ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا
پروگرام نمبر 185 بعنوان درصنعت طباق/ تضاد
مورخہ22دسمبر2018
محترم قارئین!
زبان پہلے ہے اور قواعد بعد میں۔ کیونکہ زبان سے ہی قواعد و ضوابط وضع کیے گئے ہیں۔ چنانچہ باوجود معلوم ہونے کے شعرا صوتی تنافر، تقبل ردیفین وغیرہم جیسے عیوب سے اپنے کلام کو کلیةٙٙ مُبرا نہیں کر پاتے کیونکہ ان میں الجھ کر صحتِ مضمون متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شاعر اس قد سے نہیں ماپا جاتا کہ اس نے قواعد کی کس حد تک پاسداری کی ہے بلکہ اس کا قد موزونیت اور مضامین کی ندرتِ بیان سے ماپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
قواعد ارتقاءِ لسانیات کے ساتھ ساتھ متروک یا وضع ہوتے رہتے ہیں۔
ہر ایک شاعر اپنے کلام میں حسن پیدا کرنے لیے کہیں تشبیہ سے کام لیتا ہے تو کبھی شعر کو استعارہ کا زیور پہناتا ہے، کبھی صنعت اعداد کے رنگ میں رنگین کرتا ہے تو کہیں صنعت تلمیح کا سہارا لیتا ہے لیکن روایت و درایت کا مطالعہ زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات اسے اپنے کلام کے محاسن و عیوب کا خود بھی علم نہیں ہوپاتا۔ ہر شاعر کے اشعار میں کسی نہ کسی صنعت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔آئیے تھوڑی سی آگاہی ہو جائے۔
صنعتی شاعری کے بارہ میں معلومات سب سے زیادہ جدید اور قدیم مرثیہ نگاری میں ملتی ہیں۔
شاعری میں صنعتوں کا استعمال زمانہ قدیم سے ہی ہوتا آ رہا ہے ، مگر تمام صنعتوں کا نہیں ، اُن قدیم صنعتوں میں سے، 3 صنعتوں کے ناموں کا حوالہ ملتا ہے۔ باقی 17 صنعتوں کے اسما بھی احباب کی خدمت میں آگاہی کے لیے پیش ہیں:
1 ) – صنعتِ اہمال
2 ) – صنعتِ لزوم مالایلزم
3 ) – صنعتِ ہُما
4) – صنعتِ ابہام
5) – صنعتِ مُبالغہ
6) – صنعتِ حُسن التعلیل
7)- صنعتِ طباق
8 ) – صنعتِ مراعات النظیر
9) – صنعتِ لف و نشر
10) – صنعتِ مہملہ
11) ـ صنعتِ تلمیح
12) – صنعتِ معاد
13) -صنعتِ رجوع
14) – صنعتِ ترصیح
15) – صنعتِ تنسق الصفات
16)- ـ صنعتِ سیاق اعداد
17) -ـ صنعتِ ذوقافیتین و ذوالقوافی
18) – صنعتِ جمعیت الفاظ
19) – صنعتِ تضاد
20)- صنعتِ ضرب اُلمثل
21)_ صنعتِ توشیع
صنعتی شاعری، در حقیقت شاعری میں صنعتوں کے استعمال کو کہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مصرع صنعت میں ہو ، اور یہ بھی ضروری نہیں ک ایک مصرع یا ایک شعر میں ایک ہی صنعت ہو . ایک مصرع میں دو صنعات بھی ہو سکتی ہیں۔
،، صنعتِ تضاد ،،
یہ وہ صنعت ہے جس میں شاعر ، ایک مصرع یا شعر میں ، مُتضاد الفاظ کا استعمال کرے، ….مثلاً …. آقا کے ساتھ غُلام ، پُھول کے ساتھ کانٹے ، وغیرہ کا استعمال ،، ،، صنعتِ تضاد ،، کہلاتا ہے۔ مثلا:
شاھانِ خلق سب اسی در کے فقیر ہیں
——————————–
آگے سبھوں کے شاہِ حجازی کھڑے ہوئے
پہچھے صفیں جما کے نمازی کھڑے ہوئے
————————————-
جن کے قدم تلے ہے سدا سیر غرب و شرق
————————————-
جب سب سے مل چُکا تو کیا حُر نے یہ کلام
اُمید وار حرب کی رخصت کا ہے غُلام
————————————
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہرِ منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گُلِ تر سے ملا دوں
————————————–
بھر بھر کے آبِ سرد کے رکھدو ھوا میں جام
لبریز آبِ گرم کے کر دو سبو تمام
————————————–
شورِ دھل سے حشر تھا افلاک کے تلے
مُردے بھی ڈر کے چونک پڑے خاک کے تلے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مصرع یا شعر میں ایک سے زیادہ صنعتوں کا استعمال ہو سکتا ہے؟ تو اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں:
طے کر چُکا جو منزلِ شب کاروان صبح
ھونے لگے اُفق سے ھویدا نشانِ صبح
گردوں سے کوچ کرنے لگے اختران صبح
ہر سُو ھوئی بلند صدائے اذانِ صُبح
پنہاں نظر سے روئے شبِ تار ھو گیا
عالم تمام مطلعِ انوار ھو گیا
اب دیکھئے کہ اس میں …… منزل ، کاروان ، طے کر چکا ، نشان ، ان کلمات میں صنعت ،، مراعات النظیر ،، ہے ، شب ، اور صبح میں ،،صنعتِ تضاد ہے ، تار اور انوار میں تضاد ہے ، او ر آخری مصرع میں ، مطلع ، کا لفظ ، ذو معنٰی ہے، یہ مطلع مرثیے کا ہے یہ صنعتِ ابہام کا رنگ ہے ، میں اس بات کو یہاں استعارہ اور تشبیہ سے قطع نظر کرتا ہوں۔
آہن میں مثلِ جوھرِ شمشیر سب ہیں غرق
شملے ہیں زیبِ دوش عمامے ہیں زیبِ فرق
نعرے جو مثلِ رعد تو گھوڑے مثالِ برق
جن کے قدم تلے ہے سدا سیر غرب و شرق
آھو کا اُن کی چال سے کیا زور چل سکے
ان سے سمند وھم نہ آگے نکل سکے
جوھرِآہن ، شمشیر ، مراعات النظیر ، شملے ہیں دوش ،، عمامے فرق ؛؛ رعد ،، برق .. مراعات النظیر ،، غرب و شرق ،، ،،صنعتِ تضاد ،،
سمندر وھم استعارہ ،، شملے ہیں زیبِ دوش عمامے ہیں زیبِ فرق ،، صنعتِ مبالغہ ،،
قارئین مختصرا عرض ہے کہ ان صنعات کا استعمال زیادہ تر مرثیہ نگاری میں ملتا ہے۔ مفید ہو گا اگر دوست احباب وقت نکال کر مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کریں:
(1) – موازنہ انیس و دبیر —— مولانا شبلی نعمانی
(2) – جواب از موازنہ انیس و دبیر —— سید عابد علی عابد ، (مجلسِ ترقیء اُردو ادب)
(3) – مرثیہ انیس کے کلام کا مطبوعہ ،، مُنشی نول کشور ، 1882 کے ایڈیشن سے
(4) – مولانا حالی کی مُقدمہ شاعری ،
(5) – ثاقب لکھنوی کی تالیف ،، حیاتِ دبیر ،، المیزان ،، ایک نایاب کتاب ،
(6) – تالیف نضیر الحسن فوق……….. ،، المیزان ،،
(7) – ،، دبیرِ عجم ،، تالیف پروفیسر اصغر علی روحی ( اسلامیہ کالج لاھور)
(8) – ایک رسالہ ناسخ نے کان پور سے شعلہء کامل کے نام سے شائع کیا۔
“صنعتی شاعری ” کو بہت کم لوگ بہت زیادہ جانتے ھیں ۔ شعرا کی اکثریت بھی ناواقف ھے۔ اور وہ یوں کہ اس قسم کی شاعری کا رواج قدیم شاعری میں زیادہ تھا، جو معدوم ہوتے ہوتے اب تقریبا” بالکل ھی ناپید ھے۔ ان روایات کو دوبارہ زندہ کرنے کا بیڑہ ہمارے گروپ "دی بیسٹ اُردو پوئٹری" نے اٹھایا ہے۔
