سائنس کی اپنی تاریخ ہے لیکن کیا تاریخ کی بھی سائنس ہے؟ پوری سائنس کی بنیاد صرف ایک نکتے پر ہے۔ سب کچھ اصولوں پر قائم ہے۔ اس بنیادی اصول کو مان لینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر ہم ان اصولوں کو جان سکتے ہیں۔ فزکس اور نفسیات کو پڑھنے اور تجربات کے طریقے میں تو فرق ہے لیکن یہ بنیادی نکتہ وہی رہتا ہے۔ سائنس کے کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں پر تجربات کرنا ناممکن ہے۔ ان کی مثالیں کاسمولوجی، جیولوجی، ایوولیوشن، جیسے شعبے ہیں جن کا بڑا تعلق ماضی سے ہے۔ تو پھر کیا انسانی تاریخ ان سے الگ ہے؟ جب ہم کائنات کی، زمین کی، زندگی کی تاریخ پڑھتے ہیں تو اس کا ایک حصہ ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔ اس ڈیٹا کو جانچنا اور پرکھنا ہے۔ اس ڈیٹا سے ماڈل اور نظریہ بنانا ہے جو اس کی وضاحت کر سکیں اور نئے ملنے والے ڈیٹا کو دیکھنا ہے کہ وہ ان ماڈلز سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ انسانی تاریخ کا کچھ حصہ بھی بالکل اسی طریقے سے پڑھا جاتا ہے۔
چودہویں صدی کے عظیم فلسفی ابنِ خلدون نے علمِ تاریخ کو قصے کہانیوں سے ہٹا کر پہلی بار اکیڈمک ڈسپلن کی شکل دی۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے میں جانچ پڑتال، ان سے پیٹرن تلاش کرنا اور ان کو پرکھنا۔ یہ ہسٹوریوگرافی کی ابتدا تھی۔ ان کے پیش کردہ کئی نظریات مشہور ہوئے۔ ٹرائبل ازم، سائیکلک ایمپائر تھیوری جس میں قوموں کے عروج و زوال کے مراحل بیان کئے۔ ان سے سات صدیوں بعد آج ہم باقی علوم کی طرح انسانی تاریخ پڑھنے کے طریقوں میں بھی آگے بڑھ چکے۔ اس کے اپنی کئی ذیلی شعبے ہیں۔ ہر شعبے کے اپنے طریقے، اپنی نظریات۔ ابھی بات صرف ان میں سے ایک کی جو قوموں کے زوال کے بارے میں جیرڈ ڈائمنڈ کا پانچ پوائنٹ کا فریم ورک ہے جو اس چیز کا جواب دیتا ہے کہ کوئی بھی سوسائٹی آخر کیوں مر جاتی ہے؟ (اس فریم ورک کی تصویر ساتھ کی ڈایاگرام میں)۔ اس فریم ورک کے بڑے پوائنٹس
1۔ قدرتی وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال
دستیاب قدرتی وسائل بڑھتی آبادی کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ آبادی کی مانگ پوری کرنے کے لئے ان کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
2۔ ماحولیاتی تبدیلیاں
موسم اور ماحول بدلنے سے ان چیزوں کا ختم ہو جانا جن پر سوسائٹی کا انحصار ہے۔ اس سے انفراسٹرکچر کا غیرمستحکم ہو جانا۔
3۔ ہمسائیوں سے بُرے تعلقات
ہمسائیوں کے ساتھ چپقلش اور جنگیں۔ دستیاب ذرائع کا بڑا حصہ اس طرف لگ جاتا ہے جو لمبی مدت میں خود اپنی دفاعی صلاحیت کو ہی ختم کر دیتا ہے۔
4۔ تجارتی تعلقات میں کمی
اکنامک انفراسٹرکچر کی کمزوری کا مطلب یہ کہ اپنے ذرائع کی کمی بیشی کے سائکل کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پختہ اور دوستانہ تعلقات نہیں بنتے۔
5۔ مسائل کا سامنا کرنے کا رسپانس
سب سے اہم یہ کہ مسائل کے مقابلے میں سوسائٹی کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ ناکام معاشروں میں ان کا یا تو انکار کر دیا جاتا ہے یا پھر ان کو نظرانداز۔ بے لچک کلچر اور روایات اپنائی جاتیں ہیں۔ وہ خیالات جو کسی وقت میں مسائل کا سامنا کرنے کے لئے ٹھیک تھے لیکن نئے حالات میں بالکل غلط۔ ان کو نہیں چھوڑا جاتا۔ سوسائٹی اپنے مسائل کا ذمہ دار اپنے آپ کو نہیں سمجھتی۔
