(اربعین حسینی 2018)
آج ذکر کربلا ہر گزرتے دن کے ساتھ اقوام عالم کےدل میں گھر کرتا جا رہا ہے، کل جو غریب کربلا عالم تنہائی میں ’ھل من ناصر ینصرنا‘ کی صدا بلند کررہا تھا،آج اسی صدائے استغاثہ پر لبیک کہتے ہوئے کروڑوں عشاق حسین، حر کی صورت خیام حسینی کی جانب رواں دواں ہیں اور ہر دل کی یہی پکار ہے کہ
وہ اک حسین جو تنہا کھڑا تھا مقتل میں
اب اس کے ساتھ زمانہ دیکھائی دیتا ہے
پوری دنیا سے ہزاروں میل کی مسافت طے کرکے ہر آنے والے کی یہی دلی خواہش ہو تی ہےکہ بس آقا کے در پہ حاضری نصیب ہوجائے۔
اربعین پر جانے والے علماءکرام کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے امیرالمومنین کے در پر حاضری دیتے ہیں، پھر کربلا میں امام کی زیارت کو روانہ ہوتے ہیں ۔ ’مر کز علم‘ سے ’جنت اللہ فی الارض‘ تک کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر لمحہ ذکر الہی میں غرق ہوتا ہے، اس تاحد نظر رواں عشاق حسین کے سیلاب میں کوئی تلاوت قرآن میں مشغول ہے تو کوئی ذکروورد میں ۔ یہ انسانیت کا وہ واحدمرکز ہے جہاں عقائد و مذاہب کا سنگم عیاں طور پر نظر آتا ہے، اس طویل راہ میں ہزاروں کی تعداد میں موکب(خیمہ) کا بندوبست کیاجا تاہے جہاں زائرین کے قیام و طعام اور ان کی ضرورت کا ہر سامان مہیا ہوتا ہے۔موصولہ معلومات کی بنیاد پر سنہ ۲۰۱۴ میں صرف شہر کربلا میں سات ہزار موکب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ عراقی موکب کے علاوہ۔
(Staff writers (14 December 2014). "Arbaeen pilgrimage in Iraq: 17.5 million defy threat")
مشہور ہےکہ صرف نجف تا کربلا کے اسی کلو میٹر کی مسافت میں ہی موکب اپنی خدمتیں انجام دیتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے ایسے دور سیدہ علاقوں میں زائرین کی خدمت کا سامان فراہم ملا ہے کہ جہاں نہ آدم نہ آدم زاد کا نشان ہوتا ہے ۔۔۔!
در اصل، پورے عراق میں امام حسین علیہ السلام کے زائروں کی خدمت کی جاتی ہے۔ ملک بھر میں مختلف مقامات پر لکھا یہ فقرہ’خدمۃ زوار الحسین شرف لنا‘اس بات کا مبینہ ثبوت ہے۔
اس طولانی مسافت میں چند موکب کے فاصلے سے دواکیمپ اور دیگر سہولیات کا باقاعدہ اہتمام کیاجا تا ہے۔ پورے سفر میں ایسے ایسے دلفریب مناظر دیکھنے کو ملے ہیں کہ بے ساختہ آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ہیں ۔ صاحب عمامہ علماء کرام، زائرین کے پاؤں چومتے ہیں، ان کے پاؤں سے لپٹی گرد کو آنکھوں کا سرمہ بناتےہیں۔ ننھے ننھے بچے ’ھلابیکم یا زوار‘(اے زائرین حسین! خوش آمدید!)کی صدا لگاکر خود کو خادمین امام میں شمار کرتے ہیں ۔ تھوڑی تھوڑی دوری کے فاصلے پر بچوں کی مختلف جماعتیں ’لبیک یا حسین‘ کا نعرہ لگاکر اپنے آپ کو جناب علی اصغر کی صف میں شامل کرتے ہیں ۔ ان کی معصومانہ خدمت گزاری دیکھتے ہی آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں اور ضبط کے باوجود آنسو بہہ نکلتے ہیں۔
اس سفر کےدوران جگہ جگہ شہداء کی تصاویر اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور مراجع عظام کے فرامین کا پوسٹر نصب کرنا بھی کافی موثر اقدام ثابت ہوا ہے۔ اس سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ شیعہ ایک متحرک قوم ہے اور تعمیری سوچ رکھتی ہے۔
ان راہوں میں مختلف مقامات پر مہمان نوازوں کا ایک دستہ زائروں کا پرتپاک استقبال کرتا ہے اور مکمل اہتمام کے ساتھ اپنا مہمان بناتا ہے، یوں تو عرب مہمان نواز ہوتے ہی ہیں لیکن ایسے مواقع پر ان کی ضیافت میں چنداں اضافہ ہوجا تاہے۔ ان کا کہنا ہےکہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، وہ امام حسین علیہ السلام کی بدولت ہے، لہذا وہ آپ کی زیارت کو آنے والوں پر پورے پورے سال کی کمائی خرچ کرنے میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتے۔ کہاں تک اور کن الفاظ میں ان کی خدمت گزاری کو سپرد قرطاس کیا جائے۔
عشق حسینی کا یہ قافلہ نجف اشرف سے کوچ کرتا ہے اور راہ کی مسافت طے کرکے امام حسین علیہ السلام کے حرم کی جانب رواں ہوجا تاہے۔ جوں ہی گنبد حرم نظر آتا ہے، بے ساختہ آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب امڈ پڑتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورے سفر کی تھکن لمحے بھر میں غائب ہوگئی ہو۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پورے سفر کی تھکن گنبد دیکھتے ہی غائب ہوجاتی ہے اور پورے وجود سے بس یہی صدا آتی ہے ’السلام علیک یا ابا عبد اللہ الحسین‘ اے حسین! ہمارا سلام قبول فرمائیں!
