ہمارے کنجِ ابد عافیت میں کچھ بھی نہیں
یہ کارگاہِ عناصر یہ عالمِ ایجاد
یہ دل بھی دیکھ کہ اس خانہ باغِ ہجراں میں
وہی ہے آج بھی جاناں نظامِ بست و کشاد
—- عرفان صدیقی
صاحبان عرفان کا ایک طریقہ کار یہ رہا کہ حقیقت کے بطون سے تمثیلات اور حکایات کی دنیا کو خلق کرتے ہیں ، تصوف کی وادیوں میں گم ہو جاتے ہیں ..فرید الدین عطّار کی کتاب "منطق الطّیر کا حوالہ دوں تو ایسے لوگ محبوب کا مشاہدہ کرتے ہیں .ہمیشہ باطنی عالم کی سیر میں رہتے ہیں ..اور اس منزل تک پہچتے ہیں کہ خدا خود اپنی شانخت سے حاصل ہوتا ہے ..جلال الدّین رومی کو شمس تبریز مل گئے .عاشقانہ مکالمے ہوئے اور دنیا تبدیل ہو گیی . ہمارے افسانہ نگار نے وادئ تصوف سے عشق کی سیر کی اور لذت افسانہ کو اظہار کا وسیلہ بنا دیا .
١٩٨٠ کا زمانہ .اٹھارہ برس کی عمر .غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا. اس زمانہ میں کچھ نام ایسے تھے ، جن میں ایک مخصوص کشش محسوس کیا کرتا تھا . کچھ کہانیاں محض عنوان سے مجھے متاثر کر دیتی تھیں . یہ جدیدیت کے عروج کا زمانہ تھا . انتظار حسین مجھے پسند تھے تو عینی آپا بھی پسند تھیں . اور گیا والے حسین الحق سے جو قلبی لگاو کل محسوس کرتا تھا ، وہی آج بھی ہے .
حسین بھایی پر لکھتے ہوئے مجھے فرینز کفکا کی یاد آ رہی ہے . کفکا کے ناول مقدمہ کا اثر مجھ پر آج بھی اتنا ہی ہے جتنا ٣٥ برس قبل تھا . جوزف کے اپنی معصومیت سے اعتماد کھو دیتا ہے اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کے بارے میں مسلسل سوچتا رہتا ہے
یہ بے بسی حسین کے یہاں بھی ہے . ٹھیک کفکا کی طرح .جوزف کے سوچتا ہے :
"وہ جج کہاں ہے جس کو اس نے کبھی نہیں دیکھا۔ ہائی کورٹ کہاں ہے جہاں وہ کبھی نہیں پہنچا؟" آخر ایک سال بعد ، اپنی 31 ویں سالگرہ کے موقع پر ، جوزف کے اپنی قسمت کو موت کے حوالہ کر دیتا ہے .اس کی آنکھیں سپر پاوروں کو دیکھ سکتی تھیں ۔ فیصلہ کن لمحے کا مشاہدہ کر سکتی تھیں . اس کو ایسا لگتا تھا کہ اس کی شرم اسے زندہ رکھے گی۔ اس تخلیق کی مختلف طریقوں سے تشریح کی گئی ہے مذہبی ، وجودی ، نفسیاتی ہر طریقے سے .۔ کیا کوئی اعلی قانون ہے؟ کیا غیر منصفانہ طور پر آپ اپنی زندگی گزار سکتے ہیں؟.آج کی اکیسویں صدی میں ، مستقل نگرانی کے سائے تلے رہنا بھی ایک حقیقی خطرہ ہے ، بعض کے نزدیک یہ ایک وجودی بحران کی طرح ہے۔ کافکا کی زبان حیرت انگیز طور پر قارئین کو خوف اور نامعلوم اجنبیوں کے خلاف مایوسی کا احساس دلاتی ہے۔ یہ سسٹم ہے جس کی چیخ اسی شدت سے حسین کی مختلف کہانیوں میں بھی سنایی دیتی ہے . ١٩٨٠ کا دور تھا جب وہ جدیدیت کی لگام تھامے تھے . اور اب بھی وہ جوزف کے انکی مختلف کہانیوں میں جھانکتا ہوا نظر آتا ہے .
کالج کا زمانہ تھا . ابا چیختے ، مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے . اور میری طرف دیکھ کر کہا ، شنکر ، میری آنکھیں واپس کر .بڑا سنکٹ کا سمئے ہے .یہ حسین کی کہانی کا ایک ٹکرا تھا اور یہ حسین بھایی کے عروج کا دور بھی تھا .
حضرت رابعہؒ مکہ پہنچیں تو یاد خدا میں ڈوب گییں اور نور خدا کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی کہ ایک غیبی آواز آئی: اے رابعہ! کیا تو چاہتی ہے کہ تمام عالم تہہ و بالا ہو اور سب کا خون تیرے نامہ اعمال میں لکھا جائے . کیا تم نے جلتے ہوئے طور کی کہانی نہیں سنی ؟
حسین نے جلتے ہوئے طور کو تو نہیں دیکھا ، مگر سلگتے جلتے ہوئے ہندوستان کو دیکھا ہے اور بار بار دیکھا ہے . اور اس لئے کبھی وہ تصوف کی وادیوں کی سیر کرتے ہیں تو کبھی اماوس کے خواب تک پہنچ جاتے ہیں . حسین نہیں بدلے . حسین ہر دور میں حسین رہے . یہ نام بھی ان کی مختلف کہانیوں کا حصّہ رہا ہے .خاص کر ، جب آپ فرات کا مطالعہ کرتے ہیں .
ان کی مشہور کہانی ہے ، نیو کی اینٹ۔ شیو پوجن گیا سے نکلتا ہے اور کاشی چلاجاتا ہے۔ اور چاہے گا تو کاشی سے متھرا چلا جائے گا۔ لیکن سلامت اللہ کیا کرے، جس کو شیو پوجن نے نیو کی اینٹ سونپ دی ہے۔‘ وہ شیوپوجن سے ملتا ہے . شیو پوجن کہتا ہے کہ سی آئی ڈی والے گھوم رہے ہیں— مہربانی ہوگی اگر اس اینٹ کو وہ اپنی تحویل میں لے لے۔ سلامت اللہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ اینٹ کہاں کی ہے؟ شیوپوجن جواب دیتا ہے— نیوکی اینٹ— ایک مقدس اینٹ۔ یہ اینٹ سلامت اللہ کے گھر میں ہے اورسی آئی ڈی والوں کے خوف سے شیوپوجن کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر سے غائب ہوگیا ہے— مگر سلامت اللہ کے لیے ہزاروں جلتے اور سلگتے سوال چھوڑ گیا ہے.
بابری مسجد پر لکھی گئی ہزاروں تحریروں میں یہ کہانی مختلف اس لیے بھی ہے کہ حسین الحق کہیں بھی ہندستان میں پیدا ہونے اور مسلمان ہونے کی وجہ سے خود کو مجبور یا مظلوم محسوس نہیں کرتے۔ وہ حالات کا سامنا کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ شیو پوجن جیسے لوگ تو اس ملک میں مٹھی بھر بھی نہیں ہیں۔ اکثریت تو ان لوگوں کی ہے جو گودھرہ یا بابری مسجد جیسے حادثے پر آگے بڑھ کر اپنا احتجاج درج کرانے سے پیچھے نہیں ہٹتے— حسین نے سو برسوں کے ہندستان کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ سمجھا ہے۔ اس لیے وہ چھ دسمبر کے بعد پیدا ہوئے خوفناک ماحول کے باوجود سلامت اللہ جیسے کردار کو کمزور نہیں کرتے بلکہ نیوکی اینٹ سونپے جانے پر جو مسکراہٹ سلامت اللہ کے چہرے پر نمودار ہوتی ہے، وہ اپنی فتح کی کہانی خاموشی سے بیان کردتی ہے کہ میاں یہ نیو کی اینٹ تو ہمیشہ سے ہماری تھی— ہم تو ہزاروں برسوں، صدیوں سے اس اینٹ کا تحفظ کرتے آئے ہیں، اس لیے آج بھی کریں گے۔
