"بغیر سوچے سمجھے پرانی روایات اور رسومات پر عمل کرنا مُردوں کو زندہ نہیں کرتا، زندوں کو مُردہ کر دیتا ہے"
ابنِ خلدون
ابنِ خلدون چودہویں صدی میں تیونس سے تعلق رکھنے والے مؤرخ تھے۔ ہسٹوریوگرافی، سوشیولوجی، اور ڈیموگرافی کے شعبوں کا آغاز اور ابتدائی کام انہوں نے کیا۔ تاریخ کے علم کو باقاعدہ طریقہ دینے والے پہلے مؤرخ تھے۔ ان کو قرونِ وسطیٰ کا عظیم فلسفی مانا جاتا ہے۔ ان سے کئی صدیاں بعد ان کے کام سے متاثر ہو کر سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں احمد جودت پاشا، کاتب چلبی اور مصطفےٰ نعیما جیسے مؤرخین نے سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کا تجزیہ کیا۔
آج پاکستان میں تاریخ تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں۔ یہ علم زیادہ تر ناولوں، کہانیوں، افسانوں یا ڈراموں تک محدود ہو گیا ہے۔ تاریخ کا اپنا علم، نظریات اور اصول باقی علوم کی طرح صدی کے طریقوں سے بہت آگے بڑھ چکے۔ ابنِ خلدون کا نام تو بہت لوگ جانتے ہوں گے لیکن آج سے ساڑھے چھ سو سال پہلے انہوں نے لکھا کیا؟ ان کی مشہور ترین کتاب 'مقدمہ' ہے۔ یہ وہ پہلی کتاب ہے جہاں سنی سنائی سینہ بہ سینہ کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر تاریخ کو پرکھنے کے اصول اور ضابطوں کا بڑا تفصیلی ذکر ہے۔ یہ تحریر ملکوں یا ریاستوں کے جدید تصورات سے قبل کی ہے۔ ایک بالکل مختصر نظر صرف اس پر کہ یہ تاریخ کو کس طرح بیان کرتے ہیں۔
پودوں، جانوروں اور بندروں کے بعد اس دنیا میں انسان کا آغاز ہوا۔ جب انسان نے معاشرت کا آغاز کیا تو دریاؤں کے کناروں سے۔ چین کی ہوانگ ہو وادی، برِصغیر میں وادئ سندھ، مصر کا نیل۔ یہ دریا جہاں پر پانی کا ذریعہ تھے، وہاں پر تجارت اور کامرس کا۔ یہاں بڑھتی آبادیوں شہروں میں بدلیں، شہر تہذیبوں میں۔ لیکن تاریخ ہر جگہ ایک ہی طرح کے پیٹرن میں چلتی رہی۔ دریاؤں سے آبپاشی کے نظام بنے، کسانوں نے فصلیں اگائیں۔ ان سے شہر اور قصبے بڑے ہوئے۔ پھر کوئی جنگجو اپنے ہتھیاروں ان آبادیوں کو اپنے زیرِتسلط لے آیا۔ ایک سیاسی اکائی قائم کی۔ کوئی بادشاہت، کوئی سلطنت۔ اس زرخیز زمین پر قبضہ کرنے کے لالچ میں پھر کوئی قبیلہ خانہ بدوشوں کا آیا۔ اس نے کبھی شکست کھائی اور کبھی اس سلطنت کو فتح کر لیا۔ نظام اپنے قبضے میں لے لیا۔ کچھ عرصے کے ہنگامے کے بعد نئے نام اور نئی شناخت سے نئی سلطنت چلتی رہی، پھیلتی رہی۔ وقت کے ساتھ یہ خانہ بدوش خود بھی بدلتے گئے۔ شہری زندگی کے عادی ہوتے گئے۔ اسی رنگ میں ڈھل گئے جیسے وہ لوگ تھے جن کو انہوں نے فتح کیا تھا۔ پھر کوئی اور خانہ بدوشوں کا قبیلہ آیا اور پھر یہی چکر۔ فتح، حکومت، پھیلاؤ، زوال اور خاتمہ۔ یہ سلطنتوں کے چکر دنیا میں ہر جگہ ایسے ہی رہے۔
پہلی قابلِ ذکر معاشرت دجلہ و فرات کے درمیان ابھری۔ یہ میسوپوٹیمیا تھا۔ یہ شروع سمیرین سے ہوا تھا۔ جنہوں نے فرات کنارے آبادیوں کو سمیر میں اکٹھا کیا تھا۔ لکھائی ایجاد ہوئی، پہیہ اور چھکڑا۔ شمال سے اکادی آئے جنہوں نے سمیر کو فتح کر لیا۔ ان کا لیڈر سارگون وہ پہلا حاکم ہے جسے ہم نام سے جانتے ہیں۔ یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔ اتنی بڑی کہ سارگون نے کہا تھا کہ کوئی میری سلطنت کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتا۔ (موازنے کے لئے: یہ صوبہ سندھ سے نصف علاقہ تھا) اکادیوں کو ایک اور خانہ بدوش قبیلے نے فتح کر لیا، پھر کسی اور نے، پھر کسی اور نے۔ کبھی گوتی، کبھی حوری، کبھی امورائٹ۔ آئے، فتح کیا، یہاں بس گئے، کچھ سلطنت پھیلائی، لیکن ہر نیا کلچر کچھ نیا اضافہ کرتا رہا۔ امورائٹ نے بابل کا شہر بسایا، جہاں سے بابُل کی تہذیب نکلی۔ اس نے ریاضی اور فلکیات کو آگے بڑھایا۔ آسوری سلطنت شمال میں بنی۔ اس کا دارالحکومت نینوا قدیم تہذیب کے عظیم شہروں میں سے تھا۔ یہاں پہلی لائبریری بنی، پہلی پکی سڑکیں، پہلی بار انتظامیہ کا تصور آیا۔ جہاں پر جاگیرداروں اور رعایا ایک مرکزی حکومت کے تابع تھے۔ آسوریوں نے بے رحم اور ظالم کی شہرت پائی لیکن یہ دوسروں جیسے ہی تھے۔ آبادی کو قابو رکھنے کا ان کا حربہ یہ تھا کہ کبھی اچانک پوری آبادی کو اٹھا کر دوسری جگہ جانے کا حکم دیا کرتے، تا کہ بغاوت پنپ نہ پائے۔ آسوری اپنے عروج کے بعد اپنی طاقت سمیری، بابل اور کاشیٹائٹ کے ہاتھوں کھو بیٹھے۔ اگلے دو سو سال یہ قبائل آپس میں جنگ کرتے رہے۔ اس دوران آسوری منظم ہو کر آئے اور ان لڑتے قبائل کو شکست دے کر حکومت واپس سنبھالی۔ ان کو شکست کلدانیوں سے ہوئی۔ دوسری بابل تہذیب بنی۔ انہوں نے فلکیات، میڈیسن، تعمیرات اور ریاضی کو آگے بڑھایا۔ کلدانیوں نے بابل کے معلق باغات بنائے۔ آسوریوں کی طرح تقسیم کر کے حکومت کرنا ان کا بھی طریقہ تھا۔ ان کا خاتمہ فارس اور میڈیس سے آئے حملہ آوروں نے کیا۔ بابل کا انفراسٹرکچر اور سیاسی نظام استعمال کرتے ہوئے فارس کی سلطنت بنی۔ ان کے لیڈر کوروش دی گریٹ نے اس وقت کی معلوم دنیا کو فتح کیا۔ دریائے نیل سے لے کر دریائے سندھ تک۔ اس سلطنت کی شہرت اپنی سیاسی اصلاحات کی وجہ سے ہے۔ آسوریوں سے بالکل اُلٹ۔ لوگوں کو اپنے علاقوں میں بسایا۔ ان کو اپنے رسوم و رواج پر رہنے دیا۔ شرط صرف یہ کہ وہ مرکزی حکومت کو ٹیکس دیتے رہیں۔ کرنسی شروع کی اور سڑکوں کا جال بچھایا۔ یہاں کی لائبریریاں اتنی بڑی تھیں کہ ہمیں ان کی تین ہزار سال پرانی تاریخ کا یورپ کی بارہ سو سال پرانی تاریخ سے بھی بہتر علم ہے۔ پرشیا کی سلطنت پھر یونانیوں سے رابطے میں آئی۔ یونانیوں نے یہاں پر بغاوتیں کو سپورٹ کرنا شروع کیا۔ پرشیا کے بادشاہ داریوش نے بہت بڑی فوج تشکیل دی اور یونان پر چڑھائی کی۔ لیکن فوج کے بڑا ہونے کا نقصان ہوا۔ اس کو کنٹرول کرنا مشکل رہا۔ پرشیا نے شکست کھائی۔ داروش کے بیٹے اخسویرس نے باپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے دوبارہ حملہ کیا۔ وہی غلطی دہرائی اور شکست کھائی۔ اس سے ڈیڑھ سو سال بعد مقدونیہ سے نکلنے والے اسکندرِ اعظم نے جنگ کا رخ دوسری طرف کر دیا اور جلد ہی تمام پرشیا فتح کر لیا۔ تمام یونان اور تمام پرشیا پر قبضے کا مطلب اس وقت کی تمام دنیا پر قبضہ تھا۔ اسکندر کا طریقہ یہ تھا کہ جو شہر ہتھیار ڈال دیتے، ان کو کچھ نہ کہا جاتا لیکن جہاں مزاحمت ملتی، ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی۔ پرشیا کے دارالحکومت پر جب قبضہ کیا تو شاہی محل کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ یہ اس وقت کی دنیا کی سب سے شاندار عمارت تھی۔ دوسری طرف سکندریہ کا لائٹ ہاؤس بنوایا۔ اسکندر دونوں سلطنتوں کا کلچر ایک کرنے کا خواہشمند تھا۔ اپنی فوج کو پرشیا کی عورتوں سے شادی کرنے کا کہا۔ پرشیا کی شناخت رکھنے والوں کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ کرنے کا کہا۔ لیکن اپنی پالیسی کے نفاذ سے پہلے مر گیا۔ جب موت سے پہلے پوچھا گیا کہ کون اگلا حکمران بنے تو سکندر کا کہنا تھا کہ وہ جو طاقتور ہو۔ اس طاقت کے کھیل میں لڑتے جنرلوں کے نتیجہ میں سلطنت درجن حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ کمزور ہوتا یونانی اثر غائب ہونا شروع ہو گیا۔ فارسی شناخت واپس آئی اور فارس کی ایک اور سلطنت ابھری۔ ان کے زیرِتسلط علاقہ پہلی سلطنت سے فرق تھا۔ انہوں نے فارسی زبان اپنائی۔ ان کا آرٹ یا کلچر کی طرف رجحان نہ تھا۔ ان کی جدتیں جنگی حربوں اور آلات پر تھیں۔ تیسری صدی میں ایک باغی صوبے نے فارس کی اس سلطنت کو ختم کر دیا اور ساسانی سلطنت کی ابتدا کی۔ ساسانیوں نے یونانی تہذیب کے تمام نشان مٹا دئے۔ انہوں نے بڑی یادگاریں، عمارات اور شہر تعمیر کئے۔ اس دوران دوسری طرف کمزور ہوتی رومی سلطنت دو میں تقسیم ہو چکی تھی۔ دولت مشرقی حصے کے پاس تھی۔ جرمینک قبائل مغربی حصے کی طرف چلے گئے۔ مغربی حصے میں حکومت کا اثر ختم ہو گیا۔ ہر طرف خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ تجارت ختم ہو گئی۔ سلطنتِ روم کا مغربی حصہ تباہ ہوا اور یورپ اپنے تاریک دور میں داخل ہو گیا۔ مشرقی حصے میں یونانیوں اور رومیوں کے ملنے سے ایک اور شناخت ابھری جسے تاریخ میں بازنطینی سلطنت کا نام دیا گیا۔ اس سلطنت کا کلچر کو آگے بڑھانے میں خاص حصہ نہ تھا۔ رومی اور یونانی فلسفی اور شاعر مشہور ہیں، بازنطینی نہیں۔ ان میں کوئی ارسطو، افلاطون، سیزر، آگسٹس نہیں تھا۔ یہ سلطنت ایک ہزار سال رہی۔ ایک طرف بازنطینی سپرپاور تھی، دوسری طرف ساسانیوں کی۔ ان کی کئی جنگیں ہوئیں جو بے نتیجہ رہیں۔ ان دونوں کے جنوبی ہمسائے جزیرہ نمائے عرب کی خوابیدہ زمین پر ایک اور نئی طاقت کے ابھرنے کا وقت تھا۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر ان کا تیونس میں نصب مجسمہ ہے۔ تیونس کی کرنسی میں دس دینار کے نوٹ پر ابنِ خلدون کی تصویر بنی ہے۔