ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری،برقی دنیا کا واحد ادارہ ہے جس نے تسلسل سے 179 انفرادیت سے بھر پور پروگرام پیش کئے ۔نہ صرف شعری بلکہ نثری اصناف پر مشتمل پروگرام بھی ادارہ پیش کر چکا ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے ۔دیگر گروپس واہ واہی اور روایتی انداز میں نیرس،پھیکے اور بجھے بجھے پروگرام ،وہ شاعری جس میں گہرائی نہ گیرائی ،نہ معنی آفرینی ۔۔ حد یہ کہ تک بندی کو بھی داد وتحسین سے نوازتے رہے کہ یہ شاعر کا حق ہے ،ورنہ اس کا کلیجہ خون ہوگا ،وہ قلم توڑدے گا اور روشنائی منجمد ہوجائے گی ،حتیٰ کہ ادب میں جمود در آئے گا ۔نئی نسل پر قدغن اور ان کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہوگا ۔۔۔ مگر ۔۔ واہ رے۔۔توصیف سر۔۔انہوں نے اس اصول کو بالائے طاق رکھا ۔۔بقول اقبال ،
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
انہوں نے تمام تر پروگرام برائے تنقید پیش کئے ۔وہ پرورش لوح و قلم کرتے رہے ،وہ جنوں کی حکایت خونچکاں لکھتے رہے گرچہ کہ اس میں ہاتھ قلم ہوئے ۔۔۔جو کہ ان کے ہم قدم تھے بیک فٹ پر چلے گئے ۔۔۔ہر ناراض لیڈر جس طرح اپنی پارٹی بنالیتا ہے انہوں نے بھی گروپ تشکیل دیے ۔۔۔آئیڈیا ہیک کیے مگر زرخیز ذہن ، اختراعی مزاج اور یونیک آئیڈیالوجی جو توصیف سر کا طرہ امتیاز ہے اس تک رسائی کیوں کر ممکن تھی ۔۔ بہرحال اصل اصل ہے اور نقل نقل ۔۔ ملمع کاری میں کندن سی دمک کہاں !!
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا یہ کاروں توصیف سرکی رہنمائی میں یوں ہی چلتا رہا کہ لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا اور دستور دنیا کے مصداق ایک آتا ہے ایک جاتا ہے کا لامتناہی سلسلہ ابتدا سے چلتا رہا اور کچھ تو محفل میں جا ہی ڈھونڈتے رہ گئے ۔۔ مگر توصیف سرنے ہمت نہیں ہاری بلکہ ہربار ،ایک نئے جوش ،نئے ولولے ،نئے عزم کے ساتھ یونیک،منفرد ،ایک سے بڑھ کر ایک پروگرام ترتیب دیتے رہے جو برائے تنقید ہوتے کہ اچھے اچھوں کا پتہ پانی ہوجاتا اور حاسدوں کے دانت کھٹے کرتے گئے ۔ ۔۔ٹیم ورک ایسا کہ ہرلکھاری اپنی جگہ فٹ،نولکھا ہار میں ہر نگینہ پوری آب وتاب کے ساتھ جگمگاتا رہا ،اور دیگر کی آنکھوں کو خیرہ کرتا رہا ۔۔۔ یہی سالار کارواں کی خصوصیت ہے کہ ۔ ۔۔کس سے ،کب اور کون سا کام لیا جائے ۔انتھک محنت ،تدبراور قوت فیصلہ یہ عناصر توصیف سرمیں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ،اقبال کے الفاظ میں ،
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
