ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری لامتناہی کارکردگی کا جائزہ
میر،غالب وسودا کے بعد ،بہت سے سودائی اردو کی ترقی و فروغ کے لیے اٹھے ۔۔سرسید تحریک نے مولانا حالی کی صورت نیچرل شاعر دیا تو خود سرسید نے انشا پردازی کی بنا ڈالی ۔۔انجمن حمایت الاسلام لاہور نے اقبال جیسے گوہرِ نایاب سے اردو کا دامن بھر دیا ۔۔دارالمصنفین نے سید سلیمان ندوی و شبلی جیسے تروتازہ گلاب پیش کیے۔۔شبلی کی عرق ریزی سے لکھی گئی تحقیق ۔۔الفاروق و الغزالی اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ۔۔ترقی پسند تحریک گو کہ اشتراکیت کا آرگن رہا ۔۔نعرہ بازی کے سوا اور کچھ نہیں ۔۔پر یہ بات لائق ستائش کہ اس نے اردو کے دامن کو گلہائے رنگارنگ سے بھر دیا ۔۔۔فیض،مخدوم ،اختر الایمان ،سردار جعفری ،مجاز وغیرہم ۔۔مجاز سے متعلق کہا جاتا کہ ،،اردو میں ایک کیٹس پیدا ہوا تھا جسے ترقی پسند بھیڑیے اٹھا لے گئے ،،حلقہ ارباب ذوق نے بھی اردو زبان کی ترویج وترقی میں نمایاں رول ادا کیا ۔۔اور ڈاکٹر سجاد، باقر رضوی، انتظار حسین سے نامور قلمکار دیے۔
ان تمام تنظیموں نے زمینی سطح پر کام کیا ۔۔پرنٹ میڈیا سے ۔۔ریڈیو ۔۔پھر ٹیلیویژن جیسے ذرائع ابلاغ کو اپنایا ۔۔زمانے نے کروٹ بدلی۔۔بیسویں صدی کی سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ شکل اکیسویں صدی میں کمپیوٹر کی شکل معرض وجود میں آئی ۔۔ٹیلی فون سے موبائل پھر ٹچ اسکرین نے انقلاب برپا کر دیا ۔۔۔یہ برقی دنیا میں اہم قدم تھا ۔۔اسے اردو ادب کے فروغ کے لیے برتا جانے لگا ۔۔واٹس اپپ و فیس بک پر مختلف گروپس متحرک ہوگئے ۔۔مگر ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری نے وہ نمایاں کام انجام دیے کہ برقی دنیا مدتوں اس کا ثانی پیش نہیں کرسکتی ۔
توصیف ترنل۔۔ایک نام ہی نہیں انجمن ۔۔۔جس نے برصغیر سے دور ہانگ کانگ میں رہ کر اس ادارے کی بنیاد ڈالی ۔۔۔بانی و چیئرمین ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ۔۔انتھک محنت جس کا اصول ،نامساعد حالات میں بھی ثابت قدم ۔۔۔اپنے ادارے کے اراکین کے ہمقدم ۔۔یقیں محکم ،عمل پیہم کی جیتی جاگتی تصویر ۔۔بس ایک ہی دھن اردو زبان و ادب کا فروغ ۔
یوں تو برقی دنیا کے بہت سے گروپس اردو ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں مگر ان میں وہ بات کہاں !!۔۔جو ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری میں ہے ۔اس ادارے کی انفرادیت روز اول سے یہی رہی ہے کہ اس کی تمام تر پروگرام برائے تنقید ہوئے ہیں ۔۔!!جس نے منفرد 207 پروگراموں کا ہمالہ کھڑا کر دیا ہے ۔اسی پر بس نہیں بلکہ ہر پروگرام اچھوتے موضوع کو سمیٹے ہوئے ۔لاثانی ولافانی۔۔گلہائے رنگارنگ سے سجے،جن کی مہک آج بھی ان کے ذہنوں میں تازہ ہے جو ابتدا سے اس ادارے سے جڑے ہیں ۔ان کی کامیابی کے پس پشت سالار کاروں ،ادارے کے بانی و چیئرمین عزت مآب توصیف ترنل صاحب کی انتھک محنت ،ناممکن کو ممکن کردکھانے کی صلاحیت اور ان کے زرخیز ذہن کی اپچ شامل رہی ہے ۔۔ٹیم ورک نے شراب دوآتشہ کا کام کیا ہے ۔
یہ توصیف ترنل صاحب کی خوش قسمتی رہی ہے کہ ہمیشہ انہیں ایسے نئے اراکین ملے جنھوں نے ان ممبران کا خلا پورا کیا جو اپنی ذاتی مصروفیت کی بنا پر یا کسی اور وجہ سے ادارے سے علحیدگی اختیار کی ۔مگر یہ چمن یوں ہی آباد و سرسبز وشاداب رہا گرچہ کئی بلبلیں اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ گئیں !۔۔غنچے ٹوٹتے گئے اور نئے شگوفے پھوٹتے رہے ۔۔کیاری کیاری ،روش روش،پتہ پتہ ،بوٹا بوٹا موسم بہار کا سماں پیش کرتے رہے ۔