تاریخ نے بتایا ہےکہ جابر بن عبداللہ کو سب سے پہلے زائر ہونے کا شرف حاصل ہے۔آپ نابینا تھے۔ اس لئے اپنے غلام کے ہمراہ گئے۔ تاریخ چونکہ مخالف حاکموں سے عبارت ہے۔ اس لئے ان ادوار میں زیارت کرنے والوں پر سخت پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ ان کے ہاتھ پاؤں قلم کردیئے جاتے، ظالم حکمرانوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ متوکل نے تو ازحد گھناؤنی جسارت کرکے آپ کی قبر اطہر کو سطح ارض سے ملا کر اس پر ہل چلوا دیئے۔ان سخت ترین مصائب میں بھی عشق حسینی کا جذبہ سرد نہیں پڑا۔ چونکہ آپ کی شہادت سے لوگوں کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہوگئی تھی جو کبھی سرد نہیں پڑنے والی تھی۔ جب آپ کی قبر مطہر کو سطح زمین سے ملادیا گیا تو زائرین کربلا مٹی کی خوشبو سے قبر کا پتہ لگا لیتے اور یوں زیارت سے شرف باریاب ہوتے۔
) نشانہ ھا و علائم تربت امام حسین علیہ السلام (Hawzah.net:
زیارت کا سلسلہ تو کبھی منقطع نہیں ہوا۔ ہاں! وقتی طور پر وقفہ ضرور ہوچلا تھا۔ تاریخی معلومات کی بنیاد پر شیخ انصاری کے دور حیات میں بھی پیادہ روی (مشی)موجود تھی اور کچھ وقفہ بھر کے لئے زمانہ کی ستم ظریفی حائل ہوچلی تھی۔ لیکن شیخ میرزا حسین نوری طبرسی نے دوبارہ اس میں روح ڈال دی۔ آپ نے پہلے بار عید قربان پر نجف سے کربلا کا سفر کیا۔ تین روزمیں راہ کی مسافت طے کی۔ آپ کے ساتھ تقریبا تیس لوگ تھے۔اس کے بعد آپ ہر برس اباعبداللہ کی زیارت کو جاتے رہے۔آپ ۱۳۹۱ھ بمطابق ۱۹۰۱ء میں آخری دفعہ امام حسین علیہ السلام کے حرم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
(Staff writers. "The background of Arba'een rally/The importance of Najaf-Karbala rally from scholar's viewpoint")
اس کے بعد پھر تو عزاداروں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہوگیا ۔ مگر صدام کے دور اقتدار میں پیدل سفر(مشی) کی آزادی نہ تھی۔ لیکن جانے والے مخفی طور جاتے رہے۔ سنہ ۲۰۰۳ میں صدام کی موت ہوتے ہی حالات بہتری کی جانب گامزن ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ اس روحانی سفر میں تازگی آتی چلی گئی ۔
(Staff writers (14 December 2014). "Shia pilgrims flock to Karbala for Arbaeen climax")
اطلاعات کی بنیاد سنہ ۲۰۱۳ میں ۴۰ ممالک سے دوکروڑحضرات کی آمد کو درج کیا گیا ہے۔
(Dearden