آئس کریم سے پولیو نہیں ہوتا – تعلق، وجہ اور خوف – شماریات کا مغالطہ
پولیو کا وائرس 1908 میں دریافت ہوا۔ 1950 میں پہلی بار الیکٹران مائیکروسکوپ سے دیکھا گیا۔ 1955 میں اس کی ویکسین دریافت ہوئی۔ 1961 میں اس کی کمرشل پروڈکشن شروع ہوئی اور اب صرف کچھ دہائیوں کی عالمی کوششوں کے بعد یہ جلد ہی شاید چیچک کی طرح ایک ماضی کی تلخ یاد ہی رہ جائے گی۔
اس بیماری کی اپنی کہانی نیچے دئے گئے لنک میں لیکن ابھی بات اس کہانی کے ایک اور پہلو کی جو شماریات کی دنیا کا مغالطہ ہے۔
جب تک اس کے خلاف بچاؤ کا ہتھیار ہمارے پاس نہیں تھا اور یہ مرض اپنے عروج پر تھا تو نیوکلئیر جنگ کے بعد سب سے زیادہ دہشت اس کی تھی۔ اس کے بارے میں ہم صرف یہ جانتے تھے
1۔ یہ وائرس سے پھیلتا ہے
2۔ گرمیوں کے مہینوں میں یہ سب سے زیادہ پھلتا ہے
3۔ یہ سب سے زیادہ چھوٹے بچوں کو متاثر کرتا ہے
4۔ اس کا کوئی علاج نہیں۔
سبھی نے اس کی تباہ کاری دیکھی تھی لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ آخر کیا کیا جائے۔ پھر ایک خیال مشہور ہوا کہ اس کی وجہ آئس کریم ہے اور اس کی وجہ اس کے اندر استعمال ہونے والی کوئی چیز۔ یہ شماریات کا تعلق اور وجہ کا مغالطہ ہے۔ اگر صرف دو ویری ایبل لئے جائیں آئس کریم کی فروخت اور پولیو کے واقعات تو ان کا بڑا اچھا تعلق بنتا تھا (یہ تعلق ساتھ لگے گراف میں)۔ جب آئس کریم کی فروخت زیادہ ہوئی تو پولیو کے واقعات بڑھ گئے اور جب اس کی فروخت کم ہوئی تو واقعات کم ہو گئے۔ سائنسی طریقے میں جب ہم اس طرح کا تعلق دیکھتے ہیں تو پھر اس سے اگلا سوال یہ کہ کیا یہ تعلق وجہ بھی ہے؟
کئی صورتیں ممکن ہیں۔ مثال کے طور پر آئس کریم پولیو کا باعث ہے یا پھر پولیو سے متاثرشدہ لوگ آئس کریم کا استعمال زیادہ کر دیتے ہیں۔ لیکن یہاں پر ایک تیسرا ویری ایبل بھی موجود ہے جو گراف میں نہیں۔ وہ ہے گرمی۔ گرم موسم میں یہ وائرس زیادہ پھیلتا ہے اور اسی موسم میں آئس کریم بھی زیادہ بکتی ہے۔ اس لئے پہلے دو ویری ایبل کے آپس میں تعلق کا کوئی مطلب نہیں۔
آج تو ہمارے لئے یہ عام معلومات ہے لیکن اس خوف کی فضا میں جب یہ اس تعلق کی خبر مشہور ہوئی تو آئس کریم کی فروخت یکایک نیچے گر گئی اور کئی برس تک کم رہی۔
پھر مختلف افواہوں کی وجہ سے شک کا اظہار سفید یونیوفارم پر، پبلک ٹرانسپورٹ، سوئمنگ پولز پر اور پھر ایک دفعہ بلیوں پر کیا گیا۔ صرف اس افواہ کے پھیلنے کی وجہ سے ایک مہینے میں نیو یارک میں ستر ہزار بلیوں کو مارا گیا۔
اگر اس وقت کا طرزِ عمل دیکھا جائے تو آج ہمیں مضحکہ خیز لگے لیکن جب ہم خوف کا شکار ہوں اور کسی چیز کو ٹھیک سے سمجھتے نہ ہوں تو پھر کوئی بھی وجہ تلاش کر لینا اور کسی بھی افواہ پر یقین کرنا اس قدر آسان کیوں ہوتا ہے اور اس طرح کی افواہیں اس قدر تیزی سے کیوں پھیلتی ہیں؟ افواہوں کی اس سائنس کی تفصیل کے لئے نیچے دیا گیا لنک۔
ساتھ لگی پہلی تصویر 1949 میں آئس کریم کی فروخت اور پولیو کے واقعات کا گراف جس نے آئسکریم کی فروخت کو کم کر دیا۔
کئی توہمات کی وجہ بھی یہ مغالطہ ہے۔ اس کی ایک مثال دوسری تصویر میں
تیسری تصویر پولیو کے وائرس کی جو اعصابی خلئے کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کے دو سٹرین اب ختم ہو چکے۔