حسین حقانی کیا چاہتے ہیں؟ یہ بات وہ لوگ یقیناً بہتر سمجھ سکتے ہیں جو اُن کی صحافتی اور سیاسی زندگی سے آگاہ ہیں۔ وہ دائیں بازو کے عروج میں جنم لینے والے اُن طلبا رہنماؤں میں سرفہرست تھے جو جنرل ضیاالحق کے دور میں عملی زندگی میں ابھرنا شروع ہوئے۔ ذہین اور موقع پرست شخصیت رکھنے والے حسین حقانی وقت کے ساتھ بدلنے کا فن خوب جانتے ہیں۔
1986 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں، اُن دنوں حسین حقانی ایک غیرملکی جریدے سے وابستہ تھے۔ انگلش زبان اور مشرقی علوم پر عبور نے ان کے لیے وہ در کھولے، جن سے دائیں بازو کے بیشتر دانشور محروم رہتے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ انہوں نے اوائل ایام میں ہی امریکی پالیسی سازوں سے بھی تعلقات استوار کرنا شروع کردئیے۔ جنرل ضیاالحق کا طیارہ ہوا میں پھٹنے کے بعد اُن کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اپنے آپ کو کس دھڑے میں داخل کیا جائے۔ وہ آئی جے آئی کے قیام کے دنوں میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی Image Building اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے اہل خانہ کی کردارکشی میں پیش پیش تھے۔ انہی کی سرکردگی میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے جعلی تصاویر پر مبنی فحش اشتہارات تیار ہوئے اور پھر چھوٹے جہازوں سے لاہور کی فضا میں برسائے گئے۔
1988 میں مرکز میں بے نظیر بھٹو اور پنجاب میں میاں نوازشریف حکمرانی کے ایوانوں میں پہنچے اور پنجاب مرکز تصادم کا آغاز ہوا۔ وہ اس تصادم کے کرتا دھرتا تھے۔ انہوں نے پنجاب حکومت کے لیے وہ کچھ کیا جو کوئی بھی میڈیا ایڈوائزر نہیں کرسکتا تھا۔ اُن کے اس کردار نے اُن کو اقتدار کے حلقوں میں ایک چالاک، ذہین، ہوشیار اور کارآمد شخص کے طور پر مزید متعارف کروایا۔ پنجاب میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد انہوں نے اپنی ہی Image Building کے لیے سفارتی میدان میں بھی کردار ادا کیا۔ صحافت، سیاست اور سفارت کاری کا لیبل ایسے شخص کو اس مقام تک پہنچا سکتا تھا جس کا خواب بڑے بڑے لوگ دیکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ پہلے سری لنکا میں سفیر ہوئے۔ اس وقت اُن کی پہچان میاں نوازشریف کے ذہین ساتھیوں میں ہوتی تھی۔ جبکہ پی پی پی کے حلقے بشمول محترمہ بے نظیر بھٹو، اُن کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے کہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں کا یہ کارآمد کارندہ اُن کے بھی کام آئے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ 1993 میں وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریب ترین ساتھیوں میں شامل ہوگئے۔
حسین حقانی اپنے کیریئر کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی سب سے قابل اعتماد ساتھی ناہید خان کی سب سے چھوٹی ہمشیرہ انیلا سے شادی کی۔ پہلے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری بنے اور کچھ عرصے بعد وفاقی سیکریٹری اطلاعات مقرر ہوئے۔ اس دوران اُن پر پارٹی کے اندر ترقی پسند اور اصول پرست حلقوں میں کڑی تنقید ہوئی تو انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش کی۔ یہ ملاقات طویل تھی اور یقیناً حسب روایت انہوں نے اس ملاقات کو خفیہ ڈیوائس کے ذریعے ریکارڈ بھی کیا ہوگا۔ اُن دنوں مرتضیٰ بھٹو ، بے نظیر بھٹو تصادم کا آغاز ہوچکا تھا۔ یہ ملاقات جو وزیراعظم سیکریٹریٹ میں اُن کے دفتر میں ہوئی، اُن کی اس پالیسی کا ایک اہم قدم تھی کہ پارٹی کے اندر مجھ جیسے بائیں بازو کے لوگ ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس ملاقات کی خبر کو انہوں نے اخباروں میں خود شائع کروایا۔
