ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
تنقیدی پروگرام نمبر 186
درصنعتِ تلمیح
تلمیح کی لغوی تعریف اور معانی:
تَلمِیح عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفضیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر ہے اردو میں سب سے پہلے اس کا استعمال1851 کو ’عجائب القصص‘ میں ملتا ہے۔
تلمیح کے لغوی معنی رمز اور اشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں کسی تاریخی واقعہ، مذہبی حکم، لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس انداز سے نظم کیے جانے کو کہتے ہیں تا کہ شعر کے مضمون کو پُرلطف اور زوردار بنایا جا سکے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مصرع میں دو ایک الفاظ ایسے استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں پڑھ کر پورا واقعہ، قصہ، معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں مستحضر ہو کر اس کی سوچ کو شعر میں موجود مضمون کی گہرائی تک لے جائے۔ تلمیح کو حسن ِ شعر کا درجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو ملنے والے نئے اور مخصوص مفاہیم کی وجہ سے ہی انھیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
تلمیح کی اصطلاحی تعریف:
اصطلاح میں ’تلمیح‘کی تعریف یہ ہے کہ شاعر و ادیب اپنے کلام و گفتگو میں کسی مسئلٔہ مشہور، کسی قصے، مثل شے اصطلاح نجوم، قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں کسی بات کی طرف اشارہ کرے، جس سے مکمل واقفیت کے بغیر معانی سمجھ میں ہی نہ آسکیں۔
تلمیح کا آغاز و ارتقا:
ادبیات عالم میں تلمیح کا آغاز بہت قدیم زمانے سے ہے۔چنانچہ قدیم ادب اور زبان کی کتاب قرآن کریم نے اس کا سب سے پہلے استعمال کیا اور رہتی دنیا تک کے لیے بے نظیر تلمیحات کے نمونے رقم کر دیئے۔ چنانچہ ایک تجزیے کے مطابق قرآن کریم میں جتنی تماثیل، گزشتہ اقوام کے واقعات اور قصص بیان شدہ ہیں وہ سب تلمیحات ہیں۔ یہ فصاحت و بلاغت کی ایک اعلیٰ اور تکمیلی صورت ہے۔اس اعجازِ قرآنی کی اتباع میں ہر زبان و ادب میں اس صنعت کا استعمال ہونے لگا اور قلم کاروں نے مختصرانداز میں مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے اسے اختیار کیا۔
ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’تلمیح علم بیان کی نہایت اہم صنعت ہے۔ اس کی قدامت اس طرح مسلم الثبوت ہے جیساکہ تمدن و معاشرت کی تاریخ۔ابتدائے آفرینش سے اس صنعت کا گہرا لگاو انسانی تمدن سے رہا ہے۔ ارتقاکی ہر منزل میں اس کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی جن قوموں میں الفاظ نہیں تھے وہ اپنے خیالات و جذبات کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پاوں سے اشارہ کرتی تھیں اور جب انہیں زبان ملی تو انہوں نے اپنی حرکات و سکنات کو تلمیح کا نام دیا۔اس لیے کہ تلمیحات نے وہی کام کیا جو ان کے اشارے کرتے تھے۔‘
تلمیحات کی ضرورت:
تلمیح کی ضرورت کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کر نے کے لیے ہوتی ہے۔اس سے مختصر انداز اور الفاظ میں بڑی بڑی باتیں بتادی جاتی ہیں اور ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنہیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات درکار ہوتے ہیں یوں کسی شاعر اور فن کار کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بہ جا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور اہل زبان کو ان واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے جو ان سے پہلے ماسبق میں گزر چکے تھے۔نیز تلمیحات ہمیں بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ عربی، فارسی اور برصغیر کی مقامی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ یہی بات ہے کہ اردوغزل نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اردوکے چھوٹے بڑے تمام شعرا کے ہاں اس کے استعمال کا رواج ملتاہے۔
تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں ، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔ افادات سلیم میں لکھا ہے:
’تلمیحات بلاغت کا نشان ہیں۔ بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے نیز کم سے کم الفاظ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ معانی سمجھے جائیں اور یہ بات تلمیحات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔چنانچہ جس زبان میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں، وہ بلاغت کے درجے سے گری ہوئی ہے۔‘
تلمیحات کے ذریعے شاعر کلام میں تاثیر پیدا کر تا ہے نیز اشعار کو شاندار، جان دار اور با وقار بناتا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک تلمیحی شعر غیر تلمیحی شعر کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ اور خوش نما ہوتا ہے۔ اسی طرح نثری کلام میں بھی اس کی کارفرمائی ہے۔تلمیحات کا کمال یہ بھی ہےکہ وہ باذوق افراد و اشخاص کو چند ساعتوں میں پورے پس منظر سے آگاہ کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی قرآنی واقعہ کا ذکر کسی شعر میں ہوا تو نہ صرف قرآن کی جانب سامع کا ذہن جائے گا بلکہ قرآن میں موجود اس قصے کا مذاکرہ بھی اس کے ذہن میں آجائے گا۔
اردو شاعری میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:
ا ب ذیل میں اردو ادب میں موجود تلمیحات اور ان کے پس مناظر میں موجود واقعات/حکایات کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
حیدر علی آتش کا شعر ہے:
عاشق اس غیرت بلقیس، کا ہوں میں آتش
بام تک جس کے کبھی، مرغ سلیماں نہ گیا
اس شعر میں ہے اشارہ ہے قصۂ بلقیس و سلیماں کی جانب۔جس کی ترجمانی قرآن کریم کی سورۃ نمل میں بالتفصیل کی گئی ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اس شعر میں آتش نمرو دکی تلمیح ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
چنانچہ اس واقعے کاخلاصہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیاہے:
حرقوہٗ وانصرو اٰلھتکم ان کنتم فاعلینOسورۃ انبیا۔24
’اس کو جلا ڈالو اور اپنے اپنے خدائوں کو بچائو ؟اگر تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو۔‘
اس کے بعد متعدد تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ شاہی فرمان کے مطابق شہر ے کےسب سے بڑے چوک پر آسمانوں کو چھونے والی آگ جلائی گئی جس میں ’عشق ‘یعنی ’خلیل خدا‘بے خطر کود پڑا۔
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم ہے اذاں لا الہ الا اللہ
اس شعر میں ایک نہایت باریک اور معرکۃ الآرا واقعے کی جانب سے اشارہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں مسلمان بتوں کی محبت سے رفتہ رفتہ جدا ہوئے تھے۔چنانچہ وہ نماز کے عالم میں بھی بغلوں میں بت لے کر آتے تھے۔مگر اس سے شارع اسلام نہ گھبرائے اور نہ اپنے مشن سے پیچھے بلکہ صدائے ربانی اذان لا الہ اللہ دیتے رہے اور خدائے لا شریک کی حقیقت و عرفان دلوں میں بٹھاتے رہے۔
آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
اس شعر میں چاہ یوسف کی تلمیح ہے یعنی جب برادرانِ یوسف نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔
تلمیح کی لغوی تعریف اور معانی:
تَلمِیح۔(عربی)عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفصیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر ہے اردو میں سب سے پہلے اس کا استعمال1851 کو ’عجائب القصص‘ میں کیا گیا۔
اسم نکرہ (مؤنث – واحد)جمع: تَلمِیحات
جمع غیر ندائی: واومجہول کے ساتھ’ تلمیحوں ‘آتی ہے۔
اس کے متعدد معانی ہیں جن کی تفصیل ؎حسب ذیل ہے۔
1۔علم بیان کے باب میں کلام میں کسی مشہور مسئلے حدیث، آیت قرآنی یا قصے یا مثل کسی اصطلاح علمی و فنی وغیرہ کی اشارہ کرنا جس کو سمجھے بغیر مطلب واضح نہ ہو۔
’صنعت شعری میں ’ تلمیح ‘کسی قصہ طلب واقعے سے مضمون پیدا کرنا کہلاتاہے۔
2۔ اشارہ، کنایہ۔
مثال:’تشبیہ ذات مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نور کی عجب تلمیح ہے۔‘
3.۔نفسیات ( شہوت انگیز، یا گندے خیالات پیدا کرنا، انگریزی: Suggestion۔۔۔۔۔
’انسانی تقلیدکی اکثر مثالیں حیوانات کی سادہ تقلید کے مقابلے میں بلحاظ اصلیت زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں یہ مختلف قسم کی پیچیدہ ذہنی فعلیتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں ان فعلیتوں میں سب سے بڑی وہ ہے جس کواصطلاحاً’تلمیح ‘کہتے ہیں۔ ‘
اِشارَہ، رَمز
علم بیان
کسی شعر میں تاریخی، مذہبی یا تہذیبی واقعہ کی طرف مختصر اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔
اردو میں اس کے لغوی معنی: اچٹتی نگاہ ڈالنا۔کلام میں کسی قصے کی طرف اشارہ کرنا۔
معیار اللغات میں اس کے معانی یہ بیان کیے گئے ہیں کہ وہ ایسی صنعت کا نام ہے جس میں کلام کسی قصہ مشہور یا مضمون مشہور پر مشتمل ہو۔
ہارمانک ہندی کوش ڈکشنری میں اس کے معانی اس طرح درج ہیں: کسی کہی ہوئی بات کی طرف مخفی انداز میں اشارہ کر نا۔وہ بات کوئی واقعہ یا حوالہ ہو۔
خلاصہ:
تلمیح کے لغوی معنی رمز اور اشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں کسی تاریخی واقعہ، مذہبی حکم، لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس انداز سے نظم کیا جائے کہ شعر کا مضمون پُرلطف اور زوردار ہو جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ان کو پڑھتے ہی پورا واقعہ، قصہ، معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں متحرک ہو کر اس کی سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم کر دیتا ہے۔ تلمیح کو حسن ِ شعر کا درجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جو نئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس سے ہی انھیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
تلمیح کی اصطلاحی تعریف:
اصطلاح میں ’تلمیح‘کی تعریف یہ ہے کہ شاعر و ادیب اپنے کلام و گفتگو میں کسی مسئلٔہ مشہور، کسی قصے، مثل شے اصطلاح نجوم، قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں کسی بات کی طرف اشارہ کرے، جس سے مکمل واقفیت کے بغیر معانی سمجھ میں ہی نہ آسکیں۔
نوٹ:
یہاں یہ بات بطور جملہ معترضہ یا وضاحتی نوٹ کے طور پر کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نثری ادب میں اس کی نظیریں خال خال ہی ملیں گی تاہم شعری ادب میں اس کی بہتات ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ہر استاذ شاعر نے ’تلمیحات ‘کے استعمال پر خصوصی توجہ دی اور ان واقعات کو زندۂ وجاوید بنادیا۔وہ میرؔ ہوں کہ غالبؔ، داغ ؔ ہوں کہ حسرت ؔو فراقؔ بلکہ اقبال کی شاعر ی کا تو ایک عظیم حصہ ہی اس کی نظیر بے نظیر ہے۔
تلمیح کی جامع تعریف:
ا ن سب تعریفوں کے بعد جامع تعریف یہ ہے کہ تلمیح وہ انداز کلام ہے جس میں کسی خیال کی ادا ئیگی کے لیے لطیف انداز میں کسی واقعے، قصے، داستان، مثل، اصطلا ح یا آیات و احادیث سے کوئی مرکب تعبیر اخذ کی گئی ہو یا کوئی لفظ تراشاگیا ہو یا شعر(کلام)کا مجموعی مفہوم ہی اس نو عیت کا ہو کہ ذہن کسی واقعے، قصے، داستان، مثل، اصطلاح یا آیت و حدیث کی طرف منتقل ہوجائے۔تلمیح کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کلام میں اشارہ لفظاً موجود ہو بلکہ معانی و مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر اشارہ پایا جارہا ہے تو ایسے کلام کو بھی تلمیح میں شمار کیا جائے گا بلکہ یہ تواور زیادہ لطیف و بلیغ تلمیح ہوگی، کیوں کہ اس میں استعارے کی شان پیدا ہوجائے گی۔
تلمیح کا آغاز و ارتقا:
ادبیات عالم میں تلمیح کا آغاز بہت قدیم زمانے سے ہے۔چنانچہ قدیم ادب اور زبان کی کتاب قرآن کریم نے اس کا سب سے پہلے استعمال کیا اور رہتی دنیا تک کے لیے اس کی نظیر ثبت کردی۔ چنانچہ ایک تجزیے کے مطابق قرآن کریم میں جتنی تمثیلیں، گزشتہ قوموں کے واقعات اور قصے ہیں ایک کثیر تعداد میں وہ سب تلمیحات ہیں او راحکام وشعائر کی آیات سے زیادہ کہیں ان کا استعمال ہوا ہے۔ یہ فصاحت و بلاغت کی ایکاعلی و اہم ضرورت کی تکمیل ہے۔اسی کی اہمیت و اعجاز ہے کہ قرآن کریم کے بعد ساری دنیا کے ادب میں اس کا استعمال کیا جانے لگا اور قلم کاروں نے مختصرانداز میں مافی الضمیر کی ادائے گی کے لیے اس کو اختیار کیا۔
ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’تلمیح علم بیان کی نہایت اہم صنعت ہے۔ اس کی قدامت اس طرح مسلم الثبوت ہے جیساکہ تمدن و معاشرت کی تاریخ۔ابتدائے آفرینش سے اس صنعت کا گہرا لگائو انسانی تمدن سے رہا ہے۔ ارتقاکی ہر منزل میں اس کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی جن قوموں میں الفاظ نہیں تھے وہ اپنے خیالات و جذبات کو سمجھانے کے لیے ہاتھ پائوں سے اشارہ کر تی تھیں اور جب انھیں زبان ملی تو انھوں نے اپنی حرکات و سکنات کو تلمیح کا نام دیا۔اس لیے کہ تلمیحات نے وہی کام کیا جو ان کے اشارے کرتے تھے۔‘
تلمیحات کی ضرورت:
تلمیح کی ضرورت کلام میں فصاحت و بلاغت اور حسن پیدا کر نے کے لیے ہوتی ہے۔اس سے مختصر انداز اور الفاظ میں بڑی بڑی باتیں بتادی جاتی ہیں اور ان حقائق کو سمو دیا جاتا ہے جنھیں بتانے اور سمجھانے کے لیے کئی کئی صفحات کی ضرورت پڑتی ہے۔نیز اس طرح سے شاعر اور فن کا ر کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم نے جا بجا تلمیحات کا استعمال کیا ہے اور اہل زبان کو ان واقعات کی جانب اشارہ کیا ہے جو ان سے پہلے ماسبق میں گزر چکے تھے۔نیز تلمیحات ہمیں بیجا لمبی لمبی تشریحوں سے بچاکر کفایت وقت، ایجاز اور تاثیر کا فیض پہنچاتی ہیں۔ عربی، فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ یہی بات ہے کہ اردوغزل نے تلمیح کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ اردوکے چھوٹے بڑے تمام شعرا کے ہاں اس کے استعمال کا رواج ملتاہے۔
ہماری شعری تلمیحات اکثر و بیشتر قرآن کریم سے مستعار لی گئیں ہیں بلکہ اس طرح سے تفسیر قرآن عظیم کے نئے در وا ہوئے ہیں۔اس طر ح کہ جب سامعین کوملائکہ، فسانۂ آدم، کشتیٔ نوح، کوہ طور کی تجلی، آگ، ابراہیم، اولاد، یوسف، اسماعیل، قربانی، زنان مصر، فرعون، سحر سامری، عصا ئے موسیٰ، خضر، آب حیات، مرغ سلیماں، بلقیس صبا، ابن مریم، مکہ مکرمہ، اصحاب فیل، ابو جہل، ابو لہب کے علاوہ دیگر عربی اقوام اور باشندوں کی زندگی کے متعلق سنیں گے تو ان کے من میں ان اشاراتی واقعات کی مکمل حقیقت جاننے کی طلب اور تڑپ ضرور پیدا ہوگی۔ چنانچہ وہ ضرور اس جانب متوجہ ہوں گے اور قرآن انھیں یا اس کے مذکورہ واقعات سمجھنے میں انھیں دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔ دوسری بات یہ کہ مطول تفسیر کے بجائے مختصر تفسیر ان اشاروں میں بسی ہوئی ہوتی ہے۔
تلمیحات کی اہمیت:
تلمیحات ادب کی جان ہیں خواہ نثر میں ہوں یا نظم میں ، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔ افادات سلیم میں لکھا ہے:
’تلمیحات بلاغت کا نشان ہیں۔ بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے نیز کم سے کم الفاظ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معانی سمجھے جائیں اور یہ بات تلمیحات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔چنانچہ جس زبان میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں، وہ بلاغت کے درجے سے گری ہوئی ہے۔‘
تلمیحات کے ذریعے شاعر کلام میں تاثیر پیدا کر تا ہے نیز اشعار کو شاندار، جان دار اور با وقار بناتا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک تلمیحی شعر غیر تلمیحی شعر کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ اور خوش نما ہوتا ہے۔ اسی طرح نثری کلام میں بھی اس کی کارفرمائی ہے۔تلمیحات کا کمال یہ بھی کہ وہ باذوق افراد و اشخاص کو چند ساعتوں میں پورے پس منظر سے آگاہ کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی قرآنی واقعے کا ذکر کسی شعر میں ہوا تو نہ صرف قرآن کی جانب سامع کا ذہن جائے گا بلکہ قرآن میں موجود اس قصے کا مذاکرہ بھی اس کے ذہن میں آجائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ تلمیح خود ایک شعری صنعت ہے۔یعنی اس کے بغیر اچھے اشعار کا وردو ممکن ہی نہیں۔ ورنہ تُک بندی کو کون شعر کہے گا۔صنعت تلمیح جہاں بذات خود ایک حسین صنعت ہے وہیں شعر میں یہ دوسری شعری صنعتوں کا حسن و جمال کی افزودگی کی بھی ضامن ہے۔اسی لیے بلا تامل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نثرو نظم اور دیگر اصناف سخن پر تلمیح جس قدر حاوی ہے کوئی اور صنعت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی بات سے اردو شعرو ادب میں تلمیح کی اہمیت و حیثیت کا تعین اور اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔
اردو شاعری میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:
ا ب ذیل میں اردو ادب میں موجود تلمیحات اور ان کے پس مناظر میں موجود واقعات/حکایتوں کی تفصیل ملاحظہ فرمایے:
حیدر علی آتش کا شعر ہے:
عاشق اس غیرت بلقیس، کا ہوں میں آتش
بام تک جس کے کبھی، مرغ سلیماں نہ گیا
اس شعر میں اشارہ ہے قصۂ بلقیس و سلیماں کی جانب۔جس کی ترجمانی قرآن کریم کی سورۃ نمل میں بالتفصیل کی گئی ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اس شعر میں آتش نمرو کی د تلمیح ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
واقہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام نے اپنے شہر کے سب سے بڑے بت کدے میں پتھر کی مورتوں کو توڑدیا پھوڑدیاتو اس سے پوری قوم میں غم و غصہ کا عالم بپا ہو گیا۔ سب لوگ حضرت کو برابھلا کہنے لگے۔ جب اس سے بھی کام نہ چلا تو آپ کو جلا ڈالنے کا فرمان جاری ہوا۔چنانچہ اس واقعے کاخلاصہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیاہے:
حرقوہٗ وانصرو اٰلھتکم ان کنتم فاعلینOسورۃ انبیا۔24
’اس کو جلا ڈالو اور اپنے اپنے خدائوں کو بچائو ؟اگر تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو۔‘
اس کے بعد متعدد تفاسیر و روایات میں موجود ہے کہ شاہی فرمان کے مطابق شہر سے سب سے بڑے چوک پر آسمانوں کو چھونے والی آگ جلائی گئی جس میں ’عشق ‘یعنی ’خلیل خدا‘بے خطر کود پڑا۔
آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
نامعلوم
اس شعر میں چاہ یوسف کی تلمیح کا استعمال ہے نیز اس میں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ان بھائیوں کی طرف جنھوں نے معصوم یوسف کو کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور رات روتے ہوئے گھر پہنچے۔بہانہ بنایا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔
سب رقیبوں سے ہے ناخوش پر زنان مصرسے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں
اس واقعے کو قرآن کریم نے سورۃ یوسف میں یوں بیان کیا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔فلما رأئینہ اکبر نہ وقطعن ایدھنَّ وقلنَ حٰش للّٰہِ ما ھذا بشراً اِن ھذا الا ملکٌ کریمٌOقالت فذالکن الذی لُمتُننی فیہ۔۔۔۔۔۔۔۔سورۃ یوسف۔31۔32
’جب انہوں (زنان مصر) نے اسے دیکھا۔ایک حسن کا شہکارتھا۔وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں۔ ۔۔۔۔حاشا للہ۔۔۔۔۔۔یہ مرد نہیں یہ فرشتوں کی انجمن کا کوئی شہکار ہے۔زلیخا بولی:’یہی ہے وہ شخص، جس کے متعلق تم مجھے طعنے دیا کر تی تھیں۔ ۔۔۔۔۔‘
غالب کا ایک اور شعر ہے:
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طور سینا پر صدائے حق سنی۔ ایک بار نہیں۔ ۔۔۔دو بار نہیں بلکہ متعدد بار۔ ۔۔۔پھر صدا دینے والے کے دیدار کا اشتیاق ہوا۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں:
ولماجآء موسیٰ لمیقٰتناو کلمہ ربُّہٗ قال ربی أَرنی انظرالیکج قال لن ترٰنی ولکن انظر الی الجبلِ فاِن ِاستقرمکانہ فسوف ترانیج فلماتجلیٰ ربہ للجبل جعلہٗ دکّاو خر موسیٰ صعقا۔۔۔۔۔Oسورۃ اعراف 143
’جب حضرت موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام وعدہ پورا کر کے اور اپنے رب کا کلمہ لے کر آئے۔انھوں نے پہا ڑ پر اپنے رب سے کہا: ’اے میرے رب مجھے اپنے تئیں دکھائیے۔‘فرمایا: ’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔البتہ پہاڑ کو دیکھیے اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو پھرمیری دید کا امکان ہے۔ ‘پھر جب پہاڑ پر موسیٰ کے رب نے تجلی ڈالی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسیٰ بے ہوش ہو گئے۔‘
مدن پال کا شعر ملاحظہ ہو:
پتھر تراش کر نہ بنا تاج اک نیا
فن کار کی جہان میں کٹتی ہیں انگلیاں
1653میں تاج محل تیار کروانے کے بعد بادشاہ نے مزدوروں کے ہاتھ کٹوادیے تاکہ کوئک اور تاج نہ بنا سکیں او راس کے تاج کی چمک دمک ماند نہ پڑ جائے۔۔۔۔۔۔۔
پتھر ابالتی رہی اک ماں تمام رات
بچے فریب کھا کے چٹائی پے سو گئے
ڈاکٹر نواز کا شعر ہے:
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
ان اشعار میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے ایک واقعے کی جانب لطیف سااشارہ کیا گیا ہے۔ مورخین لکھتے ہیں جوار مدینہ میں ایک قافلہ کہیں سے آیا اور وہیں ٹھیر گیا۔اسی قافلے کی ایک عورت رات میں اپنے بھوکے بچوں کو تسلّی دینے کے لیے چولہے پر پانی بھرے برتن کو گرم کرتی رہی اور بچے یہ سمجھتے رہے کہ ان کی ماں ان کے لیے کچھ بنا رہی ہے۔مگر پھر وہ سو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گشت کے دوران میں یہ صورت حال دیکھی تو تڑپ گئے اور فوراً اپنے غلام کو لے کر بیت المال آئے اور وہاں سے چند بورے اپنی اور غلام کی پیٹھ پر لاد کر اس مقام پر آئے اور سامان اس ماں کے حوالے کیا جو بچو ں کو فریب دے کر سلا رہی تھی۔
Oافتخار عارف کا شعر ہے:
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانہ ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ پرانا ہے
کربلا کا تمام منظر اس شعر میں آگیا۔نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہر فرات سے پانی لے کر آتے ہیں کہ دشمنوں کا تیرے اسے پھاڑ کر تمام پانی باہر نکال دیتے ہیں۔ اسی پیاس، اسی گھرانے اور اسی دشت کا قصہ ہے اور مشکیز ے سے تیر کے پرانے رشتے کا حال اس میں بیان کیا گیا۔
ناصر کاظمی کا شعر :
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