خوشی ہوتی ہے جب قمر احسن ”گو لہڑ کے پھول“ لکھتے ہیں۔ حسین الحق ”گونگا بولنا چاہتا ہے“ تک پہنچتے ہیں۔ گولہڑ کا پھول بند معاشرے میں گھٹ رہی ایک مظلوم لڑکی کی داستان کوفنکاری کے ساتھ سامنے لاتا ہے حسین الحق کے افسانے کا گونگا استحصال کی علامت بن جاتا ہے . ہم ظلم وستم کی داستانوں سے اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب معاشرے میں گونگے نے بولنا بھی سیکھا ہے اورجنگ لڑنا بھی.سویی کی نوک پر رکا لمحہ حسین الحق کا افسانوی مجمع ہے .ناستلجیا سے گزرتے، سوئی کی نوک پر رکے یہ لمحات بیش قیمت ہیں . یہ کہانیاں اپنے آپ سے گزر کر زمان ومکان کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہیں۔ حسین اپنی اکثر کہانیوں میں تاریخ کو گواہ بناتے ہیں . علامتوں استعاروں کا خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں . زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے .ان کی کہانیاں وقت کا استعارہ بن کر اس دھند میں اتر گئی ہیں، جہاں انسان کو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا……
”لہو کا اک سلسلہ
طویل سلسلہ
یہ کچھ لہو جو بچ گیا ہے میرے ہاتھ میں ……
میں سوچتا ہوں، اس کا کیا کروں
خود اپنے رخ پہ پھیر لوں۔“
…… گم شدہ استعارے
حسین کی ان کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی وہ Poetic Ironyہے،جو مدہوش بھی کرتی ہے، اور نشتر بھی لگاتی ہے…… ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں نشہ بھی پیدا کرتی ہے، پھر دوسرے ہی لمحے اجڑے دیار، کا مرثیہ بیان کرتی ہوئی ہمارے ہونٹوں کو ایک بھیانک چپ دے جاتی ہے۔
حسین الحق ان لکھاڑیوں میں شامل ہیں، جہاں بیان کی ارفع سطح سے علامتیں چھن چھن کر قاری کے ذہن ودماغ کو اپنے قابو میں لے لیتی ہیں۔ یہ حسین کی کہانیوں کا طلسم ہے کہ وہ موجود سے لا محدود زمانے کے سفر کو اپنے تجربات اور اظہار وبیان کے سلیقہ سے سہل پسند بنادیتی ہیں .
ادب کا کام مداخلت کرنا بھی ہے۔ اس ملک کے کروڑوں شیوپوجن ہیں جو سرجھکائے ہاتھوں میں نیو کی اینٹ لیے اس عقدہ کو ہم سے زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ اس سے زیادہ بے انصافی نہیں ہوسکتی۔اور انصاف نہ ملنے کے باوجود ایسے کروڑوں سلامت اللہ ہیں جواب بھی نیو کی اینٹ کی حفاظت کرتے ہوئے، انصاف کی موہوم سی امید میں شیوپوجنوں، کے لیے حب الوطنی، مثالی ایکتا اور بے غرض ایثار کی علامت بن جاتے ہیں۔ اس پرآشوب موسم میں، درد مندی کے ساتھ عقل ووجدان کی روشنی میں حسین الحق قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے گئے ہیں جہاں کم از کم تاریکی کا گھنا کہرا نہیں ہے۔ نیو کی اینٹ کے بعد بھی حسین الحق کے قلم سے بے شمار خوبصورت کہانیاں چھن چھن کر نکلی ہیں .شوکت حیات کی ’گنبد کے کبوتر‘ بابری مسجد جیسے بھیانک المیہ پر مبنی کہانی ہے___ تو حسین الحق کی ’استعارہ‘ گجرات پُرامیدوں کے نئے دروازے کھولتی ہوئے محسوس ہوتی ہے۔
روسی شاعر ’رسول حمزہ توف‘ نے اپنی کتاب ’داغستان‘ میں لکھا ہے۔
”یہ مت کہنا کہ مجھے موضوع چاہئے۔
یہ کہنا،
یہ کہنا کہ مجھے آنکھیں چاہئے۔“ حسین الحق (سدھیشور بابو حاضر ہوجائیں کی مثال کافی ہے )کی کہانیاں ملک کے عروج و زوال کی کہانیاں بھی ہیں .
حسین بھایی کا ایک ناول ہے اماوس کے خواب . ناول کیی حصّوں میں تقسیم ہے….سیاست اور معاشرے کے سیل بلا خیز سے گزرتے ہوئے، ظلمت شب کی خبر لیتے ہوئے، مستقبل پر کمند ڈالنا آسان نہیں تھا.
حسین کے ناولوں میں فرات کو اہم مقام حاصل ہے. مگر یہ ناول کئی معاملوں میں مجھے فرات سے آگے نظر آتا ہے.ہندوستان کے، غلامی کے منظر نامہ سے شروع ہونے والااماوس کا خواب سیاہ رات کی صورت عالمی نقشے پر پھیل گیا ہے..پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے خوفناک اثرات سے ایک دنیا کی سیاست متاثر ہوئی..ہندوستان آزاد تو ہوا لیکن تب تک دونوں ملکوں میں تھذیبی و مذہبی تصادم کی جڑیں اپنا کردار ادا کرنے لگی تھیں. مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان نفرتیں اس حد تک بڑھ گئیں کہ سقوط بنگلہ دیش کا سانحہ سامنے آیا.اس کی زد میں بہت حد تک ہندوستان کا معاشرہ بھی آیا.حسین نے اپنے اس ناول میں اس موضوع کو بھی ہدف بنایا ہے. ہندوستان میں آزادی کی صبح لہو لہو خواب لے کر آیی تھی..جیسے جیسے وقت گزرا صبح نو کی بشارت کا خواب اماوس کی خوفناک شب میں تبدیل ہوتا گیا.. ہم طبقاتی تقسیم سے گزرے.گروہوں میں، پھر ذات پات، پھر اونچ نیچ میں تقسیم ہوئے..پھر یہ تقسیم اپنی انتہا کو پہنچ گئی– معاشرے میں تباہی و بربادی اور اخلاقی پستی کا دور شروع ہوا..اسکے پس پردہ عالمی سیاست بھی تھی.. ہماری محرومیاں اور کمیاں انسانیت سوز واقعات کو جنم دے رہی تھیں.ناول میں مکمل صورت حال کو سمجھنے کے لئے بلیغ اشارے ملتے ہیں — آزادیِ فکر، آزادیِ اظہار، اور انسانی اقدار کی بحالی اور پاسداری کے جذبے نے حسین کے لہجے کو روشن فکر اور مضبوطی دی ہے.۔انصاف و عمل کے تقاضے پورے ہوتے تو تقسیم کے بعد دونوں ممالک اس طرح لہولہان، مسائل کی آغوش میں نہ ہوتے..۔اماوس کا خواب تقسیم کے بطون سے جنما ایک ایسا خواب ہے، جہاں بدبو دار گوشت کے لوتھڑوں میں سمایے معاشرے کی چیخ نہ صرف ہم سن سکتے ہیں بلکہ برصغیر میں ہونے والی سیاست اور سیاست سے پیدا ہونے والی ہر تبدیلی کو واضح طور پر محسوس بھی کر سکتے ہیں..
ایک طرف تصوف کا دامن دوسری جانب جدید علوم سے آشنائی، لیکن ایک ادیب اورناول نگار کی سطح پر حسین سماجی حقیقت نگاری کو علامتیں بناکر زندگی کے ایسے عکاس بن جاتے ہیں کہ ان کی رواں دواں نثر کو پڑھتے ہوئے قاری کو لطف آتا ہے..مارکیز نے کیا عمدہ بات کہی ہے .میں یہ سوچنے کی جسارت کرتاہوں کہ ہبیت ناک حقیقتوں کے اظہار میں مشکل کیوں پیش آتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو کاغذی نہیں، ہمارے اندربستی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسے پابند اظہار یا ذریعے کی تلاش کا رہا ہے جو ہماری زندگیوں کی حقیقت کو قابل یقین بنانے میں ہماری مدد کرسکے۔“
ہبیت ناک حقیقتوں کے اظہار کے لئے ان حالات میں جوزف کے کا زندہ رہنا مشکل ہے . مگر حسین کی کہانیوں میں تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود جوزف کے زندہ ہے .