ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں
پروگرام نمبر 187بعنوان : کرپشن
جدید دور کی لعنتوں میں سے ایک لعنت ہے کرپشن ۔۔جو ہمارے ملک کو گھن کی طرح کھائے جارہی ہے ۔ آزادی سے قبل انگریزوں کی حکومت تھی ۔پتا نہیں انگریزوں کے دور حکومت میں کیا پوزیشن رہی ہوگی مگر آزادی کے بعد ہم اور آزاد ہو گئے بس یوں سمجھ لو،
دھوئے گئے ہیں اتنے کہ ہم پاک ہوگئے
رشوت ستانی نے ہر اس محکمے میں پنجے گاڑ دیے ہیں کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔محکمہ ڈاک وتار میں ،ریلوے میں ،ٹیلیفون و ٹیلیکوم میں ،اس کی انتہا یہ کہ محکمہ تعلیم میں بھی اس کا بول بالا ہے ۔۔۔کرپشن کے جہاں بہت سے تاریک پہلو ہیں وہیں اس کی بدترین صورت حال یہ ہے کہ حق دار کا حق مارا جاتا ہے ۔آج کتنے قابل اور لائق فائق نوجوان بے روزگار ہیں جبکہ رشوت کے بل پر نااہل نہ صرف محکموں میں ملازم ہوگئے ہیں بلکہ ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں ۔ کسی بھی شعبے میں جائیے اعلیٰ افسران رشوت دے کر ترقی کے مدارج طے کر رہے ہیں اور یہی افسران رشوت لے کر نوجوانوں کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں ۔اونچے عہدے اور کرسی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ،دو دو اور تین تین مارکس شیٹس والے امید واروں کو ملازمتوں کا تحفہ رشوت کے عوض طشت میں سجا کر دے رہے ہیں ۔کیا ہوگیا ہے ہمارے ملک کو ؟کیا یہی ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے والے ہیں ؟ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نوٹ کے بدلے ووٹ حاصل کرنے والے لیڈران پہنچ رہے ہیں ۔پھر یہ ممبران رشوت کے بل پر وزیر بن جاتے ہیں یا کسی محکمے کے ایکزیکیٹو ڈائریکٹر ، گویا ان کے لیے در رشوت کھل جاتا ہے ۔ہر الیکشن کے موقع پر ٹکٹوں کے لیے بولیں لگتی ہیں ۔وزارتوں میں رہ کر میں رہ کر اپنے محکموں کی فلاح و بہبود کی بجائے اسے رشوت کا اڈہ بنا دیتے ہیں ۔۔بتائے ! کون ہے یہ ہرشد مہتا ؟ کیا ہے یہ ٹو جی اسپکٹرم گھوٹالہ، چارہ گھوٹالہ،بوفورس اسکنڈل،سمینٹ اسکنڈل ،رشوت کے بل پر شہادتیں بک رہی ہیں ،جھوٹے گواہ پیش کئے جارہے ہیں ۔
ہمارا نظریہ بدل چکا ہے ،ہمارا انداز فکر بدل چکا ہے ۔ہماری قدریں بدل چکی ہیں ۔رشوت ہمارے ماحول میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ ہم اسے عیب نہیں سمجھ رہے ۔ہم اسے اپنی آسانی کے لیے بلکہ تن آسانی کے لیے اسے گلے لگا رہے ہیں ۔ہم ریلوے کی قطار میں کھڑے رہنا نہیں چاہتے اس لئے بلیک کے ٹکٹ خریدتے ہیں ۔پاسپورٹ آفس کے چکر لگانا نہیں چاہتے اس لیے رشوت دے کر پاسپورٹ بنوارہے ہیں ۔رسوئی گیس کے لیے انتظار نہیں کرنا چاہتے اس لیے گیس سلنڈر رشوت دے کر خرید رہے ہیں ۔کیا ہم اتنے ناچار اور مجبور ہیں ؟ ہمیں قطار سے بیر اور انتظار سے گھٹن ہوتی ہے ۔ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں ۔مال و دولت کی ریل پیل ہے ۔ہم بس کی بجائے آٹو یا ٹیکسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ذرا آگے بڑھیں تو موٹر سائیکل یا نانو کو اپنے آنگن میں پارک کرتے نظر آئیں گے ۔ٹریفک کے قوانین ہماری جیب میں پڑے رہتے ہیں ۔محکمہ تعلیم میں اپنے فرائض منصبی اچھی طرح انجام نہیں دیتے کیونکہ ہم پر گرفت کرنے والے ہماری گرفت میں ہیں ۔ہمارا کوئی محاسبہ کرنے والا نہیں ۔ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔
رشوت کا بازار گرم ہے ۔جنتا اگر چاہے تو یہ گرمئی بازار سرد پڑسکتی ہے ۔عوام کیا نہیں کرسکتے ! یہ امریکہ میں جنگ آزادی کا بگل بجا سکتے ہیں ۔فرانس میں انقلاب لاسکتے ہیں ۔بر صغیر کو انگریزوں کے پنجے سے چھڑا سکتے ہیں تو کیا رشوت کے چنگل سے چھڑا نہیں سکتے !! بالکل چھڑا سکتے ہیں اگر ہم اپنے مفادات کو ترجیح نہ دیں ،اگر اس لعنت کو نعمت نہ سمجھیں ۔ہم اپنی قابلیت کے بھروسے پر ملازمت حاصل کریں نہ کہ رشوت کے بل پر ۔ہم قطار و انتظار کی صعوبتیں جھیلیں ۔کرپشن رک سکتا ہے بھائی اگر اس کی پہل ہم اپنی ذات سے کریں ۔۔۔قانون کی پاسداری کریں ،خاطی افسران پر نظر رکھیں ۔ ذرائع ابلاغ کو الرٹ رہنا ہوگا ۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو دیانت داری سے کام لینا ہوگا ۔کرپشن رک سکتا ہے بھائی ۔۔ اگر نوجوان میدان میں آئیں ،طلبہ میدان میں آئیں ،خواتین کمر بستہ ہوں ۔نوجوانوں نے انقلابات برپا کیے ہیں انھیں چاہیے کہ رشوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں یہی وقت کی پکار ہے ۔رشوت خور ملک کی اقتصادیات کو گھن کی طرح کھائے جارہے ہیں ۔عوام کی کمائی پر بے نام جائیداد بنائے جارہے ہیں ۔سوئیز بینکوں میں ان کے اکاؤنٹ ہیں ۔وہ رشوت کے بل پر عیش کررہے ہیں اور غریب نان جویں کو ترس رہے ہیں ۔یہ نابرابری دیش کو کھوکھلا کر رہی ہے۔کرپشن رک سکتا ہے بھائی ۔۔اگر ہم اسے سنجیدگی سے لیں ،آنکھیں کھلی رکھیں ۔۔ خود بھی اس لعنت سے بچیں اور دوسروں کو بھی تلقین کریں ۔خدارا اس پر عمل نہ کریں ،
لے کے رشوت پھنس گیا تو ،دے کے رشوت چھوٹ جا