آپ بھلے جس قوم و قبیلہ، کسی بھی مسلک و مذہب، رنگ و نسل، زبان و علاقہ، عقیدت و عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں آپ بھلے لبرل ہوں یا سکولر، ملحد ہوں یا رسمی مذاہب کا منکر اگر ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی آپ سوچ رکھتے ہیں تو حسین آپ کے ہیں اور آپ حسین کے۔ یہ ایک آفاقی و انسانی اور اقداری رشتہ ہے۔
امام حسین پر کسی مسلک و قوم کی اجارہ داری نہیں۔ ایسی اجارہ داری فکر حسین پر کاری ضرب ہے۔ ہر وہ بات و حرکت جو لوگوں کو فکر حسین سے دور کرے چاہے وہ مجلس حسین کے نام پر ہی کیوں نہ ہو خود حضرت امام حسین کے مشن کے برخلاف ہے۔
جبکہ روایتی مخالفین تاریخ کی موشگافیوں کو اور اس کی تفصیلات کو جتنی مرضی جھٹلائیں مگر جتنا زور لگائیں وہ چھ ماہ کے بچے علی اصغر سے لے کر بوڑھے حبیب ابن مظاہر کے قتل تک، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد محض پچاس سال کے اندر ہی قرن اول کے مسلمانوں کے ہاتھوں اسی نبی کے نواسے کے خون ناحق کو نہیں جھٹلا سکتے جس نبی کا کلمہ پڑھ کر مسلمان بننے پر اتراتے تھے انہی مسلمانوں نے ہی نواسہ رسول کے گلے کاٹے۔ اس نبی کی نوسیوں کو کربلا سے کوفہ و شام تک قیدی بنا کر پھرایا گیا۔
آغوش رسالت میں بڑے ہونے والے پروردہ شریعت حضرت امام حسین کے اقدام کو اپنے خود ساختہ فقہی و قانونی قواعد و پیمانوں پر پرکھنا ہم جیسے فکری و عملی خطاکاروں کی اوقات نہیں۔
ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا سب سے بڑا آفاقی استعارہ حضرت امام حسین ہے۔ اس کی آہنگ دنیا کے ہر گوشہ و کنار میں سنائی دے رہی ہے۔ جبکہ دنیا کے سب سے بڑے پڑامن مارچ میں ڈھائی کروڑ لوگ بیک وقت کربلا میں جمع ہو کر نواسہ رسول کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
بچپن سے نوجوانی تک امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہمارا تعلق محض مسلک کی بنیاد پر قائم تھا اب تقریبا ایک دہائی سے انسانی اقدار خاص طور پر ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی بنیاد پر یہ تعلق قائم ہے۔ اب آپ کی ذات والا صفات کو ایک آفاقی نظر سے ہم دیکھتے ہیں۔ عزاداری کے بہت سے رسومات اعلانیہ چھوڑ چکے اور اکثر ان پر سخت تنقید بھی کرتے ہیں مگر جہاں بھی ہوں جلوس عزا میں انسانی فریضے کے طور پر شرکت ضرور کرتے ہیں
یہ پوسٹ نیویارک میں عاشورہ کے مرکزی جلوس کے بعد گھر پہنچ کر لکھی جا رہی ہے۔ جلوس کے اطراف سے گزرتے ہر طبقہ فکر و نسل سے وابستہ سینکڑوں لوگوں کو یہ پوچھتے دیکھا کہ یہ جلوس کیوں نکل رہا ہے؟ لوگ جواب میں ان کو بتا رہے تھے کہ کربلا میں نواسہ رسول امام حسین پر ہونے والے بے پناہ ظلم کے خلاف عالمگیر احتجاج ہے جو چودہ سو سالوں سے چل رہا ہے اور ہر ظلم کے خلاف منبع فکر و حوصلہ ہے۔ شیر خوار بچوں سے لے کر ضعیف العمر تک، مریض و صحت مند، مرد و خواتین ہر کوئی شریک ہوتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی یاد منانے کا بنیادی مقصد یہی ہے جسے سیدہ زینب و حضرت امام زین العابدین نے بطور قیدی شروع کیا تھا اور اب دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اس فریضے کو مختلف انداز میں انجام دے رہے ہیں۔