیر اعلی مراد آباد بھارت سے تعلق رکھنے والے ہر دلعزیز جناب انور کیفی صاحب کو کون نہیں جانتا۔
"جشنِ ادارہ" سے موسوم ایک پورا ہفتہ 14 تا 21 جولائی 2018 ء کو منایا گیا جس کا مقصد ادارہ کا عالمی سطح پر تعارف، ادارہ کی تمام تر ادبی سرگرمیوں نیز ادارہ سے جُڑے ہوئے تمام اراکین کے لیے موقع فراہم کرنا تھا کہ اپنا تعارف اور اپنی کاوشیں پیش کر سکیں۔ بعدازاں اس ہفتے کی کارگزاری محفوظ کرنے کے لیے ایک مجلہ"جشنِ ادارہ" کے نام سے شائع کیا گیا۔
یہ ادارہ یک صد سے زائد نوع کے ایوارڈز اور مختلف کارگزاریوں پر احباب کی خدمت میں پیش کر چکا ہے جن کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں: ڈاکٹر بشیر بدر ایوارڈ۔ احمد ندیم قاسمی ایوارڈ۔ جون ایلیا ایوارڈ۔ اعتبار فن ایوارڈ۔ کشمیر سحر ادب ایوارڈ۔ اور سندات میں سندِ اعزاز برائے ادبی خدمات اور توصیف نامہ سند شامل ہے۔ علم و فن کے سینکڑوں قدردانوں اور خدمت گزاروں کو ان ایوارڈز اور سندات سے نوازا گیا جو اپنی ذات میں ایک ریکارڈ ہے۔
جب اس ادارہ نے برقی دنیا کی چک و چوند میں قدم رکھا تو ایک انقلاب پیدا کرنا شروع کیا۔ برقی دنیا میں ہفتہ وار مفید پروگرام کروانا اس ادارہ کا امتیازی اور انقلابی قدم ہے۔ چنانچہ 29 دسمبر2018 ء تک یہ ادارہ 186 تنقیدی پروگرام پیش کر چکا ہے۔ نظم و نثر پر انفرادیت کے حامل ان ہروگرامز کی جامع رپورٹس آپ کو نیٹ پر آسانی سے مہیا ہو سکتی ہیں۔
ان پروگرامز کی خاص بات یہ ہے کہ طرحی مشاعرہ کے ساتھ ساتھ مختلف صنعات جو مفقود و عنقا ہو چکی ہیں ان کو زندہ کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ادارہ اب تک صنعت واسع الشفتین، صنعت اعداد، صنعتِ تلمیح پر پروگرام اور مفصل رپورٹس پیش کر چکا ہے۔
نثر میں سلگتے ہوئے موضوعات مثلاٙٙ صحافت کا گرتا یوا معیار۔ شاعری کا گرتا ہوا معیار وغیرہ جیسے موضوعات پر فکشن پروگرام پیش ہو چکے ہیں آئندہ ہفتہ کے روز "کرپشن" جیسے اہم موضوع پر قلم پاشی کرنے احباب کمربستہ ہیں۔
ایک اہم بات جس سے ادارہ غافل نہیں کہ اتنے مفید پروگرام پیش کرنے پر دنیا بھر میں جائزہ لینے کے بعد ادارہ کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے اس لیے کیوں نہ ہم Guinness World Records میں اپنی کارگزاریوں کا اندراج کروائیں؟ سو ایک فائل بنا کر پیش کر دی گئی ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اس کے بعد ادارہ کا نام اس میں جلد شامل کر دیئے جانے کی امیدِ واثق ہے۔
اس ادارہ کے بانی و چیئرمین جناب توصیف ترنل ہانگ کانگ، جنرل سیکریٹری ادارہ جناب صابر جاذب لٙیّہ پاکستان جبکہ خاکسار پروگرام آرگنائزر نیز اعزازی ایڈمن اور رہورٹنگ کی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
دسمبر 2017 تک ہمارا ادارہ پندرہ کتب پی ڈی ایف کی شکل میں برقی ادبی دنیا میں پیش کر چکا ہے جن میں: عالم میں انتخاب، نورِ کائنات وغیرہ شامل ہیں۔
اس ادارہ کے تحت ایک فاونڈیشن بھی قائم ہے جس کے منشور میں اٙدِبّا اور شعرا کی کتب شائع کرنے سے لے کر ان کی روزمرہ کی ضروریات نیز طبی سہولیات مہیا کرنے کا اعلی اور نیک عزم اور مقصد شامل ہے۔
جناب شوزیب کاشر آزاد کشمیر کی کتاب "خمیازہ" اور جناب شہزاد تابش کی کتاب " دعا کے چراغ" اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں جس کی آج یہاں تقریب رونمائی ہے۔
میرے محترم حاضرین! آج کے اس اہم پروگرام میں خاکسار توصیف بھائی اور اپنے اس مقدس و موقر ادارہ کی نمائندگی کرتے ہوئے عاجزی بھرے فخر سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے ادارہ اور بزمِ فروغِ ادب و ثقافت لیہ کے باہمی اشتراک سے کامیاب ہونے والا یہ ہروگرام یقیناٙٙ ادبی دنیا میں ایک انقلابی قدم اور سنگِ میل ثابت ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
میں، بانی و چیئرمین ادارہ جناب توصیف ترنل نیز سیکریٹری ادارہ جناب صابر جاذب لیہ پاکستان اور ادارہ کے ہر ممبر کی طرف سے آپ سب حاضرین کا اس قدر خوب صورت پروگرام تشکیل دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ بہت اعلیٰ انسان اور بہترین مہمان نواز ہیں۔
میں آپ سب کا تہِ دل سے ممنون ہوں کہ آپ نے میری گزارشات کو انتہائی محبت اور انہماک سے نہ صرف سنا بلکہ پذیرائی بخش کر حوصلہ بڑھایا۔ ہمارے باہمی اشتراک کا یہ پروگرام آخری نہیں بلکہ پہلا پروگرام ہے۔
ہم دور دراز کا سفر کر کے یہاں پہنچے لیکن آپ کی مہمان نوازی اور خیرسگالی جذبات نے دل تسخیر کر لیے۔
اللہ رب العزت آپ سب کے ساتھ ہو۔ آمین
رب الافواج اپنے فرشتوں کے ذریعہ آپ کی نصرت و مدد فرمائے۔ آمین
زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ آپ سب کی محبتیں مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی۔
آپ سب کی خدمت میں میرا عقیدت، محبت اور خلوص سے بھرپور سلام۔
وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین