حسین زیدی کا قتل ۔۔۔۔ایک کہانی
اتوار کی رات نو بجے پاکستان کے لاکھوں انسان گھروں میں بیٹھ کر چیمپئین ٹرافی کا فائنل میچ دیکھ رہے تھے ۔پندرہ سالہ لڑکا حسین زیدی بھی کراچی ماڈل کالونی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر میں بیٹھ کر یہ میچ انجوائے کررہا تھا ،وہ بہت خوش تھا کہ پاکستان جیت رہا ہے ،تالیاں بجا رہا تھا ،مسکرا رہا تھا ،قہقہے بکھیر رہا تھا ۔اسی دوران پاکستان میچ جیت گیا ،وہ خوشی سے نعرے لگانے لگا ،کراچی کی سڑکوں اور شاہراوں پر ٓتش بازی شروع ہو گئی ،پٹاخے چلنے لگے ،جیت کی خوشی میں ابنارمل لوگ ہوائی فائرنگ کرنے لگے جیسے ہی پاکستان نے بھارت کو شکست دی ،حسین زیدی اپنے گھر کی بالکونی پر چلا گیا ،وہ جشن دیکھنا چاہتا تھا ،وہ آتش بازی دیکھنا چاہتا تھا ۔آتش بازی شروع ہو گئی اور حسین آتش بازی اور جشن کے سماں میں کھو گیا ۔حسین کے باپ کاظم رضا حسین نے بیٹے کو آواز دی ،حسین بیٹا نیچے آجاو،بیٹا ہوائی فائرنگ ہو رہی ہے ،حسین نے بالکونی سے آواز دی ،ابو کچھ لوگ موٹر سائیکلوں پر گھر کے باہر آگئے ہیں ،ان کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں اور وہ فائرنگ کررہے ہیں ،باپ نے کہا بیٹا جلدی سے نیچے آو،بس باپ کا یہ کہنا ہی تھا کہ بالکونی سے خوفناک چیخ کی آواز آئی ،پندرہ سالہ حسین کو گولی لگ گئی تھی ۔حسین کے گھر والے دوڑتے ہوئے بالکونی میں گئے تو حسین خون میں لت پت زمین پر بیحوش پڑا تھا ،اس کے پیٹ سے لہو کی ندیاں بہہ رہی تھی ،جلدی سے اسے جناح میڈیکل اسپتال لے جایا گیا ،ڈاکٹروں نے حسین کو بچانے کی بڑی کوشش کی ،لیکن حسین جان کی بازی ہار گیا ۔اس نے تڑپتے تڑپتے اپنی جان دیدی۔کیا ایسے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ،کچھ جاہلوں اور پاگل پن کا شکار لوگوں نے ایسی فائرنگ کی کہ حسین کو براہ راست گولی لگ گئی ،یہ کیا انسانیت ہے ،یہ کیا جشن ہے ،یہ ہے خوشی کے اظہار کا طریقہ ۔وہ مرگیا ،ماں باپ رو رہے ہیں ،معاشرہ بدمست ہے ،ٹی وی چینلز پر حسین کی موت کی خبر تک نظر نہیں آئی ۔شادی ہوتی ہے ،اس میں فائرنگ ہوتی ہے ،بندے مر جاتے ہیں ،خوشی غم میں بدل جاتی ہے ،زندگی موت کا روپ دھاڑ لیتی ہے ،یوم آزادی کا موقع ہو ہم جاہل لوگ ہوائی فائرنگ کرتے ہیں ،کئی انسان آزادی کی خوشی مناتے مر جاتے ہیں ،کبھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا ہے ،اسی طرح نئے سال ،عید میلادالنبی کے موقع پر کیا جاتا ہے ،ہم جشن کو موت کے رقص میں بدل دیتے ہیں ،یہ کیا روایات ہیں ،یہ کیا جشن ہے ،جشن مکے موقع کو موت میں بدل دینا کہاں کی انسانیت ہے ۔کیا کبھی اسی حوالے سے ہم نے سوچا ہے ۔ایک پندرہ سالہ بچ بھونڈے جشن کی نزر ہو گیا ،اس کے گھر میں صف ماتم ہے ،قوم کی بے حسی یہ ہے کہ حسین کی موت کا کسی کو غم نہیں ،جشن کا سماں اب بھی جاری ہے ،جشن مناو،لیکن جشن مناو،جشن کے نام پر معصوم بچوں کا قتل عام تو نہ کرو ۔بندوقوں ،کلاشنکوفوں اور پستولوں سے ہوائی فائرنگ کرکے انسانوں کو ڈرانا ،انہیں موت کا تحفہ دینا ،یہ کہاں کی مسلمانیت ہے ،لعنت ہے ایسے معاشرے پر جس کو ایک بچے کی موت کی کوئی پرواہ ہی نہیں ،خوشی کے موقع پر ایک گھر کا چراغ بجھ گیا ،حسین مر گیا ۔اگر کہا جائے کہ بھائی فائرنگ نہ کرو تو کہتے ہیں یہ صدیوں پرانی تہذیب ہے ،لعنت ہے ایسی تہذیب پر ،ایسی روایت پر جس میں بچون کا قتل عام کیا جائے ۔یہ روایت نہیں ،پاگل پن ہے ،یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بطور قوم ہم زہنی مریض لوگ ہیں ۔کیا جس گھر میں پندرہ سالہ بچ مرگیا ہے ،ان کے نقصان کا ازالہ ہو سکے گا ،قیامت تک یہ ازالہ پورا نہیں ہو سکتا ،ساری زندگی یہ گھرانہ افسردہ رہے گا ۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ شادی کی تقریب ہو ،نیا سال ہو ،یوم آزادی کا دن ہو ،یا کوئی اور خوشی کا موقع ،یہ اسلحہ کیسے نکل آتا ہے ،کیسے ہوائی فائرنگ شروع ہو جاتی ہے اور کیوں پولیس والے اور سیکیورٹی فورسز کے لوگ ان فائرنگ کرنے والے درندوں کو گرفتار نہیں کرتے ،کیوں ان سے اسلحہ نہیں چھینا جاتا ۔کیوں ،کیوں ،آخر کیوں ؟کیا اس کیوں کا کوئی جواب ہے ؟جب تک اس معاشرے سے تمام اسلحہ نہیں لیا جائے گا ،اس طرح کے گھناونے واقعات ہوتے رہیں گے ۔بھائی یہ اسلحہ ہے ،یہ کوئی کھلونا نہیں ،کہ ہر خوشی کے موقع پر فائرنگ شروع ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں گزشتی دس سالوں میں خوشی کے موقعوں پر ہوائی فائرنگ سے سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں ،کیا کبھی اس حوالے سے مربوط پالیسی بنائی گئی ہے ؟حسین کا ایک بھائی چار سال پہلے انتقال کر گیا تھا ،آٹھ سال پہلے حسین کا ایک اور بھائی بیماری کی وجہ سے مر گیا تھا ۔اب ہوائی فائرنگ کی وجہ سے پندرہ سالہ حسین زیدی بھی چلا گیا ۔اس فیملی سے پوچھیئے جس کا چراغ گل کردیا گیا ،لیکن کون حسین کے ماں باپ کو سہارا دے گا ،سب بدمست ہیں ،سب قاتل ہیں ،ہر طرف ابنارمل صورتحال ہے ،چاروں اطراف زمبیز نظر آرہے ہیں ،ریاست بھی قاتل ،معاشرہ بھی قاتل اور معاشرے کی گھٹیا روایات بھی قاتل ۔حسین کو ہم سب نے مل کر مارا ہے ،ہم سب حسین کے قاتل ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