ادارے کا پروگرام 179بھی انفرادیت سے بھر پور رہا کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔مورخہ 10نومبر 18کو شعراء نے اپنا کلام پیش کیا جو صرف داد وتحسین اور واہ واہی کے لیے مختص تھا ۔ اقصائے عالم کے شعراء نے اپنی بہترین تخلیقات پیش کیں ۔پروگرام ہذا کے آرگنائزر تھے عزت مآب توصیف سر۔۔جبکہ مسند صدارت ذوالفقار نقوی صاحب کو سونپی گئی ۔۔۔۔ایک نیا تجربہ وہ بھی کامیاب تجربہ جو زرخیز ذہن اور اختراعی مزاج رکھنے والے توصیف سر کا عطا کردہ تھا کہ بزم کی کارروائی منظم طریقے سے ،میکانکی انداز میں ،تفویض کیے گئے نظام الاوقات کے مطابق چلتی رہی اس طور کہ اس میں ذرہ برابر جھول،سرموبدانتظامی یا عدم تسلسل کا دوردراز تک شائبہ نہ تھا ۔ایک منظم طریقے سے پروگرام ،شعراء کے کلام ،دادوتحسین و خطبۂ صدارت پر بحسن وخوبی اختتام پذیر ہوا ۔۔۔یہ اپنے آپ میں ریکارڈ اور دیگر کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔۔ساتھ ہی فیس بک پر لائیو ٹیلی کاسٹ توصیف سر کی مہارت اور برقی میڈیا پر ان کی پکڑ کی منہ بولتی تصویر ہے ۔۔یہاں ان کا ایک اور جوہر کھلتا ہے پتہ نہیں ان صاحب نے اور کتنے جوہر چھپا رکھے ہیں !!!
دوسرے دن بروز اتوار مورخہ 11نومبر 18 کو تنقیدی اجلاس منعقد ہوا ۔۔جس کے فرائض مسعود حساس صاحب وشفاعت فہیم صاحب نے بخوبی انجام دیے۔کلام کے معائب و محاسن کو اجاگر کر تنقید کا حق ادا کر دیا جس کی جتنی بھی سراہنا کی جائے کم ہے ۔ایسے منفرد ،پرمغز ،معنی خیز اور سیر حاصل تبصرے برقی دنیا میں عنقا ہیں اور یہ صرف ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا خاصہ اور لاثانی وصف ہے جو اسے دوسرے گروپس سے ممیز کرتا ہے ۔
ذیل میں پیش کئے گئے کلام کے نمونے ملاحظہ ہوں
کل تلک پیش ِ نظر رہتی تھی صورت تیری
اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا
10:00
ذوالفقار نقوی
نعت
جمیل احمد لاہور پاکستان
7:00
“وہ.ممدوحِ جہاں بعد از خدا کیا شان ہے پائی
انہیں.بخشی گئی ہے ظاہر و باطن کی رعنائی”
نعت
تری جناب میں اقبال شکر کرتا ھے
کہ اسکو ذوق سخن آشنا بنا دیا تونے
7:10
ڈاکٹر بلند اقبال نیازی بھارت
شعراء
یہ راکھ ہے بدن کی جو دینے لگی ہے لٙو
شاید بچا ہو دل کا کوئی باب دیکھنا
7:20
احمدمنیب
یہ جو اک لہر مرے پاؤں سے ٹکرائی ہے
موجِ طوفاں کی یہی معرکہ آرائی ہے؟
7:30
غلام مصطفیٰ دائم اعوان
جو اشک آنکھ کی ٹہنی پہ تھا کلی کی طرح
زمیں پہ گر کے ہوا ختم آدمی کی طرح
7:40
صابر جاذب لیہ پاکستان
تھوڑا بہت اسے خیال _ عاشقاں بھی دے
مالک جسے تو دولت _ حسن و جمال دے
7:50
ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
برائی کرنے والے پوچھتے ہیں
یہاں اب کون اچھا رہ گیا ہے
8:00
اصغر شمیم
اب کس سے مانگیں سہارا لوگ
جب بھیڑ اٹھائیں گیارہ لوگ
8:10
سمی شاہد
میں تو سمجھ رہی تھی شکستہ ہےمیدی ذات
مجھ کو خبر نہیں تھی کہ شیشے میں بال ہے
8:20
ڈاکٹر مینا نقوی ۔۔مراداباد۔۔بھارت
ہم حدودِ طلبِ دید سے آگے نا گئے
عید ہی کرتے رہےعید سے آگے نا گئے
8:30
ڈاکٹر راشد عزیز
صبح ھوتی ھے راکھ ملتا ھے
رات بھر اپنا دل جلاتے ھیں
8:40
جعفر بڑھانوی
دل شاد رہے تاکہ ترا، آنکھ یہ پرنم
پانی کی طرح درد بہا کیوں نہیں آتی
8:50
بی ایم خان معالے اچلپوری،بھارت
لو چراغوں کی بجھی تو آنکھ سے نکلا دھواں
عمر بھر پھر خواب کی تعبیر سے ڈرتے رہے
9:00
علی شیداّ کشمیر
نیکیاں کرنا تمہارا کام ہے
