جامعہ کراچی کی ادبی عدالتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ جس ادبی عدالت کا یہ ذکر ہے، اُس میں ابن صفی ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے تھے۔ وہ برصغیر میں جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ تھے۔ اپنی طرز کے آپ ہی موجد اور آپ ہی خاتم ۔ ’ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا‘ اور متعدد لوگوں نے اُن کا چربہ کرنے کی کوشش کی مگر بات بن نہ سکی۔ ابن صفی نئی نسل میں بہت مقبول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن پر مقدمہ چلا تو عدالت (سماعت گاہِ فنون) کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ نشستوں اور اسٹیج کے درمیان میں جو ذرا سی خالی جگہ چلنے پھرنے کے لیے، ہوتی ہے، لڑکے لڑکیاں وہاں بھی گاؤن بچھا کر بیٹھ گئے تھے۔ ابن صفی پر جو الزامات عائد کیے گئے اُن کا خلاصہ یہ تھا:
’’ملزم نے محض پیٹ کی روٹی کی خاطر غیر حقیقی اور غیر سائنسی واقعات لکھ لکھ کر نئی نسل کو گمراہ کیا ہے۔ انہیں عملی دُنیا سے بیگانہ کرکے محض تصوراتی دُنیا میں رہنا سکھا دیا ہے‘‘۔
ادبی عدالت سے انجمنِ طلبہ نے جس سزا کی استدعا کی گئی تھی وہ چھہ سال کی مدت پر محیط تھی:
’’ملزم کو دو، دو برس کے لیے شعبۂ طبیعات، شعبۂ کیمیا اور شعبۂ حیوانیات میں داخل کیا جائے‘‘۔
(ظاہر ہے کہ طالب علموں کی نظر میں اس سے بڑی سزا اور کیا ہوسکتی تھی؟)
اس ادبی عدالت کے جج خوش قسمتی سے جسٹس قدیرالدین احمد تھے جو ’’حاضر ڈیوٹی‘‘ جج تھے اور بڑا عمدہ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے صدر شفیع نقی جامعی وکیل استغاثہ تھے، جب کہ ملزم کی طرف سے وکیلِ صفائی تھے زاہد حسین بخاری۔ شفیع اُس ادبی عدالت میں بڑی تیاریوں کے ساتھ آئے تھے۔ اپنے ساتھ ابن صفی کے چالیس پچاس ناول ڈھو کر لے آئے تھے، جن کا ڈھیر عدالت میں اپنے روسٹرم کے ساتھ زمین پر لگا لیا تھا۔ ہر ناول میں نشان کے طور پر کاغذ کی پرچیاں لگی ہوئی تھیں۔ استغاثہ کی طرف سے ’ملزم‘ پر لگائے ہوئے الزامات میں سے ہر الزام پر دلائل دیے جاتے، پھر شہادت کے طور پر نشان زدہ ناول صفحہ کھول کر عدالت کے حضور پیش کر دیا جاتا۔ جسٹس قدیر الدین احمد ان شواہد پر ایک نظر ڈال کر ایک طرف ڈال دیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ناول شفیع نقی کے پڑھے ہوئے تھے۔ آخر، آخر یہ سارا ڈھیر عدالت کی میز پر منتقل ہوگیا۔ ایک موقع پر شفیع نے ایک ناول پیش کرتے ہوئے عدالت سے کہا:
’’می لارڈ! ملزم نے اِس ناول کے فلاں فلاں صفحات پر تحریر کیا ہے کہ اس کا ہیرو عمران اپنی ناک میں اسپرنگ لگا کر اپنا حلیہ تبدیل کر لیتا ہے۔ میں عدالت میں کچھ اسپرنگ لے کر آیا ہوں، معزز عدالت سے درخواست ہے کہ وہ ملزم کو حکم دے کہ ان اسپرنگز کو اپنی ناک میں لگاکر ،حلیہ تبدیل کرکے دکھائے‘‘۔
شفیع نے اپنے کوٹ کی دائیں جیب سے کچھ ایسے اسپرنگ نکالے جو اُس زمانے میں (فوم کی جگہ) صوفوں میں لگائے جاتے تھے۔ سائز میں یہ اسپرنگ بہت بڑے بڑے ہوتے تھے۔ پورا آرٹس آڈیٹوریم قہقہوں سے گونج اٹھا اور تالیوں سے تو اتنی دیر تک گونجتا رہا کہ عدالت کو ’’آرڈر… آرڈر‘‘ کہہ کر ڈسپلن بحال کرانا پڑا۔ ملزم نے اپنے کٹہرے میں بیٹھے بیٹھے وہیں سے برجستہ فقرہ کسا:
’’یہ تو آپ اونٹ کی ناک کے قابل اسپرنگ اُٹھا لائے ہیں‘‘۔
یہ سنتے ہی شفیع نے اپنے کوٹ کی بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا:
’’می لارڈ! مجھے ملزم کی اِس ذہنیت کا پہلے سے اندازہ تھا، لہٰذا میں چھوٹے اسپرنگ بھی لایا ہوں‘‘۔
اب شفیع نے بال پوائنٹ پین سے نکالے ہوئے چھوٹے چھوٹے اسپرنگز بھی میز پر ڈھیر کر دیے۔ لوگ تجسس میں تھے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ مگر ملزم کو اس مصیبت سے معزز عدالت نے، یہ کہہ کر نکال لیاکہ:
’’عدالت پہلے ان اسپرنگز کو کیمیائی تجزیے کے لیے لیبارٹری بھجوائے گی، جب ثابت ہوجائے گا کہ ان میں ملزم کی ناک کو نقصان پہنچانے والا کوئی خطرناک کیمیکل نہیں لگایا گیا ہے، تب ملزم عملی مظاہرہ کرکے دکھائے گا‘‘۔
اس رولنگ کے بعد جسٹس قدیرالدین احمد نے سارے اسپرنگ بٹور کر اپنی طرف کرلیے۔
اسی دوران میں جامعہ کے ایک خبطی طالب علم کو ابن صفی کے ’ناول زدہ نوجوان‘ کے طور پر پیش کیا گیا، جس پر دلچسپ جرح بھی کی گئی۔ اس قسم کے خبطی لڑکے ہر دور میں اور ہر تعلیمی ادارے میں مل جاتے ہیں۔
شفیع نقی نے ایک اعتراض یہ بھی پیش کیا:
’’می لارڈ! ہم جب اسکول کے زمانے میں یہ ناول پڑھتے تھے تو ابن صفی کے ناولوں کا ہیرو عمران اُس وقت بھی جوان تھا۔ جب ہم کالج میں پہنچے تب بھی وہ جوان رہا۔ اب ہم یونیورسٹی سے فارغ ہوکرعملی دنیا میں جارہے ہیں مگر عمران ہے کہ اب بھی جوان ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم بوڑھے ہو جائیں گے، مگر ابن صفی کا عمران ویسے کا ویسا ہی تنومند، توانا، جوان بلکہ نوجوان ہی رہے گا۔ می لارڈ! میں معزز عدالت کے توسط سے ملزم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر عمران بوڑھا کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
اس پر ابن صفی کے منہ سے نکل گیا: ’’اگر عمران بوڑھا ہوگیا تو مجھے کما کر کون کھلائے گا؟‘‘
یہ جواب سن کر تو شفیع نے مارے خوشی کے ایک طوفان کھڑا کر دیا:
’’نوٹ کیا جائے … می لارڈ! … نوٹ کیا جائے … ملزم نے اعترافِ جرم کر لیا ہے‘‘۔
آخر میں جسٹس قدیر الدین احمد نے ’جیوری‘ سے مشورہ کیا۔ اُن کی جیوری میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر احسان رشید اور صدر شعبۂ اُردو ڈاکٹر فرمان فتح پوری شامل تھے۔ جیوری نے مشاورت کے بعد ملزم کو ’باعزت بری‘ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس صاحب نے فیصلہ سنایا۔ اُنہوں نے اپنے فیصلے میں جو باتیں کہیں وہ بڑی دلچسپ تھیں۔ مگر اس وقت صرف دو نکات یاد رہ گئے ہیں۔
’ملزم کے اعترافِ جرم‘ کے حوالے سے اُنہوں نے کہا: ’’بعض اوقات حالات کا جبر بھی ملزم کو ’مجرم‘ نہ ہونے کے باوجود اعترافِ جرم پر مجبور کر دیتا ہے‘‘۔
اس ضمن میں اُنہوں نے اپنی حقیقی عدالت کا ایک واقعہ بطور نظیر سنایا:
’’دو جڑواں بھائیوں میں سے قتل ایک نے کیا اور دوسرا پکڑا گیا۔ عینی شاہدین نے اُسی کو مجرم کی حیثیت سے شناخت کرلیا۔ مجبوراً اُس نے اعترافِ جرم کرلیا۔ اُسے پھانسی کی سزا سنائی جانے والی تھی کہ اصل قاتل نے عدالت میں حاضر ہوکر حقیقت واضح کی اور اپنے بھائی کو پھانسی سے بچالیا‘‘۔
’غیر سائنسی اور غیر حقیقی واقعات‘ کے الزام سے متعلق بھی اُنہوں نے یہ فیصلہ دے کر ملزم کو ’باعزت بری‘ کیا کہ:
’’یہ ادبی عدالت ہے۔ اس عدالت سے سزا صرف ادب کے قوانین کی خلاف ورزی پر ہوسکتی ہے۔ سائنس کے قوانین کی خلاف ورزی پر نہیں‘‘۔
سائنسی اور ادبی قوانین میں فرق واضح کرنے کے لیے اُنہوں نے نہایت دلچسپ مثال دی:
’’ اگر آپ نباتیات کے کسی طالب علم یا استاد سے یہ سوال کریں گے کہ گلاب کا پھول سرخ کیوں ہوتا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ گلاب کا سرخ پھول دیگر تمام رنگوںکو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے، اور سرخ رنگ کو منعکس کر دیتا ہے، اس وجہ سے ہمیں سرخ نظر آتا ہے۔ لیکن یہی سوال دُنیائے شعر وسخن کے تاج دار میر تقی میرؔ سے کریں گے تو وہ اس کا جواب یوں دیں گے:
برابری کا تری گُل نے جب خیال کیا
صبا نے مار طمانچے منہ اُس کا لال کیا‘‘
اب ایسے لوگ کہاں؟ اور ایسی محفلیں کہاں؟
*
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...