عصر حاضر کے بہت سے معروف قلمکار اس ادارے کی خون جگر سے آبیاری کرتے رہے ۔۔اسلم بنارسی صاحب ،افتخار راغب ،لالی صاحبہ ،علیم طاہر ،مختار تلہری۔۔ایک طویل فہرست ہے ۔کہاں تک نام گنوائیں جائیں ۔!! ادارے کے فعال رکن معروف شاعر علی مزمل مرحوم کی یادوں کے انمٹ نقوش ذہنوں پر ثبت ہے ۔
ادارے نے اردو ادب کی ہر صنف سخن میں برائے تنقید پروگرام پیش کیے۔۔یہ بھی ایک ریکارڈ ہے ۔۔کیا نثر ،کیا نظم ۔۔مزید برآں موضوعات کی بوقلمونی!!۔۔عصر حاضر کے سلگتے موضوعات ،،امن یا جنگ ،، ،،کرپشن ،،۔۔۔،،مہنگائی ،،۔۔ذرائع ابلاغ سے متعلق ،،صحافت کا گرتا معیار ،،جیسے برنگ ٹاپکس ۔ ۔۔کسی کی مخالفت کی پروا کیے بغیر پیش کئے ۔۔۔وہ بھی کامیابی و کامرانی کے بلندیوں کو چھوتے ، مقبولیت کے جھنڈے گاڑتے ، سنگ میل قائم کرتے جانب منزل رواں دواں ،یہ گنگناتے ہوئے ،
آنکھوں نے میری میل کا پتھر نہیں دیکھا
کس کس پروگرام کا ذکر کیا جائے !۔۔کس کس کی انفرادیت کے گن گنوائے جائیں !!–کس کس کی کامیابی کے گیت گائے جائیں !!!-یہاں ،،موسم بہار ،، کی رنگینی بھی ہے تو ،، عید ملن،، کی دلکشی بھی تو ،،حمد ونعت،، کی روشنی بھی ۔۔۔مائیکرو فکشن کا اختصار جس نے سمندر کو کوزے میں بند کیا تو افسانوی ادب نے معاشرتی و سماجی پہلوؤں کو اجاگر کیا ۔۔،،خود نمائی،، نے چہروں کے نقاب الٹ دیے۔۔تو وہیں ،،طنزومزاح ،،کی چاشنی نے لبوں پر تبسّم بکھیر دیا ۔۔اردو کی مقبول اصناف میں لکھاریوں نے قلم کے جوہر دکھائے ۔۔سہل ممتنع ،،۔۔ذو ردیفین،،۔۔صنعت مبالغہ ،،۔غرض ہر صنف سخن پر پروگرام مرتب کیے گئے ۔جنہوں نے جہاں داد وتحسین کو بٹورا وہیں تنقید کے کڑے مراحل سے گزرے ۔۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ ،،نام نہیں کام دیکھتا ہے ،،۔۔تخلیق دیکھتا ہے تخلیق کار نہیں ۔۔۔۔تنقید کی کسوٹی کندن کی سی آب وتاب عطا کرتی ہے ۔ٹیم دی بیسٹ میں نامور تنقید نگار ۔۔شفاعت فہیم ،مسعود حساس ،غلام مصطفیٰ داعم،ذوالفقار نقوی ،ڈاکٹر عدیل ارشد خان موجود ہیں جو بے لاگ وبےباک تنقید کر تنقید کا حق ادا کرتے ہیں ۔
ادارے کی فعالیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پروگرام کے خاتمہ کے ساتھ بعض اوقات فی الفور اس کی رپورٹ تیار کی جاتی ہے ۔۔جو مختلف ویب سائٹس میں پبلش ہوتی ہے ۔۔ادارے کی ذاتی ویب سائٹ بھی موجود ہے ۔ادارے کی لاٹیو رپورٹ فیس بک پر ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہے ۔۔جس میں ادارے کے روحِ رواں توصیف ترنل نمایاں رول ادا کرتے ہیں ۔
پروگرام کی رپورٹس احمد منیب ،نفیس احمد ،ڈاکٹر ارشاد خان وغیرہم تیار کرتے ہیں جو ایک سند کا درجہ رکھتی ہے ۔ادارے کی انفرادیت کا یہ عالم کہ اول پروگرام سے لےکر 207 ویں پروگرام تک ۔۔تمام ریکارڈ محفوظ ہے ۔۔گوگل پر کسی بھی پروگرام کو سرچ کرکے دیکھا جاسکتا ہے ۔۔ادارے کی انتظامیہ میں شامل اراکین کو جو عہدے تفویض کیے گئے ہیں وہ اسے بحس و خوبی ادا کرتے ہیں ۔۔ادارے کے پروگرام کے لیے ہفتہ کی شام مختص ہے ۔۔آرگنائزر پروگرام مرتب کر کرتے ہیں جو دقت طلب عمل ہے ۔۔نظامت کے لیے لاثانی ٹیم موجود ہے جس میں برقی دنیا کے شہرۂ آفاق ناظم ۔۔گل نسرین ،صبیحہ صدف،سیما گوہر ،اسلم بنارسی ،احمر جان،علیم طاہر نے بے مثال نظامت کر اپنے فن کا لوہا منوایا ہے ۔۔جن کی برجستگی و برمحل اشعار پیوستگی۔۔نیز لب و لہجے کی وارفتگی محفل میں چار چاند لگادیتی ہے ۔