قرآن اس تلمیح کا حکائی پس منظر اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کر تا ہے:
قِیلَ لہا اُدخُلی الصَّرْح َ فلما رأتہٗ حَسِبَتْہٗ لُجَّۃً وَ کَشَفَتْ عن سَاقیھاج قال انہ صرحٌ مُّمرِّدٌ مِّن قَواریرَ۔ ۔۔۔۔O النمل:44
اس(بلقیس)سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجائو۔جب اس نے(راستے میں )دیکھاتو اس نے اسے پانی سمجھااور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ اس سے کہا گیا یہ پانی نہیں باریک شیشہ ہے( جو حوض پر بچھایا گیا ہے۔)
نثر میں تلمیحات اور ان کا حکائی پس منظر:
شعر ی ادب کے علاوہ نثر میں بھی اردو قلم کاروں نے تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن میں انتظار حسین کا نام سر فہرست ہے۔انھوں نے خدا کی بستی اور آخری آدمی جیسی کہانیو ں میں قوم بنی اسرائیل کے واقعات کو جابہ جا ان کا استعمال کیا ہے۔
عہدِ حاضر میں ابن کنول کے نثری فن ہاروں میں یہ جھلک نظر آتی ہے چنانچہ ان کے افسانے ’صرف ایک شب کا فاصلہ‘ میں انہوں نے اصحاب کہف کے واقعہ تلمیح کیا ہے۔ قرآن کریم کے جامع الفاظ یوں ہیں:
قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوماً اور بعض یوم ج۔۔۔۔الکہف:19
’ان میں سے کسی نے کہا کہ ہم ایک دن یا چند ایام سوئے ہیں۔ ‘
سویٹ ہوم‘ابن کنول کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں شہر مکہ کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔وہی شہر مکہ جو ماضی میں دیار بے آب و گیا ہ کے نام سے معروف تھا۔وہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے لخت جگر کووہاں چھوڑ کر آئے اور پھر ایک مدت بعد وہا ں شہر آباد ہوگیا جسے عالمی مرکز ہونے کا شرف حاصل ہوا۔وہ اتنا خوب صورت اور جاذب عالم شہر بنا کہ اب اسے ساری دنیا کا’سویٹ ہوم‘کہا جاتا ہے۔وہاں اطراف واکناف عالم سے قافلے کے قافلے کھنچے چلے آتے ہیں اور جنت کا سا سکون حاصل کر تے ہیں۔ قرآن کریم نے شہر مکہ کی تعمیر، تشکیل، وہاں خانہ خدا کی بنیاد کا منصوبہ اور عمارت کا قیام نہایت تفصیل سے درج ہے۔اسی افسانے میں ابن کنول نے ’ابابیل‘والی تلمیح کا استعمال کیا ہے۔
ابابیل ایسا استعارہ ہے جسے تاریخ مکہ کا ایک اہم موڑمانا جاتا ہے۔اس کا حکائی پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں واقع خانہ خدا کی مقبولیت جب چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور بندگان خدااس کی زیارت کو جوق درجوق آنے لگے تو والیٔ یمن ابرہہ کو بہت ناگوار گزرا اور اس نے اپنے ملک میں شبیہ خانہ کعبہ بنا کر عوام کو اس کی جانب رخ کر نے اور اس کے طواف کے احکام صادر کر دیئے۔ مگراس کا یہ حکم نامہ ہوا میں اڑ کر رہ گیا، مزید یہ کہ اسکے کعبہ کو لوگوں نے برباد کر دیا۔ ان واقعات نے اس کا غصہ آسمانوں سے بھی اونچا کر دیا اوراس نے خانۂ کعبہ کے انہدام کا فیصلہ کر لیا۔وہ مکہ آبھی گیا اور بیرون مکہ پڑائو ڈال کر ناپاک منصوبے بنانے لگا۔والیان و محافظین کعبہ اسے اس کے مالک کے حوالے کر کے جنگلوں او رپہاڑوں میں چلے گئے۔پھر کرشمۂ قدرت سب نےدیکھا۔ ۔۔۔۔۔ایک طرف سے ابابیلوں کا لشکر آیا جو غنیم پر حملہ آور ہو گیا۔ان کے پنجوں اور چونچوں کی کنکریاں دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتارتی چلی گئیں۔ ۔۔۔ساری فوج تتر بتر ہو کر پسپا ہو گئی۔قرآن کریم نے ’سورۃ فیل‘ میں اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے دشمنوں کی تباہی کو ’کھائے ہوئے بھوسے کی* مانند ہونا‘جیسی تمثیل بخشی ہے۔
******
معاون کتب و رسائل:
(1)قرآن کریم
(2)شعرالعجم۔مولانا شبلی نعمانی۔دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی۔اعظم گڑھ۔جنوری1991
