1724ء میں میر قمر الدین خان نظام الملک آصف جاہ نے دکن میں آصف جاہی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو بعد میں “ریاست حیدرآباد” کے نام سے مشہور ہوئی۔ نظام الملک کے خاندان نے 224 سال تک دکن پر حکومت کی۔ نظام الملک نے جس وقت ریاست آصفیہ کی بنیاد ڈالی اس وقت ریاست کا رقبہ تقریباً دو لاکھ مربع میل تھا۔ اور وہ دریائے نربدا سے لے کر راس کماری تک پھیلی ہوئی تھی۔ خلیج بنگال کا سارا جنوب مشرقی ساحلی علاقہ اس ریاست میں شامل تھا۔ انگریزوں نے مدراس میں قدم جمانے کے بعد آہستہ آہستہ کرکے نظام سرکار کا سارا ساحلی علاقہ ہڑپ کر لیا۔ تب ریاست حیدرآباد سکڑ کر 82 ہزار مربع میل کی ایک ایسی شاندار حویلی بن گئی جسے دشمن سر زمین نے چاروں طرف سے گھیر کر حمل و نقل کے تمام راستوں پر پہرے بٹھا دئیے تھے۔
تاریخ ہند میں دولت آصفیہ کے حکمرانوں کا ایک خاص وصف رہا ہے۔ انہوں نے ہندوؤں کو حکومت کے نظم و نسق میں مسلمانوں سے پیچھے نہیں رکھا۔ چنانچہ نظام الملک نے حکومت کی شروعات ہی ایک ہندو امیر راجا رگھوناتھ داس کو وزیر مقرر کرکے کی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ خاندان آصفیہ کے 7 بادشاہ ہوئے ان کے ہندو وزیروں کی تعداد بھی 7 رہی۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہر بادشاہ کے دور میں کم از کم ایک ہندو وزارت کے عہدہ پر فائز رہ چکا تھا۔
مسلم حکمرانوں کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ رہی ہے کہ انہوں نے سماج میں مختلف مذہب کے ماننے والوں کے تناسب میں تبدیلی لانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اس سیکولر اندازِ جہاں بانی کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ ہندوؤں کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ تخت سلطنت پر کوئی ہندو دشمن حکمران بیٹھا ہوا ہے۔
1931ء کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست حیدرآباد کی جملہ آبادی 16 اور 17 ملین ( ایک کروڑ 64 لاکھ) کے درمیان تھی۔ اس آبادی کا 41 فیصد (76 لاکھ) ہندو، 36 فی صد (60 لاکھ) پست اقوام اور 18 فی صد (30 لاکھ) مسلمان تھے۔ باقی پانچ فی صد (7 لاکھ) میں سکھ، عیسائی اور پارسی شامل تھے۔
ریاست کے اندر معیشت کے تمام ذرائع پر ہندوؤں کی ہی اجارہ داری تھی۔ 1931ء کے اعداد و شمار کے مطابق زراعت میں 92 فیصد ہندو اور 8 فیصد مسلمان ، صنعت و حرفت میں 95 فیصد ہندو اور 5 فی صد مسلمان ،تجارت میں 87 فیصد ہندو اور 13 فیصد مسلمان، فوج اور پولیس میں 78 فیصد ہندو اور 22 فی صد مسلمان اور سرکاری ملازمتوں میں 68 فیصد ہندو اور 32 فیصد مسلمان تھے۔
مملکت حیدرآباد بڑی حد تک ایک فلاحی ریاست تھی۔
حکومت کے خزانے سے مذہبی اور سماجی اداروں، عبادت گاہوں اور مذہبی رسوم ادا کرنے والے افراد کو امداد اور تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ 31,372 منادر، 5191 مساجد اور 110 چرچ ریاست کے محکمہ امور مذہبی کی زیر نگرانی رقمی امداد سے چلائے جاتے تھے۔
11,355 ہندو اداروں کو سالانہ 98 ہزار روپیہ اور 5000 مسلم اداروں کو سالانہ 9400 روپیہ امداد دی جاتی تھی۔ رقمی امداد کے علاوہ مندروں کو 2 لاکھ ایکڑ زمین جاگیر میں دی گئی تھی۔ ریاست کے باہر برٹش انڈیا کے علاقوں میں بھی امداد دی جاتی تھی۔ چنانچہ مدراس کے بھدرا چلم اور چنگل پیٹھ مندر، برار میں بالاجی مندر اور شولا پور میں مہندر مندر عثمان علی خان کی ذاتی امداد سے مستفید ہوتے تھے۔
سات سو سالہ دور حکومت میں دکن کے مسلمان حکمرانوں نے سماج میں مسلمانوں کے تناسب کو بڑھانے کے لئے تبدیلی مذہب کی کوئی تحریک حکومت کی طرف سے نہیں چلائی۔ اچھوت ذاتوں کو جنہیں ہندو سماجی نظام نے انسانی برادری سے خارج کر دیا تھا، اسلام کے انسانی مساوات کا سبق پڑھایا جاتا اور انہیں سماجی عزت اور توقیر حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے تو عین ممکن تھا کہ آبادی میں ہندو مسلم تناسب کی شکل ہی بدل جاتی۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی نظیر موجود تھی۔ اشوک نے چند سال کے اندر بدھ مت کو ہندوستان کا غالب مذہب بنا دیا تھا۔
ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
“اشوک ایک کٹر مذہبی حکمران تھا۔ کیوں کہ اس نے بودھ دھرم کی تبلیغ اور توسیع کے لئے نہ صرف اپنے رشتے داروں کو مقبوضہ علاقوں کے مختلف گوشوں میں بھیجا بلکہ اپنی حکومت کے افسران کو بھی اس کام میں لگا دیا اور مزید یہ کہ سرکاری خزانے کو استعمال کیا۔۔۔ ہندوستان کی تاریخ میں کوئی راجہ، شہنشاہ ، سلطان یا بادشاہ ایسا نہیں ملتا کہ جس نے اشوک کی طرح اتنے بڑے پیمانہ پر قتل عام کیا ہو، دشمنوں کو قیدی بنایا ہو اور اپنے ذاتی مذہب کے لئے سرکاری خزانے کا استعمال کیا ہو۔”
لیکن مسلم حکمرانوں کا طرز عمل بالکل مختلف تھا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کی بقا کی خاطر بڑی ذات کے ہندوؤں سے ہاتھ ملایا۔ ان کے برابر بیٹھے اور انہیں اپنے برابر بٹھایا۔ اچھوت ہزاروں سال سے بڑی ذات کے ہندوؤں کے سایے سے دور بیٹھ رہے تھے اور ان کے مندروں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے تھے۔ مسلمانوں نے صرف اتنی مہربانی کی کہ اچھوتوں کو اپنے قدموں میں بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ ان کا چھوا پانی پینے اور کھانا کھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ کہتے ہیں کہ ٹیپو سلطان شہید کے دستر خوان پر کھانا پروسنے والا ایک اچھوت تھا۔
یہ صورت حال صرف دکن کے لئے مخصوص نہیں تھی۔ سارے ہندوستان میں پست اقوام کی سماجی بہتری کے لئے کوئی انقلابی اقدامات نہیں کئے گئے لیکن میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کے دور میں پست اقوام کی تعلیمی اور معاشی ترقی کا آغاز ہوا۔ شہری اور دیہی آبادی میں سیکڑوں مدرسے کھول دئے گئے۔
چھوٹی ذاتوں ، بڑی ذاتوں، کائستھوں، سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں نے ملکی زبان اردو کا خیر مقدم کیا۔ چھوت چھات کی پروا کئے بغیر اپنے اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنا شروع کیا۔ 10 سال کے اندر اندر نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار ہوئی جن کا مذہب مختلف تھا، عبادات کے طریقے مختلف تھے ، کھانے پینے اور رہن سہن کے انداز مختلف تھے لیکن بول چال کی زبان ایک تھی۔ اخلاقی اقدار مشترک تھے ، اورایک قومیت کا تصور پروان چڑھ رہا تھا۔
