1958ء میں ابنِ صفی کا ایک ناول ”وبائی ہیجان‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ وبائی ہیجان میں ابنِ صفی نے جس مسئلے کو پیش کیا ہے وہ عالمگیر ہے۔اس ناول کا تھیم Biological Weapon ہے۔ اس سے مراد ایسا ہتھیار ہے جس میں جراثیم اور زہریلے مادوں کا استعمال کیا جاتا ہو۔ جنگ کے اس طریقہ کار میں بائیولوجیکل ٹوکسن، بیکٹیریا، وائرس اور فنگی جیسے انفیکشنز کا استعمال انسانوں، جانوروں اور نباتات کو قتل کرنے میں کیاجاتا ہے۔ زندگی اور موت کے اس کھیل میں بڑی طاقتیں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال بڑی بے حسی سے کرتی ہیں اور انسانیت کی تمام حدود عبور کرجاتی ہیں۔ بظاہر مہذب نظر آنے والے یہ ممالک اقتدار اور طاقت کی ہوس میں کس حد تک گر سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان ہتھیاروں کا نشانہ زیادہ تر افریقہ اور ایشیاء کے غریب اور پسماندہ ممالک ہوتے ہیں۔ خطرناک وائرس کے ذریعے مصنوعی وبائیں پوری پوری بستیوں میں پھیلا دی جاتی ہیں اور پھران کے خاتمے کے لیے انجیکشنز اور دوائیں بھی بھاری مقدار میں تقسیم کی جاتی ہیں. گویا خود ہی قاتل خود ہی منصف۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد چند بڑی طاقتوں نے اپنی تمام تر توجہ ان حیاتیاتی ہتھیاروں پر مرکوز کر دی تھی کیوں کہ اس کے ذریعے بڑی سے بڑی آبادی کو بغیر کسی مزاحمت کے نہایت آسانی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی زہر دے کر دشمنوں کو ہلاک کرنے کا طریقہ کار قدیم زمانوں سے رائج ہے۔ اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس میں مزید تباہیاں پیدا کردی ہیں۔ اس کی حقیقی مثالیں برڈ فلو، پولیو، بلیک ڈیتھ، ہارس پاکس، SARS2.0, MERS، ایبولا، زی کا اور تازہ ترین نوول کورونا وائرس ہیں۔
ناول ”وبائی ہیجان‘‘ میں ابنِ صفی نے جس جرثومے کو وبا کا ذریعہ بتایا ہے وہ بیکٹیریا ہے۔ وبا پھیلانے کے لیے پانی کو آلودہ کرنے کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔ شہر کے کنوؤں اور واٹر سپلائی کے ٹینکوں میں مردہ جانوروں کی لاشیں پھنکوا کر بڑی آسانی سے وبا پھیلا دی جاتی ہے اور اس کام کے لیے باقاعدہ جراثیم پیشہ افراد کو ہائر کیا جاتا ہے۔ وبا کے نتیجے میں شہر کی نصف آبادی مالیخولیاتی دوروں اور واہماتی تشنج کا شکار ہوجاتی ہے۔ راہ چلتے، زینہ چڑھتے اترتے، گھروں میں رات گئے لوگ یونہی گھبرا کر بے تحاشا نکل پڑتے اور بدحواسی کے عالم میں بسوں کاروں اور ٹرکوں کی زد میں آکر ہلاک ہوجاتے۔ شہر میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ دفتر کاروبار اور روزمرہ کی زندگی ٹھپ ہو کررہ جاتی ہے۔ اس لاعلاج وبا کے تدارک کے لیے مختلف ممالک سے طبی مشن آنے لگتے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔ ناول میں وبا پھیلنے کی وجوہات اور بیکٹیریا کے بارے میں کیپٹن حمید سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سانگلو کہتا ہے:
”وبائی امراض کے جراثیم مختلف ذرائع سے ہمارے سسٹم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یا تو وہ فضا میں موجود ہوتے ہیں اور ہوا کے ساتھ ہمارے جسم میں پہنچتے ہیں یا اس پانی میں ان کا وجود ہوتا ہے، جسے ہم پیتے ہیں یا پھر کیڑے مکوڑوں کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ہم نے سارے ذرائع چھان مارے لیکن ہمیں نئے قسم کے جراثیم کہیں بھی نہ ملے۔ ایک دن میں تجربہ میں سلائڈ پر مشتبہ پانی کی چند بوندیں ڈال کر خورد بین سے ان کا جائزہ لے رہا تھا کہ کسی نے مذاقاََ اس پر ایک چٹکی نمک ڈال دیا۔ شاید اس نے ایسا کرتے وقت ڈاکٹر گوہن پر پھبتی بھی کسی تھی لیکن کیپٹن مجھے تو خدا کی قدرت کا تماشہ نظر آگیا۔ نمک کی چٹکی پڑتے ہی لاتعداد نارنجی رنگ کے ذرات سے نظر آنے لگے لیکن یہ غیر متحرک تھے۔۔۔۔ بس پھر یہیں سے ہمارے کام کا آغاز ہوا۔ نمک نہ صرف ان کے لیے سم قاتل ہے بلکہ ان کی رنگت بھی تبدیل کردیتا ہے۔ رنگت تبدیل ہونے سے قبل انہیں خوردبین سے بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ یعنی آپ انہیں صرف مردہ حالت میں دیکھ سکتے ہیں، اگر یہ زندہ ہوں تو دنیا کی طاقتور ترین خوردبین سے بھی نہیں دیکھے جاسکتے۔‘‘ (وبائی ہیجان، ص 66)
ایک دن ڈاکٹر گوہن نام کا ایک مغربی ڈاکٹر مسیحا بن کر نمودار ہوتا ہے اورعلاج کے طور پر چائے کے پانی میں نمک ملا کر پینے کا نسخہ پیش کرتا ہے۔ علاج کارگر ہوتا ہے اور گوہن راتوں رات مقبول ہوجاتا ہے۔ بیماری کا زور ٹوٹنے لگتا ہے۔ بظاہر اس ناول کا ولن سانگلو ہے جو محب وطن ہونے کا دعوی کرتا ہے اور پس منظر میں رہ کر اتنی خطرناک سازش انجام دیتا ہے لیکن ناول کا ہیرو کرنل فریدی جب اس سازش سے پردہ اٹھاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ محض ایک شخص یا گروہ کا کام نہیں بلکہ یہ ایک ایسے ملک کی سازش تھی جو اپنے حریف ملک سے نپٹنے کے لیے ایشیاء کو آلہ کار بنانا چاہتا تھا۔
”وبائی ہیجان‘‘ در اصل انسان کے سطح انسانیت سے گرجانے کی کہانی ہے۔ انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے، جب اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو بعض اوقات جنگلی جانوروں سے بھی زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ وہ مہذب اقوام جو خود کو امن کی محافظ قرار دیتی ہیں، وہی فساد فی الارض کی اصل محرک ہیں۔ ابنِ صفی نے جس وقت یہ ناول لکھا اس وقت شاید کسی نے اس اہم نکتے پر توجہ نہ دی ہو کیوں کہ اس وقت ذرائع محدود تھے۔ سازشوں کی حقیقت سے صرف سیاسی لیڈران اور پڑھا لکھا دانشور طبقہ ہی واقف ہوتے تھے لیکن آج میڈیا کی رسائی دنیا کے ہر شخص تک ہے۔ عوام بھی نسبتاََ باشعور ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ان بڑی طاقتوں کی رذالت سے تقریباََ ہر کوئی واقف ہوچکا ہے۔ ناول میں ایک موقعہ پر فریدی کہتا ہے:
”دنیا کی وہ بڑی طاقتیں جو اپنے اقتدار کے لیے رسہ کشی کررہی ہیں اس سے بھی زیادہ گِر سکتی ہیں۔ ان کے بلند بانگ نعرے جو انسانیت کا بول بالا کرنے والے کہلاتے ہیں، کتنے زہر آلود ہیں؟ اس کا اندازہ مشکل ہے۔ (وبائی ہیجان، ص 74)
ناول وبائی ہیجان کے تناظر میں کورونا وائرس کا جائزہ لیا جائے تو یہ شبہ کرنا جائز ہے کہ یہ ایک Man Made Disaster ہے۔ کورونا وائرس کا پہلا معاملہ دسمبر 2019ء میں چین کے ہوبئی صوبے کے ووہان شہر میں سامنے آیا تھا۔ وبا کی علامات میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دقت وغیرہ ہیں جو بڑھ کر نمونیہ تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ ایک زونوٹک یعنی جانوروں اور انسانوں کے درمیان منتقل ہونے والا وائرس ہے۔ تادم تحریر ڈیڑھ لاکھ افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں 9000 افراد سیریس کے زمرے میں رکھے گئے ہیں۔ وبا سے اب تک پوری دنیا میں تقریباََ ساڑھے پانچ ہزار افراد کی موت ہوچکی ہے۔ یہ تعداد 2003ء میں چین میں ہی پھیلنے والی SARS وبا سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 103 سے زائد ممالک میں پھیل جانے والی اس وبا کا علاج اب تک دریافت نہیں کیا جاسکا۔
اب آتے ہیں کورونا وائرس COVID-19 اور بائیولوجیکل ہتھیار کے ہائپوتھیسس کی طرف۔ امریکہ کی ریپبلیکن پارٹی کے ممبر، آرکنساس کے سینیٹر اور سابقہ فوجی Tom Cotton نے فوکس نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں دعوی کیا ہے کہ کورونا وائرس کسی جانور یا بازار سے پھیلنے والا وائرس نہیں بلکہ ایک خطرناک حیاتیاتی ہتھیار تھا جو ووہان کی سرکاری لیب سے لیک ہوگیا ہے۔ ووہان کی اس سرکاری تجربہ گاہ میں چینی سائنسدان پہلے سے ہی ایبولا جیسے مہلک جراثیم پر اب تک تجربے کررہے ہیں۔ نہ صرف امریکی سیاستدان بلکہ دنیا کے کئی سائنس دانوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائر س ایک جان لیوا حیاتیاتی ہتھیار تھا جو تجربے کے مرحلے میں ناکام ہوگیا اور پھر چینی سائنس دانوں کے قابو میں نہ رہا۔
”وبائی ہیجان‘‘ کے مطالعے کے بعد اس امر پہ شبہ غلط معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وبا کے ابتدائی مہینوں میں چینی حکومت نے اسے چھپانے کی بھرپور کوشش کی اور منافقانہ رویہ اپنایا جس کے نتیجے میں کورونا وائرس عذاب کی مانند پوری دنیا پر حملہ آور ہوگیا۔ علاوہ ازیں جس سرکاری تجربہ گاہ پر شبہ ظاہر کیا جارہا ہے، اسے بائیو سیفٹی لیول 4 کا درجہ حاصل ہے اور وہاں خطرناک جرثوموں پر پہ تجربہ کیا جاتا ہے۔ نیز یہ تجربہ گاہ اس بازار سے محض چند میل کی دوری پر ہے جہاں سے اس وبا کی شروعات ہوئی۔
دوسری طرف چین نے اس وبائی حملے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہونے پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان لی جیان ژاؤ نے واضح طور پر امریکہ کو اس حملے کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ چینی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ مذکورہ وائرس کو امریکی فوج چین کے شہر ”ووہان‘‘ لے کر آئی تھی۔ ”نیویارک پوسٹ‘‘ کے ایک آرٹیکل کے مطابق چینی فوج نے دعوٰی کیا ہے کہ کورونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ہے جسے اس نے چین کے خلاف استعمال کیا ہے۔ چائنیز سائنسدانوں کا دعوی ہے کہ کورونا کی تخلیق امریکی تجربہ گاہ میں ہوئی اور ووہان کو حملے کا مرکز بنانے کی وجہ اس کا ملک کے بیچوں بیچ میں ہونا ہے۔ اسی شبے کی تصدیق روس نے بھی کی ہے۔ ”دی گارڈین‘‘، جس کے مطابق چین کی بڑھتی ہوئی معیشت سے خوفزدہ ہو کر امریکہ نے چین پر بائیولوجیکل حملہ کرتے ہوئے معاشی جنگ چھیڑ دی ہے، جس نے چین کو پوری دنیا میں تنہا کردیا اور دنیا بھر کے کئی ممالک نے چین کی مصنوعات پر پابندی لگادی ہے۔ روسی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وبا کے پھیلنے کے بعد اربوں ڈالر کی ویکسین بیچ کر معاشی طاقت بحال کرنا امریکہ کی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وبا سے شدید ترین متاثر ممالک چین اور ایران دونوں امریکہ کے سخت مخالف کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ان تمام شکوک و شبہات اور دعووں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اب جنگ کرنے کا طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔ اب کھلے میدان میں تلواروں اور تیروں سے شجاعت نہیں دکھائی جاتی بلکہ پیٹھ پیچھے مکاری سے وار کر کے دشمن کو زیر کیا جاتا ہے۔ مذکورہ تمام شبہات آج سے ستر سال پہلے ابن صفی نے ناول ”وبائی ہیجان‘‘ میں صاف طور سے ظاہر کردئیے تھے۔
”یہ بڑی طاقتیں اسی طرح تو ایشیاء پر سکہ جما رہی ہیں۔ کہیں غلہ تقسیم ہورہا ہے، کہیں کپڑے بانٹے جارہے ہیں اور کہیں کسی وبا کا خاتمہ کرنے کے لیے مفت دوائیں بھاری مقدار میں تقسیم کی جارہی ہیں۔ جہاں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی وہاں بھی ضرورت پیدا کرلی جاتی ہے۔ مصنوعی قحط پیدا کیے جاتے ہیں۔ مصنوعی وبائیں پوری پوری بستیوں پر دھاوا بول دیتی ہیں اور پھر یہ فرشتے آکر ہمارے آنسو بھی پونچھتے ہیں اور ہماری دعائیں بھی لے جاتے ہیں۔ کتنا کمینہ ہے آدمی؟۔۔۔ زرا سوچو تو وہ کیا کتوں کے ساتھ بھی باندھے جانے کے لائق ہیں۔‘‘
ناول ”وبائی ہیجان‘‘ مشمولہ چاندنی کا دھواں (فریدی حمید سیریز)۔ ص 75۔ فرید بک ڈپو، جنوری 2010ء۔
ماضی میں مختلف اقسام کے حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال ہوتا چلا آرہا ہے جو نباتات اور زہریلے مادوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی سے قبل ان حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کے تین طریقے کثرت سے رائج تھے۔
× زہریلے مادوں کے ذریعے غذائی اشیاء اور پانی کومہلک بنا دینا۔
× Microbes نامی جرثومے اور Toxin (زہریلا مادہ) کے علاوہ مردہ جانوروں اور نباتات کو بطور ہتھیار استعمال کرنا۔
× انجکشن یا ٹیکہ کے ذریعے زہر کو جسم میں منتقل کرنا (حیاتیاتی زہر)
اس تیسرے طریقہ کار کا ذکر ناول ”وبائی ہیجان‘‘ میں کیا گیا ہے۔
لیکن بیسویں صدی میں جدید بیکٹیریالوجیکل تکنیکوں نے مختلف اقسام کے جرثومے، انفیکشن اور وائرل فیور وغیرہ تیار کرلیے ہیں جو حیاتیاتی جنگوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ جن میں اینتھراکس، بروسیلا اور ریبٹ فیور اہم ہیں۔
حیاتیاتی جنگوں (Biological Warfare) کی تاریخ قدیم ہے۔ ہومر کی تاریخی رزمیہ ایلیڈ اور اوڈیسی (Iliad and Odyssey) جو کہ ٹرائے (Troy) کی عظیم الشان جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے، اس میں بھی تیر اور بھالوں کو زہر میں بجھانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یونان کی پہلی Sacred War جو تقریبا 590 سال قبل مسیح لڑی گئی تھی، اس میں Kirra خیرہ نامی گاؤں کی واٹر سپلائی کو زہریلے پودوں کے زریعے آلودہ کردیا گیا تھا۔ 1710ء میں روس نے سویڈن کے ساتھ جنگ میں طاعون زدہ لاشیں دشمن ملک میں پہنچا دی تھیں۔ فرانس نے امریکہ سے جنگ کے دوران خسرہ کے جراثیم سے آلودہ کمبل قدیم امریکی باشندوں (ریڈ انڈین) میں تقسیم کروائے تھے۔ یہ حیاتیاتی جنگیں ہمیشہ کسی قسم کے پرانے زہر، مرض زدہ لاشوں اور جراثیم زدہ نباتات یا کیڑوں کے ذریعے متعارف کروائی جاتی ہیں۔ ویسے بھی جنگ اور وبا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ موجودہ وقت میں شام اور یمن کی جنگوں میں ان حیاتیاتی ہتھیاروں کا اہم کردار رہا ہے۔
مغربی ادب میں بھی حیاتیاتی جنگوں پر مبنی فکشن کی فہرست طویل ہے۔ جیک لندن کی سائنس فکشن The unparalleled Invasion(ء1910) میں ویسٹرن یونین کے ذریعے کیے گئے بائیولوجیکل حملے میں چین کا صفایا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایل رون ہبرڈ کا ناول ‘فائنل بلیک آؤٹ'(1940ء)، اسٹیفن کنگ کا ‘دی اسٹینڈ'(1978ء)، ڈین کونٹز کا ”آئیز آف ڈارک نیس (1981ء)، فرینک ہربرٹ کا ‘وہائٹ پلیگ'(1982ء)، ٹام کلانسی کا ‘ایگزیکیٹو آرڈر'(1996)، رچرڈ پریسٹن کا’ دی کوبرا ایونٹ'(1998ء)، رچرڈ پاور کا ‘آرفیو'(2013ء) اور کرس رائن کا ‘ہیل فائر'(2015ء) چند اہم ناول ہیں جن میں بیکٹیریا اور وائرس کو حیاتیاتی جنگوں کا ہتھیار بنایا گیا ہے۔ جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں تو اُردو ادب میں ابھی تک Biological Weapon کو کسی ناول کی تھیم کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ہاں طاعون جیسی قدرتی وبا کو انتظار حسین نے ”بستی‘‘ اور انیس ناگی نے ”چوہوں کی کہانی‘‘ (1995) ناول میں موضوع ضرور بنایا ہے لیکن یہ ایک مختلف چیز ہے۔
”وبائی ہیجان‘‘ ناول ابنِ صفی کی مستقبل بینی کا ثبوت ہے۔ وہ جانتے تھے کہ آنے والے پچاس سالوں میں Biological Warfare اتنی ہی آسان بات ہوجائے گی جیسا کہ بم دھماکہ کرنا۔ یہ حیاتیاتی ہتھیار جو انتہائی سرعت کے ساتھ پوری آبادی کو ختم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ان کے استعمال کی نت نئی وجوہات تلاش کرلی جائیں گی۔ جہاں دواؤں کی ضرورت نہیں بھی ہوتی ہے وہاں بھی خطرناک وائرس پھیلا کر ان کی ضرورت پیدا کرلی جائے گی۔ شمالی افریقہ میں پھیلنے والی ایبولا وبا اسکی تازہ مثال ہے جس نے ہزاروں افراد کی جان لے لی تھی۔ عراق پر Biological Deterrent رکھنے کا الزام لگا کر اس پر جنگ مسلط کردی گئی۔ چین تو ویسے بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے جوجھ رہا ہے۔ ممکن ہے کورونا وائرس کے پیچھے اس ذہنیت کا بھی ہاتھ ہو۔
ناول میں کئی ایسے مناظر ہیں جو فی الوقت کے ووہان شہر کا حال پیش کرتے ہیں۔ پورے چین میں اس وقت خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ ووہان کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں اور وہ ایک آسیب زدہ شہر معلوم ہونے لگا ہے۔ لوگ شہر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں قرنطینہ کا نفاذ کردیا گیا ہے۔ سکول کالج بند ہوچکے ہیں۔ شہروں میں سناٹے گونج رہے ہیں۔ ”وبائی ہیجان‘‘ کا ایک منظر ملاحظہ ہو:
”یہ وبا شہر کے جدید حصے میں بھی پھیلنے لگی اور پھر سڑکیں ویران ہوگئیں۔ نہ جانے کتنے حادثے ہوچکے تھے۔ لوگ چلتے چلتے گاڑیوں سے ٹکراتے اور وہ انہیں کچل کر رکھ دیتیں۔ لوگ شہر سے مضافات کی طرف بھاگنے لگے۔
ایک ہفتے کے اندرہی اندر ایسا معلوم ہونے لگا جیسے اساطیری عفریتوں نے کسی قدیم شہر کو تاراج کردیا ہو۔ حکومت کی ذمہ دار شخصیتیں بھی شہر سے ہٹ گئی تھیں اور سارے دفاتر ہٹا دیے گئے تھے۔ اس حیرت انگیز وبا نے ساری دنیا کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ مختلف ممالک سے طبی مشن آنے لگے تھے لیکن خود ان مشنوں کے افراد بھی اس وباکا شکار ہوگئے۔
ابھی تک حالات پر قابو نہیں پایا جا سکا تھا۔ بڑی بڑی طبی تجربہ گاہیں دن رات کھلی رہتیں۔ اس مرض کے متعلق چھان بین ہوتی لیکن اسے ختم کرنے کا کوئی مستقل ذریعہ ہاتھ نہ آتا نہ اس کے اسباب ہی سمجھ آتے۔‘‘ (وبائی ہیجان، ص 49)
کہا جاتا ہے کہ ادیب کا ذہن سائنس دان سے آگے چلتا ہے۔ ناول ”وبائی ہیجان‘‘ پڑھ کر ابنِ صفی کی عصری آگاہی کا معترف ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت کورونا وائرس سے ہرطرف افراتفری اور خوف کا ماحول ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس وبا کا علاج ڈھونڈنے کے لیے نئی نئی تکنیکوں کا استعمال کررہے ہیں لیکن کسی وائرس کا ویکسین تیار کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں کیوں کہ اس میں جانوروں پر آزمائش اور انسانوں پر طبی تجربے اور پھر منظوری کے مراحل بھی شامل ہوتے ہیں۔ چینی شہروں کی فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
لازوال فکشن وہی ہوتا ہے جو ہردور کے حالات کے مطابق اسی کی نمائندگی کرتا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ ”وبائی ہیجان‘‘ میں ابنِ صفی نے جس حساس مسئلے کو ادبی پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، وہ مسئلہ آج بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ جس وقت قراة العین حیدر چار ہزار سال پرانی تاریخ لکھ رہی تھیں اس وقت ابنِ صفی مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کررہے تھے۔ جب منٹو اور انتظار حسین تقسیم کی شکست خوردگی کے نوحے پڑھ رہے تھے اس وقت ابنِ صفی دوسری عالمی جنگ کے بعد پنپنے والی سازشوں کے تئیں عوام میں شعور بیدار کررہے تھے۔ اس ناول کے مطالعے کے بعد قاری حالات حاضرہ کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جنگ کے اس مہلک طریقہ کار کی وضاحت اور اس کے تباہ کن اثرات کا بیان ناول کی صورت میں کرکے ابنِ صفی نے اُردوادب میں نئی مثال قائم کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے کتنے ابنِ صفی ہیں جو کورونا وائرس کو فکشن کا موضوع بناتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...