برقی دنیا میں ماشاءاللہ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ۔۔اب کسی تعارف کو محتاج نہیں رہا ۔۔بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ،،اب نام ہی کافی ہے ،،ادارے کے ڈیزائنر صابر جاذب ، پر جاذب بینر تیار کر ادارے کو وقار بلند کیے ہوئے ہیں ۔۔سیکرٹری احمد منیب کی انتھک محنت نے ادارے کو اعلیٰ مقام عطا کیا ہے ۔
ادارے نے جہاں منفرد پروگرام پیش کئے ہیں ان کا تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ تخلیق کاروں سے ۔۔کچھ نیا ، انوکھا ، سب سے الگ ،تعمیری ادب تخلیق کروایا ۔۔یہی دھن ادارے کے بانی کی سدا سے رہی ہے ، جس کی صدا پر ادارے کے قلمکاروں نے سدا لبیک کہا ۔۔۔ترقی پسندوں نے جدید ادب تخلیق تو کیا ۔۔جدیدیت کے رجحان میں گل وبلبل، جام ومینا سے اجتناب تو کیا ۔۔مگر ایک مخصوص فکر کے آلو کار بن گئے ۔۔جس کا سب سے تاریک پہلو ،،مذہب بے زاری ،،ابھر کر سامنے آیا ۔۔۔۔ادب کے نام پر پروپیگنڈہ ادب تو کہیں پراگندگی ابھر آئی ۔۔منٹو ،عصمت و مابعد واجدہ تبسّم نے ۔علی الترتیب کھول دو ،لحاف و اترن کو جنم دیا ۔۔سماج کی کریہہ شکل کو ۔۔ من وعن پیش کیا ۔ ۔۔جبکہ ارادہ نے تعمیری ادب کے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی جوڑ رکھا تو سیاست کو تو آداب معاشرت کو ،۔۔کہ ۔۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور
۔۔۔۔مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
کے مصداق پروگرام کی ابتدا ہی حمد و نعت سے کی جاتی ہے ۔
ایک اور نمایاں خصوصیت ،جو ریسرچ اسکالرس کے لیے کسی نعت غیر متوقع سے کم نہیں کہ عصر حاضر کے نامور قلمکار ایک پرچم تلے صف بستہ ہیں جن کے تخلیقی مواد و کسی مخصوص موضوع کی تلاش میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں ۔گوگل پر سرچ کرکے متعلقہ مواد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔برقی دنیا میں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ہر اول دستہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔۔ادارے کے بانی وچیئرمن نے چیلنج کر انعام کا اعلان کیا ہے کہ ادارہ سے بہتر کارکردگی برقی دنیا میں اردو کے فروغ کے لیے کسی نے پیش کی ہو تو بتائیں ۔!!
ادارے نے سب سے پہلے ایوارڈ کا سلسلہ جاری کیا ہے ۔۔ہر بہترین تخلیق پر اب تک بے شمار ایوارڈ دیے جاچکے ہیں ۔۔یہ ایوارڈز کلاسیکی ادباء وشعرا سے موسوم ہیں ۔۔مولانا الطاف حیسن حالی ،جگر مرادآبادی ،مشتاق احمد یوسفی وغیرہم سے منسوب ایک لامتناہی سلسلہ ۔۔۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ایک ادارہ نہیں ۔۔۔دبستان ہے جس میں گلہائے رنگارنگ اپنی دلکشی سے قارئین کو مسحور کیے ہوئے ہیں اور ان کی مہک دلوں کو سرشار و بے خود کیے ہوئے ۔کیف و سرور ،سوزوگداز ،قدیم و جدید کا امتزاج ،آئیں نو۔و طرزِ کہن،سے سجا سجا یہ چمن ،اس کی ہر تخلیق میں بانکپن ،آہو و غزال سے بھرا پڑا مرغزار ختن ،جھلملاتے ستاروں کی انجمن ،کہکشاں سے آراستہ گگن ،۔۔۔یہی ہے ۔۔یہی ہے ،جس سے تن اردو میں جان پڑگئی ۔۔مہتاب کی وہ کرن۔۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری ۔