یہ وہ لوگ تھے جو کبھی ایک دوسرے کے سائے سے بھی بدکتے تھے۔ اب لنچ روم میں ایک ہی میز پر بیٹھ کر اپنے اپنے لنچ باکس کھول کر کھانے لگے تھے۔ اور یہ نسل جب عثمانیہ یونیورسٹی کی سیڑھیاں چڑھ کر میڈیسن، انجینئرنگ، سائنس اور سماجی علوم ملکی زبان میں پڑھ کر نکلی تو وہ ایک ایسی تہذیب کی علم بردار تھی جو مذہبی رواداری ، فرقہ وارانہ یک جہتی، اخلاقی یک رنگی اور معاشی تحفظ کے چار مضبوط ستونوں پر استوار تھی۔یہ خالص حیدرآبادی تہذیب تھی جو اردو تہذیب یا اردو کلچر کے نام سے سارے برٹش انڈیا میں جانی اور پہچانی جاتی تھی۔
میر عثمان علی خان نے پست اقوام کو دربار میں جگہ دی۔ ان کے لیڈروں کو دوسرے فرقہ کے لیڈروں کے برابر مقام دیا۔ عثمان علی خان کی سیکولر سیاست اور انسان دوستی نے سارے مذاہب کے ماننے والوں کے دل جیت لئے۔ وہ غیر مسلم رعایا میں اتنے ہی مقبول تھے جتنے کے مسلم رعایا میں۔
اس بات کا ثبوت سقوط حیدرآباد سے قبل انڈین یونین اور ریاست حیدرآباد کے درمیان مذاکرات سے چلتا ہے۔ 15/اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ تاج برطانیہ نے ہندوستان چھوڑنے سے پہلے دیسی ریاستوں کے سربراہوں کو اختیار دیا تھا کہ وہ آزاد رہیں یا ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک میں شرکت کر لیں۔ میر عثمان علی خان آزاد رہنا چاہتے تھے۔ دفاع، خارجہ اور مواصلات کے امور کو انڈین یونین کے حوالے کر کے ریاست کے اندرونی نظم و نسق میں خود مختار حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے اور اس بنیاد پر انڈین یونین سے معاہدہ مفاہمت (Articles of Association) کرنا چاہتے تھے۔
معاہدہ حاصل کرنے کے لئے حیدرآبادی وفد نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن گورنر جنرل ہند سے طویل مذاکرے کئے۔ گفتگو جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکی تو گورنر جنرل ہند نے استصواب عامہ (Plebiscite) کی تجویز پیش کی اور کہا کہ اس مسئلے کو جمہوری طریقہ سے حل کرنا چاہئے۔ ریاست کی ہندو اور مسلم رعایا کو یہ حق دینا چاہیے کہ وہ عوامی ووٹ کے ذریعہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ آیا وہ ہندوستان سے الحاق چاہتے ہیں یا ایک مسلم حکمران کے زیر حکومت آزاد رہنا پسند کرتے ہیں۔
وفد کے لیڈر لایق علی صاحب کے لئے یہ بڑی آزمائش کی گھڑی تھی۔ ویسے حیدرآبادی وفد استصواب عامہ کے امکان پر غور کر چکا تھا۔ چنانچہ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز کو لایق علی صاحب نے نظام حیدرآباد کی منظوری حاصل کئے بغیر فوری قبول کر لیا۔ ماؤنٹ بیٹن خوش ہو گئے کہ انہوں نے حیدرآباد کا مسئلہ حل کر لیا ہے لیکن جب حکومت ہند کو پتہ چلا کہ حیدرآبادی وفد استصواب عامہ کے لئے راضی ہو چکا ہے تو سردار پٹیل اور پنڈت نہرو دونوں تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ کیونکہ لایق علی کی طرح ان دونوں کو بھی یقین تھا کہ استصواب عامہ کا نتیجہ میر عثمان علی خان کے حق میں ہوگا۔
حکومت ہند خاص طور پر نہرو اور پٹیل اس حقیقت سے واقف تھے کہ حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس، ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج نے مل کر جو عوامی احتجاج کے بلند بانگ دعوے کئے تھے اور جسے حیدرآباد کے باہر پریس اور حکومت ہند کے ذرائع ابلاغ نے خوب اچھال کر یہ تاثر دیا تھا کہ حیدرآبادی عوام موجودہ سیاسی نظام کے خلاف اور ذمہ دارانہ حکومت (جمہوری حکومت) کے موافقت میں ہیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ مسلمانوں کے علاوہ شیڈولڈ کاسٹ کا ایک بڑا طبقہ جو اپنے لیڈر وینکٹ راؤ کے ساتھ تھا اور ہندوؤں کا ایک خاصا بڑا طبقہ جو نظام کا وفادار تھا، حکومت حیدرآباد کی مخالفت اور حکومت ہند کے موافقت میں نہ تھا۔ خاص طور پر دیہاتی عوام جن پر مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ اور ستیہ گرہ کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا تھا اور حکومت حیدرآباد کے موجودہ نظام سے وہ بالکل خوش تھے اور بادشاہ کے خلاف نہیں تھے۔ اس لحاظ سے استصواب عامہ کا نتیجہ نظام حیدرآباد کے حق میں آنے کا یقین تھا۔
لایق علی صاحب کا استصواب عامہ کے لئے تیار ہونا حیدرآباد کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔
ہندو اکثریت کی ریاست کے ایک مسلمان وزیر اعظم کا یہ جرات مندانہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ مسلم اقتدار کے دور میں راعی اور رعایا کے تعلقات کی نوعیت کیا تھا؟
برٹش انڈیا میں اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگانے والی جماعتیں ریاست حیدرآباد کی ہندو رعایا کی حق تلفی کا پروپیگنڈہ ایک عرصے سے کر رہی تھیں۔ ان کا جواب دیتے ہوئے میر عثمان علی خان کے پہلے وزیر اعظم مہاراجہ سر کرشن پرشاد بہادر نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ:
“ریاست کی بیشتر زمینوں پر ہم ہندو قابض ہیں۔ تجارت پر ہماری اجارہ داری ہے۔ صنعت و حرفت میں ہم مسلمانوں سے کئی قدم آگے ہیں اور مسلمانوں کے پاس کیا ہے؟ صرف سرکاری عہدے!!!”
کرشن پرشاد نے جو کچھ فرمایا تھا اس کا ثبوت 1931 ء کے اعداد و شمار ہیں جو شروع میں پیش کئے جا چکے ہیں۔
جہاں تک سرکاری ملازمتوں کا تعلق ہے اس میں شک نہیں کہ 18 فیصد مسلم طبقہ، فوج اور پولیس میں 22 فیصد اور سرکاری ملازمتوں میں 32 فیصد تھا۔ لیکن اس سکے کا دوسرا رخ قابل توجہ ہے۔ 41 فیصد ہندو، فوج اور پولیس کے 87 فی صد اور سرکاری ملازمتوں کے 68 فی صد حصوں پر قابض تھے۔
میر لایق علی اس بات کو جانتے تھے کہ دکن کے مسلم حکمرانوں نے خاص طور پر آصف جاہی حکمرانوں نے مذہبی بنیاد پر معاشی نا انصافی کا ارتکاب نہیں کیا۔ چنانچہ انہیں ریاست کی ہندو رعایا پر اتنا ہی اعتماد تھا جتنا کہ مسلم رعایا پر۔ اس اعتماد کی وجہ سے انہوں نے استصواب عامہ کی تجویز کو قبول کر لیا تھا۔
حکومت ہند نے فوجی طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے اگر ریاست کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ریاست کا الحاق انڈین یونین سے پرامن طریقہ پر ہو جاتا اور ریاست کے 2 لاکھ مسلم عوام کی جان کا زیاں تو نہ ہوتا۔ اگر فیصلہ میر عثمان علی خان کے حق میں ہوتا تو ایک مسلمان حاکم کی جیت نہ ہوتی بلکہ ہندو مسلم یک جہتی کی جیت ہوتی۔ وہ یک جہتی جسے پروان چڑھانے کے لئے مسلمانوں نے 700 سال تک سطح مرتفع کو دکن کو سیکولر طرز حکومت کا سبق پڑھایا تھا۔
***
ماخوذ از کتاب: ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ
تالیف: ڈاکٹر محمد مظفر الدین فاروقی۔ ناشر: انجمن ترقی اردو ہند (نئی دہلی)۔ سنہ اشاعت: 2008ء
یہ مضمون تعمیر نیوز ڈاٹ کام کے اس لِنک سے لیا گیا ہے۔