اے خدا مجھکو بڈی سے باز رکھے
9:10
ششی مہرہ
ارادہ خودکشی کا اس غرض سے ٹال دیتا ہوں
میرے مرنے سے گھر والوں کی مشکل کم نہیں ہوگی
9:20
شش مہرہ
زندگی کو جیو ترنم سے
بانٹ دو جو ملے, ترحم سے
9:30
عامر حسنی ملائیشیا
بزم ِ اغیار میں کردار کی خوشبو لے جا
اسطرح جیت کے بازیِء جہاں تو لے جا
9:40
صبیحہ صدف بھارت
تباہی ہے تضادِ باہمی گر بھائیوں میں ہو
ہوں خستہ حال دیواریں تو پھر گھر بیٹھ جاتا ہے
9:50
ریاض انور ..بھارت
…………..
مشاعرے کے اختتام پر صدرِ مشاعرہ ذوالفقار نقوی نے اپنے جذبات و احساسات کا کچھ یوں اظہار کیا…
قابل قدر چیئرمین ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری برادرم توصیف ترنل، نہایت ہی معزز اراکین بزم، شعراء کرام… السلام علیکم
میرے لئے یہ امر باعثِ مسرت و افتخار ہے کہ مجھ جیسے کم علم کو آج کی اس منفرد نشست کی صدارت سونپ دی گئی…. حالانکہ میں قطعاً اس اہل نہیں ہوں…
عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ادارہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے اس نے ہمیشہ ہی منفرد پروگرام پیش کیے ہیں… جس کا سہرا بلا شبہ اس ادارے کے بانی و سرپرست برادرم توصیف ترنل کے سر جاتا ہے… جن کی انتھک کاوشوں نے اس بزم کو رونق بخشی ہوئی ہے.. اور یقیناً یہ اردو ادب کے تئیں اُن کا والہانہ عشق ہی ہے جو کارفرما ہے ورنہ اس برق رفتار دور میں کسے فرصت ہے کہ وہ ایسے مشاغل میں اپنے آپ کو محو رکھے کہ جہاں بظاہر کوئی منفعت نظر نہیں آتی اور جسے آج کا سائنسی ماحول قبول کرنے سے بھی گریزاں ہے….
ان تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود توصیف بھائی نہایت سنجیدگی اور متانت سے شاید اپنی قلبی تسکین کے حصول کی خاطر ہمہ وقت اسی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ ہر ہفتے کوئی منفرد اور اچھوتا پروگرام پیش کیا جائے اور وہ اس میں کامیابیاں بھی حاصل کر چکے ہیں… یقیناً ایسے کام اکیلے کوئی شخص نہیں کر سکتا… یہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے اور اس میں فعال معاونین کی اشد ضرورت ہوتی ہے… اور توصیف بھائی کو اس سلسلے میں بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے انہیں ہمیشہ چند ایسے مخلص دوستوں کا ساتھ عطا کیا ہے کہ جو انہیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑتے اگرچہ وقتاً فوقتاً ان کے احباب بدلتے رہے ہیں…
میں ذاتی طور پر عدیم الفرصت ہوں…. توصیف بھائی سمیت متعدد احباب اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ میں نے بھی ایک سے زائد فیس بُک اور وٹس ایپ گروپ تشکیل دے رکھے ہیں اور 2008 سے مسلسل ایسے ادبی پروگرام منعقد کرواتا آیا ہوں…. جن میں “منتہائے فکر” عالمی شعری گروپ قابل ذکر ہے… لیکن یہ گروپ بھی میری کم فرصتی کی نذر ہو چکا ہے…
ان حالات میں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی انفرادیت اور توصیف بھائی کی محبت ہی ہے جو مجھے یہاں موجود رہنے پر آمادہ رکھے ہوئے ہے….
آج کامشاعرہ بلا شبہ ایک منفرد مشاعرہ تھا جس میں شریک شعراء کرام نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فکری پرواز کی عطر بیزی سے سامعین اور حاضرین کو مسحور کر دیا…. ایک سے بڑھ ایک نہایت عمدہ اور خوبصورت کلام پڑھنے کو ملا… جس کے لئے میں تمام شعراء کرام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں….
نیز توصیف بھائی اور انتظامیہ سے گزارش کرتا ہوں ایک ماہانہ طرحی مشاعرہ کے انعقاد بھی ممکن بنایا جائے تاکہ مشقِ سخن جاری رہے اور پھر اس مشق پر نقد و نظر کا اہتمام کچھ اس طرح کیا جائے کہ نوآموز قلمکار فنی معائب و محاسن سے روشناس ہو سکیں… جیسے کہ قوافی کے مسائل، تلازمہ، شتر گربہ، تقابل ردیفین، معنی آفرینی وغیرہ..
میں آخر میں ایک بار پھر سب کا متشکر و ممنون ہوں اور سب کو ایک بہترین اور کامیاب پروگرام کے انعقاد کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں..
خدا حافظ
بندہ ناچیز… ذوالفقار نقوی ،جموں بھارت
یہ محفل شعر و سخن ،قوس قزح سے مزیّن ،سات سروں کا سنگم،گلہائے رنگارنگ سے سجی،کچھ باتیں ان کہی،درخشندہ ستاروں کی آب وتاب ،مثل گوہرِ نایاب ،تاریخ رقم کرتے باب،سرور وانبساط بکھیرتے ، دلوں کو شادکام کرتے ہوئے ، محبتوں کو سلام کرتے ہوئے ۔۔۔رنگ ونور کی بارات ،علم و فن کے کمالات ،شعر وسخن کے نغمات ۔۔باد شمیم کے تازہ جھونکے دلوں کو گدگداتے۔۔اٹھکیلیاں کرتے گزرتے گئے ،حاسدوں کو کف افسوس ملتے ہوئے کہنا پڑا ،
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانۂ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
اور توصیف سر گویا ہوئے ،
شہپر زاغ وزغن قید صید بند نیست
ایں قسمت شہباز وشاہیں کردہ اند
یہ ماننا پڑے گا کہ توصیف سر نے جس ڈگر کو اپنایا ،برق رفتار زمانے کو جس آن بان سے گلے لگایا ،بغیر ناظم کے محفل شعر و سخن کو اختتام تک پہنچایا یہ کہتے ہوئے کہ ،
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
یہ انہی کا حصہ ہے ۔۔۔۔میں قلب صمیم سے منفرد ،چمن چمن کے پھولوں سے سجی، رنگ ونکہت بکھیرتی ،ایک اور سنگ میل قائم کرتی اس بزم بلکہ یوں کہنا چاہیے کامیاب ترین محفل کے انعقاد کی توصیف سراور ٹیم دی بیسٹ کو مبارکباد دیتا ہوں اور سوچ رہا ہوں چیرمین دی بیسٹ ۔۔یقیں محکم ،عمل پیہم اور جہد مسلسل کرتے ہوئے گنگنارہے ہیں ،
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
تمام شد