(3)عجائب القصص (اردو ترجمہ)ڈاکٹر دائود ترمذی۔ مجلس ترقی ادب۔لاہور۔1965
(4)اساس نفسیات، (اردو ترجمہ)معتضد ولی الرحمان۔مکتبہ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد۔1932
(5)فیروز اللغات جامع۔(جدید ایڈیشن)مولوی فیروز الدین۔فیروز سنز۔لاہور۔راولپنڈی۔کراچی۔2000
(6)ارد و شاعری میں اسلامی تلمیحات:عطاء الرحمان صدیقی ندوی۔عالمی رابطۂ ادب اسلامی، لکھنؤ۔2004
(7)اردو ادب میں تلمیحات۔ڈاکٹر مصاحب علی صدیقی۔ کتب خانہ علم و دانش۔حیدرآباد۔2003
(8)افادات سلیم۔پرو فیسر وحیدالدین سلیم۔مرکنٹائل پریس۔لاہور۔1960
(9)اردو رموز۔مولوی رفاقت علی۔مکتبہ تعلیم۔ کان پور۔1978
(10)قصص القرآن۔مولانا حفظ الرحما ن سیوہاروی۔مکتبہ برہان، اردو بازار۔ دہلی
(11)سہ ماہی صفا۔(ادب اسلامی نمبر)ایڈیٹرمولانا محمد رضوان القاسمی۔دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد۔1996
٭٭٭٭٭
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے عالمی تنقیدی پروگرام صنعت تلمیح پر پیش کیا گیا۔
یہ پروگرام29دسمبر 2018
بروز ہفتہ پاکستانی وقت شام 7بجے
ہندوستانی وقت کے مطابق شام7:30 بجے
اس صنعت میں کم از کم پانچ اشعار اور زیادہ سے زیادہ دس اشعار سے پیش کرنے کا قاعدہ بنایا گیا۔
یا
ایک مکمل غزل تاکہ ناقدین حضرات آسانی سے اپنی ناقدانہ رائے کا اظہار کرسکیں ۔
پروگرام میں
شفاعت فہیم بھارت
مسعود حساس کویت
حکیم ایم ایچ مُرشد پنجاب پاکستان نے ہر شاعر کو اس کی مہارت کی داد بھی دی اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ نقدونظر سے نوازا جس پر ادارہ ان کا تہِ دل سے شکرگزار ہے۔
اس پروگرام کی مسند صدارت پر ماورا سید کراچی پاکستان متمکن ہوئیں۔
ہم آسماں سے نکالے گئے تھےعجلت میں
روا روی میں مقدر اٹھانا بھول گئے
احمد عقیل حضرو، اٹک پاکستان مہمانِ خصوصی کی نشست پر براجمان ہوئے۔
سانپ کاٹے مگر نہ اُف نکلے
تجھ کو معلوم ہے وفا کیا ہے
اعزازی مہمان کی نشست پر
جابر چوہدری بھارت تشریف فرما ہوئے
خطرہ نہیں رہا کوئی درپیش کیوں کہ اب
دارا نہیں رہا وہ جامِ جہاں نما
حمد سے پروگرام کی ابتدا جناب توصیف ترنل ہانگ کانگ نے کی بعدازاں توصیف ترنل اور جناب احمدمنیب نے نعت پیش کرنے کی سعادت پائی۔
شعراء کرام کا نمونہء کلام ملاحظہ ہو
احمد منیب لاہور پاکستان
گریہ سے میں یعقوب ہوا اے مرے ہمدم
دیدار کنم دیدہء تر باز نہ کردم
صابر جاذب لٙیّٙہ پاکستان
قابیل کو پھر قتل کی مہلت نہیں دیں گے
ہابیل پہ اب نوحہء آدم نہیں ہو گا
اصغر شمیم کولکتا انڈیا
سر پٹکتی رہی موجِ فرات
پیاس اصغر کی بجھا پائی نہیں
اطہر حفیظ فراز فیصل آباد پاکستان
پھر ہاتھ زلیخا کے اشاروں پہ کٹے ہیں
اس بار تو یوسف مرے اشعار ہوئے تھے
جعفر بڈھانوی بھارت
زندگی جس کی غزالی ہو گی
اس کی ہر بات نرالی ہو گی
عامر حسنی ملائیشیا
ایمان کی تعمیر تھے ہاں قائد اعظم
تنظیم کی تفسیر تھے ہاں قائدِ اعظم
غزالہ تبسم غزال کوئٹہ پاکستان
شریعت چاہنا ہے کہ عمل کچھ ہے اطاعت کچھ
ہتھیلی پر جو سر لائے اطاعت ہو تو ایسی ہو
غزالہ انجم بورے والا پاکستان
کبھی یہ تخت چھڑوائے کبھی تیشے بھی چلوائے
کبھی آشفتگی میں عشق شب بھر رقص کرتا ہے
مختار تلہری بھارت
غیر ممکن ہے کہ دیدار کا معیار گرے
خواہ انگلی مری کٹ کٹ کے کئی بار گرے
پروگرام کے آخر پر بانی و چیئرمین ادارہ، صدر مشاعرہ اور آرگنائزر مجلس مشاعرہ نے سب شعرا حاضرین اور ناقدین حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ یاد رہے کہ جناب محمد زبیر اور احمر جان محترم پروگرام میں باقاعدہ حاضر رہے اور شعرا کو برابر داد سے نوازتے رہے۔ اللہ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین