آج – ١٥ ؍جون؍ ١٩٢٧
ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنف ،مترجم، مزاح نگار اور ممتاز پاکستانی شاعر ، اپنی غزل ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ کے لئے مشہور شاعر” اِبن انشاؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام شیر محمد اور تخلص انشاؔ تھا۔ ۱۵؍جون ۱۹۲۷ء کو ضلع جالندھر میں ایک کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۶ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔۱۹۴۷ء میں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آگئے۔۱۹۵۳ء میں ایم اے(اردو) اردو کالج، کراچی سے کیا۔ابن انشا ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنف ،مترجم، مزاح نگار اور شاعر تھے۔ ہندی ادب کا انھوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا۔۱۹۶۵ء میں روزنامہ ’انجام‘ میں ’’باتیں انشا جی‘‘ کے عنوان سے لکھتے رہے۔مطالعاتی مواد کے امور میں ابن انشا پاکستان میں یونیسکو کے نمائندے تھے۔سفرناموں، ترجموں اور شاعری پر مبنی تصنیفات اور تالیفات کا ایک وسیع ذخیرہ ابن انشا نے ہمارے ادب میں چھوڑا ہے۔ ۱۱؍جنوری۱۹۷۸ء کو ابن انشا لندن میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’چاند نگر‘،’اس بستی کے اک کوچے میں‘ (شعری مجموعے)، ’بلو کا بستہ‘ (بچوں کی نظمیں)، ’دنیا گول ہے‘، ’آوارہ گرد کی ڈائری‘، ’اردو کی آخری کتاب‘ (مزاح)، ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘، ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘ (سفرنامے)، ’سحر ہونے تک‘ (ترجمہ روسی ناول)، ’انشا جی کے خطوط‘، ’نگری نگری پھرا مسافر‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:205
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر ابن انشاؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا
—
اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے
—
آن کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو بھی توفیق ہوئی
لب پر اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدید ہوا
—
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا
—
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
—
اہلِ وفا سے ترکِ تعلق کر لو پر اک بات کہیں
کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انہیں پکارو گے
—
ایک سے ایک جنوں کا مارا اس بستی میں رہتا ہے
ایک ہمیں ہشیار تھے یارو ایک ہمیں بد نام ہوئے
—
بیکل بیکل رہتے ہو پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چرا کر دیکھ بھی لیتے بھولے بھی بن جاتے ہو
—
بے تیرے کیا وحشت ہم کو تجھ بن کیسا صبر و سکوں
تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے
—
جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے
کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے
—
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
—
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
—
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
—
میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشاؔ میر کی بیعت بھی ہے ضرور
شام کو رو رو صبح کرو اب صبح کو رو رو شام کرو
—
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
—
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
—
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر وہ کوچہ وہ مکاں یاد رہے گا
—
جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا
کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے کبھی دشتِ جنوں آباد کیا
—
بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا
اِبن انشاؔء
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ ابنِ انشاء کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...