ماقبل صنعت "واسع الشفتین" اور "صنعتِ اعداد" پر منفرد نوعیت کا ایک ایک پروگرام ہو چکا ہے۔ اب یہ پروگرام در "صنعت طباق" ہوا جس کی صدارت کولکتہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک استاد شاعر محترم اصغر شمیم نے فرمائی۔ نظامت محترمہ ماورا سید صاحبہ نے بہت ہی خوب صورت انداز میں نبھائی اور شروع سے آخر تک پروگرام کو بہترین انداز میں چلایا۔
اس پروگرام کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی دو نشستیں تھیں پہلی نشست میں شعرا نے صنعت طباق میں نمونہء کلام پیش فرمایا اور دوسری نشست میں چھ شعراء کرام نے اپنی تین تین غزلیں نقد و نظر کے لیے پیش کیں۔ نقاد حضرات میں میرے انتہائی محترم جناب ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب، محترم کے ایچ مرشد صاحب اور محترم مسعود حساس صاحب شامل ہیں۔
شعراء کرام نے اپنے اشعار پیش کیے اور داد وصول کی۔ نمونہء کلام حاضر خدمت ہے:
ماوراسید صاحبہ
روشنی روٹھ گئی تھی دل سے
دل اندھیرے نے سجایا سرِ شام
جناب جعفر عباس بڈھانوی صاحب
ڈھلے سورج چلے آتے ہیں وہ اپنے ٹھکانوں میں
پرندے کب رہا کرتے ہیں ہر دم آشیانوں میں
محترمہ مینا نقوی
حیات ختم ہوئی موت کی ہوئی آمد
یہ وہ سفر ہے جہاں کوئی ہم سفر بھی نہیں
جناب احمد عقیل
یوں کرامات کا اظہار بھی ہو سکتا ہے
اک نہیں میں کہیں اقرار بھی ہو سکتا ہے
جناب احمد منیب
ظلمتیں یوں رگوں میں اُتری ہیں
نور کو آنکھ اب ترستی ہے
محترم صابر جاذب
لکھتا ہوں اسے ذہن کی تختی پہ ہمیشہ
جو بات سمجھتا ہوں بھلانے کے لیے ہے
صدر مجلس جناب اصغر شمیم
موت نے بھی جب تجھے ٹھکرا دیا اصغر شمیم
کیا کرے گا پھر بتا اس زندگی سے روٹھ کر
اس کے بعد انہی چھ شعراء نے اپنی تین تین غزلیں تنقید کے لیے پیش کیں اور اس طرح یہ منفرد پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔
محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب اور عزت مآب مرشد صاحب نے ہر شاعر کے کلام پر قیمتی نقد و نظر سے نوازا۔
آخر پر صدر مجلس نے خطبہء صدارت میں سب کا شکریہ ادا کیا۔
ناظم مشاعرہ محترمہ ماورا سید اور آرگنائزر پروگرام خاکسار راقم الحروف نے جملہ شعراء کرام اور حاضرین کا فرداٙٙ فرداٙٙ شکریہ ادا کیا۔
چیئرمین ادارہ محترم توصیف ترنل صاحب نے پروگرام کی کامیابی کا اعلان کیا اور سب احباب کو مبارکباد دی۔
ایک اہم اور خوش آئند بات یہ تھی کہ حاضرین میں محترم ڈاکٹر علمدار عدم اور محترم فانی صاحب اپنی موجودگی کا اظہار گاہے گاہے دوران مشاعرہ بھی فرماتے رہے۔ شعراء کی حوصلہ افزائی پر ہم سب ان کے ممنون ہیں۔
پروگرام کی روایت کے مطابق پروگرام اتوار کی شام تک چلتا رہے گا اور نقاد حضرات اپنی قیمتی آرا سے شعرا اور دیگر گروپ ممبران کو نوازتے رہیں گے۔