چند ماہ قبل میں نے بارھویں صدی میں سپین میں پیدا ہونے والے اسلامی مفکر ابنِ عربی کی کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ کا سطر بہ سطر مطالعہ شروع کیا تھا۔ دیگر مصروفیات کی وجہ سے مطالعہ ابھی تک مکمل نہیں ہو پایا۔ بہرحال صفحہ نمبر 250 تک پہنچ گیا ہوں۔ یہاں رُکنے کی وجہ یہ ہے کہ احباب کے ساتھ یہ نتیجہ شیئر کیا جائے کہ کس طرح ابنِ عربی کائنات کی تخلیق سے متعلق ارسطو کی ’’استخراجی منطق‘‘ کو بروئے کار لاتے ہیں، صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ایک تو کائنات حادث ہے، دوسرا اس کی کوئی علت ہے، اور نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ کائنات کی حقیقت ’’تثلیث‘‘ ہے۔ آئیے پہلے ابنِ عربی کی عبارت کو انہی کے الفاظ میں پڑھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’اگر ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ عالم کا وجود کسی سبب سے ہےتو ہم یہ کہیں گے : ’’ہر حادث چیز کا ایک سبب ہوتا ہے۔‘‘ یہاں ہمارے پاس دو چیزیں ہوئیں: ایک حادث اور دوسرا سبب۔ پھر ہم دوسرے مقدمے میں کہیں گے: ’’یہ عالم بھی حادث ہے۔‘‘ پس حادث دونوں مقدموں میں مکرر آیا، اور تیسری عالم ہوئی، سو نتیجہ یہ نکلا کہ ’’عالم کا ایک سبب ہے۔‘‘ نتیجے میں وہی ظاہر ہوا جو کہ پہلے مقدمے میں بتایا گیا تھا۔‘‘
فصوص الحکم، صفحہ نمبر، 247
ارسطو کے اس استخراجی منطق سے ہم بخوبی واقف ہیں۔
پہلا قضیہ: تمام انسان فانی ہیں۔
دوسرا قضیہ: سقراط ایک انسان ہے۔
نتیجہ: سقراط فانی ہے۔
اب اوپر ابنِ عربی نے جو کچھ کہا وہ سب ارسطو کی منطق میں موجود ہے۔ لیکن جس اہم نکتے کی جانب میں توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، ابنِ عربی کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’اس طرح تثلیث کا حکم ان معانی کی ایجاد میں بھی ظاہر ہوا جن معانی کا شکار دلائل سے کیا جاتا ہے۔ لہذا کائنات کی اصل تثلیث ہے۔‘‘ صفحہ نمبر، 247
نکتہ قابلِ توجہ یہ ٹھہرا کہ تثلیث کا تصور جو مسیحیت سے منسوب ہے، جیسا کہ سینٹ آگسٹائن کی کتاب بعنوان ’’تثلیث‘‘ میں، وہ ارسطو کی استخراجی منطق سے ماخوذ ہے، اور یہی نکتہ بعد ازاں آگسٹائن سے پہلے پلوٹینس تشکیل دے چکا تھا،اور یہی تمام تصوف کی بنیاد ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...