صرف بیس سال پہلے ہمارا کائنات کی عمر کا اندازہ دس سے بیس ارب سال کا تھا۔ بہتر مشاہداتی آلات، بہتر کمپیوٹر اور بہتر ماڈلز کی وجہ سے اب بحث یہ ہے کہ یہ تیرہ ارب ستر کروڑ سال ہے یا تیرہ ارب اسی کروڑ سال۔ ابھی ہمیں نہیں معلوم کہ آغاز کیوں ہوا اور اس سے قبل کیا تھا لیکن یہ آغاز خود تھا کیسے؟
شروع میں روشنی تھی۔ قابل مشاہدہ کائنات (جسے ہم اپنی کائنات کہتے ہیں) سورج کے درمیان سے بھی کہیں زیادہ روشن اور گرم تھی اور تیزی سے پھیلی تھی۔ سننے میں عجیب لگے لیکن یہ بے جان اور اداس جگہ تھی۔ گرم، کثیف اور بور سی۔ بنیادی ذرات کا شورہ جو ہر جگہ بالکل یکساں تھا۔ جہاں دیکھو کچھ بھی فرق نہیں۔ اس میں واحد دلچسپ چیز وہ خفیف سی آواز جیسی لہر تھی۔ یہ کوانٹم فلکچوئشن تھی۔ ہائزنبرگ کا غیر یقینی کا اصول کسی بھی چیز کو بالکل یکساں اور بوریت بھرا ہونے سے روکتا ہے۔ اس لہر نے اس کی یکسانیت کو بالکل معمولی سا توڑا۔ یہ کثیف مادہ کچھ جگہوں پر دوسروں کے مقابلے میں ایک فیصد کا ایک ہزاروں حصہ زیادہ گاڑھا ہو گیا۔ کائنات کی اپنی شکل اس کثافت کے اس معمولی سے فرق سے تشکیل پائی۔
جب یہ پھیل کر ٹھنڈی ہوئی تو یہ زیادہ دلچسپ ہو گئی۔ یہ ذرے ملکر پیچیدہ آبجیکٹ بن گئے۔ ایک سیکنڈ کے کچھ حصے میں طاقتور نیوکلیائی قوت نے کوارکس کو پروٹون (ہائیڈروجن کے نیوکلیئس) اور نیوٹرون بنا دیا۔ اگلے چند منٹ میں ان میں سے کچھ ضم ہو کر ہیلیئم کے نیوکلیئس بن گئے۔ چار لاکھ سال گزرے، الیکٹرومیگنیٹک فورس نے ان کا ملاپ الیکٹرانز سے کروا دیا۔ یہ اس کائنات کے پہلے ایٹم تھے۔
جس طرح کائنات پھیلتی گئی، یہ ایٹم ٹھنڈے ہو کر سرد تاریک گیس کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ اب پہلی رات تھی۔ دس کروڑ برس لمبی تاریک رات۔ اس طویل رات کا اندھیرا اس وقت چھٹا جب گریویٹی کی قوت نے اس گیس کی فلکچوئیشن کو بڑا کر دیا۔ ایٹم مل کر ستاروں اور کہکشاؤں میں ڈھلنے لگے۔ فیوژن کی طاقت سے ہونے والا اس کائنات کا سویرا تھا۔
پھر کہیں اس کائنات کے ایک گوشے میں ایٹمز کا ایک گروپ ایک پیٹرن کی شکل میں اکٹھا ہوا تھا جو شکل برقرار رکھ سکتا تھا اور دوسرے ایٹمز کو اپنے جیسی ترتیب دے کر اپنی کاپی بنا سکتا تھا۔ اس کی ایک سے دو کاپیاں بن گئیں۔ دو سے چار ، چار سے آٹھ، یہ بڑھتی گئیں۔ اپنی کاپی بنا سکنے والا یہ پیٹرن ایک مانی جانے والی قوت بن گیا۔ کائنات میں زندگی آ چکی تھی۔