اس فریم ورک کا اطلاق ناکام ہو جانے والے کئی معاشروں پر کیا گیا۔ مایا، نورس، ایسٹر آئی لینڈ، پٹسیرن آئی لینڈ، انسازی، ہیٹی جو ناکام ہوئے، جبکہ ان کے مقابلے میں انہی جیسے حالات رکھنے والے ان کے پڑوسی ٹکوپیا، نیو گنی ٹونگا یا جاپان لمبے عرصے تک کامیاب رہے۔
گرین لینڈ کے نورس کی مثال۔ یہ یورپین سوسائٹی تھی جس کو ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور ریکارڈ بہتر محفوظ ہے۔ اس علاقے کو وائنگنگز نے آباد کیا۔ کئی صدیوں تک گرین لینڈ پر رہنے والے یہ سوسائٹی مکمل انحطاط کا شکار ہوئی۔ ان کے رہنے کے طریقے سے جنگل غائب ہوئے۔ ان کو جنگل کی لکڑی چارکول بنانے کے لئے درکار تھی تا کہ لوہا بنا سکیں۔ جنگل چلے جانے کے بعد لوہے کے دور کی یہ سوسائٹی لوہا بنانے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو گئی۔ یہاں پر موسم سرد ہوا۔ (یہی تبدیلی ان کے پڑوس کے انٹیوٹ میں بھی آئی تھی لیکن اپنے لچکدار کلچر کے باعث انیوٹ نے اس تبدیلی سے مثبت فائدہ اٹھایا)۔ ان کے تجارتی تعلقات ناروے تک محدود رہے۔ جب ناروے کمزور ہوا تو اس کا سارا نقصان نورس کو ہوا۔ انہوں نے اپنے ہمسائے انیوٹ سے جارحانہ تعلقات رکھے۔ انیوٹ نے ان کی رسائی اہم وقت میں بیرونی فیورڈ سے کاٹ دی تھی اور ان کی کمزوری کے وقت ان کے پورے معاشرے کو اُلٹ دیا تھا۔ اگرچہ نورس جنگی ذرائع پر بڑا حصہ اور وقت صرف کرتے رہے لیکن ایک ہائیرارکی والا معاشرہ ہونے کے سبب ان کے اپنے فیصلہ ساز، اس سے ہونے والے منفی اثرات سے محفوظ تھے۔ جنگل کٹ رہے تھے، ان کے گرد ماحول بدل رہا تھا، ان کی خوراک ختم ہو رہی تھی، تعلقات ختم ہو رہے تھے، نئی ٹیکنالوجی اپنانے میں ہچکچاہٹ تھی۔ کام کر سکنے والے لوگوں نے ناروے اور آئس لینڈ کا رخ کیا۔ جو پیچھے بچے، ان کا صفایا مکمل طور پر ہوا تھا۔ کچھ سال قبل پانی کے کنارے برف میں دفن ایک نورس کی اوندھے منہ گری خون آلود لاش ملی تھی۔ گھر میں بنی سیل کی کھال اور اون سے بنے لباس میں۔ یہ 1540 کے قریب کی لاش تھی۔ ساتھ ہی اس کے قریب ایک ٹوٹا ہوا اور کھایا ہوا لمبے پھل کا چاقو۔ گرین لینڈ میں ملنے والا یہ آخری نورس تھا جس کو ہم جانتے ہیں۔
جیرڈ ڈائمنڈ کے نظریے کے مطابق کوئی سوسائٹی اپنی ناکامی یا کامیابی کا انتخاب خود کرتی ہے۔ معاشرت پیچیدہ ہے۔ اگر کسی کے خیال میں صرف ایک آدھ وجہ ہی عروج و زوال کا سبب بنتی ہے تو وہ شاید کم عقل ہے یا لاعلم۔ لیکن تاریخ سے ہمیں پیٹرن ضرور پتہ لگ سکتے ہیں۔ جب معاشرے کی موت کا آخری وقت آتا ہے تو بڑی تیزی سے سب کچھ ختم کر دیتا ہے خواہ عروج جتنی بھی بڑا کیوں نہ ہو۔ خواہ انگکور ہو، سوویت یونین یا وینیزویلا۔ ان کی باقی مثالیں ان کی کتاب سے۔
تاریخ کے علم کا کون کون سا حصہ سائنس ہے؟ اس پر اتفاق نہیں۔ لیکن اگر ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو اصولوں پر چلتی ہے تو پھر ہم قوموں کے عروج و زوال کے اصولوں کو بھی جان سکتے ہیں۔ اقوامِ عالم کی تاریخ کا کچھ حصہ بھی شاید سائنس ہو۔ کیا یہ اصول وہی ہیں جو جیرڈ بتاتے ہیں؟ اس پر مختلف آراء ہو سکتی ہیں لیکن ابنِ خلدون سے لے کر آج کے مؤرخین تک تاریخ کی سائنس کی اپنی سات صدیوں کی تاریخ میں ہم اس طرح کے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ان کی تصدیق کے لئے نئے تجربات تو نہیں کر سکتے۔ آنے والے وقت کا اندازہ گزرے وقت سے معلوم کردہ اصولوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب
Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed