الٰہی ! کون مٹا دین کی بقا کے لیے
یہ کس نے جامِ شہادت پیا وفا کے لیے
یہ کس نے کردیا قربان گھرکا گھر اپنا
یہ کس نے جان لُٹا دی تری رضا کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
ہنوز تشنہ تھی روحِ پیامِ ربِ جلیل
ہنوز تشنہ و مبہم تھی زندگی کی دلیل
ہنوز تشنۂ تکمیل تھا مذاقِ خلیل
حصولِ مقصدِ تعلیمِ انبیا کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
قیامِ فصلِ بہاراں کا کام باقی تھا
علاجِ تنگیٔ داماں کا کام باقی تھا
ابھی نقادتِ ایماں کا کام باقی تھا
شعورِ حکمتِ قرآں کی انتہا کےلیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
بھٹک رہا تھا اندھیروں میں کاروانِ رسول
اسیرِ دامِ مصائب تھا خاندانِ رسول
امیرو حاکم و سلطاں تھے دشمنانِ رسول
تحفظِ حرم و دینِ مصطفیٰ کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
اسیرِ حلقۂ دشمن تھے مہوشانِ حرم
اجڑ رہے تھے خیابان و گلستانِ حرم
بنے ہوئے تھے سیہ کار پاسبانِ حرم
حرم کی حرمت و تقدیس کی بقا کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
حیا کا نام مٹا جارہا تھا دنیا سے
وفا کانام مٹا جارہا تھا دنیا سے
خدا کا نام مٹا جا رہا تھا دنیا سے
فروغِ سنت و پابندیٔ وفا کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
فنا سے دست و گریباں تھا زندگی کا وقار
ملا رہی تھی ہوس خاک میں خودی کا وقار
سوالِ عظمتِ خاکی تھا آدمی کا وقار
عروجِ ِ آدمِ خاکی کی انتہا کےلیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے
کلام : سید فخرالدین بَلّے