وہ پارٹی کے ترقی پسند اور جدوجہد کرنے والے کارکنوں سے خائف تھے اور ان سے ’’معاملات‘‘ بھی طے کرنا چاہتے تھے، جس میں راقم بھی شامل تھا۔ اس ملاقات میں انہوں نے ایک دلچسپ بات کی جو اُن کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے بڑی کارآمد ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آپ ٹھہرے جدوجہد کے لوگ، میں تو روشن دان سے ایک پرندے کی طرح داخل ہوتا ہوں اور وہیں سے واپس اڑ جاتا ہوں۔‘‘ جب اُن سے میری ملاقات کی یہ خبر شائع ہوئی تو مرحوم جہانگیر بدر نے کہا کہ ’’مسٹر گوئندی، حسین حقانی اب حکومت اور پارٹی میں اہم مقام پر ہے، اپنا کیریئر بناؤ۔‘‘ لیکن راقم کو کیریئر سے زیادہ آئیڈیل ازم کی چَس رہی ہے۔ اسی لیے چند روز بعد اُن کے ماضی کے کردار پر ایک سخت بیان داغ دیا اور یوں وہ مقاصد جو وہ میرے ذریعے حاصل کرنا چاہتے تھے، اس بیان کے بعد میں نے مکمل طور پر نابود کردئیے۔
حسین حقانی اس دوران متعدد پُراسرار سرگرمیوں میں مصروف رہے اور اس کے لیے انہوں نے ایک کمپنی بھی بنائی جو Indirect Image Building اور میڈیا پروموشن کی سروسز فراہم کرتی تھی۔ اب وہ اقتدار کے ان ایوانوں میں کافی بہتر پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ان کی دال گلنے نہیں دی۔ البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بوسٹن یونیورسٹی میں قائم ایک ایسے نئے شعبے میں نگران نامزد ہوئے جو مشرقِ وسطیٰ اور اسلام کے حوالے سے ریسرچ کا کام کرتا ہے۔ اس شعبے کی بانی میری ایک امریکی دوست نے مجھے اس شعبے کے قیام کے دوران نگران بنانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن میرے نزدیک ایسے امریکی اداروں میں ’’شان دار مواقع‘‘ حاصل کرنے کی کبھی خواہش نہیں رہی جبکہ میں نے اپنے بڑے بڑے ریٹائرڈ جرنیلوں اور سفارت کاروں کو ایسی ’’امریکی نوکریاں‘‘ حاصل کرنے کے لیے منہ سے رال ٹپکاتے دیکھا ہے کہ یہی وہ ’’در‘‘ ہیں جہاں سے مزید در کھلتے ہیں۔
حسین حقانی نے اس پلیٹ فارم سے امریکی پالیسی سازوں کے ہاں جو رسائی حاصل کی، یہ اسی کا شاخسانہ تھا کہ وہ آصف علی زرداری کی سرپرستی میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ اسی لیے تو آصف علی زرداری نے حسین حقانی کے بارے میں یہ بیان دیا ہے کہ میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا، وہ لے لیا۔ اب میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔
ہمارے عسکری اور سیاسی حکمران واشنگٹن میں رسائی کے لیے امریکہ کے ادنیٰ سے اعلیٰ اہلکاروں تک تعلقات کے لیے بڑے چھوٹے سب دروازوں سے داخل ہونے کے لیے ہروقت بے چین رہتے ہیں۔ حسین حقانی اور سابق صدر آصف علی زرداری کے بیانات اور موقف سے یہ بات اب واضح ہوگئی کہ وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر تو تھے لیکن ان کی عملی ذمہ داری پاکستانی سفیر کی حیثیت سے امریکی مفادات کی نگہبانی تھی۔ میمو سکینڈل میں اُن کا کردار اور پھر اسلام آباد سے خصوصی انتظامات کے تحت ان کا فرار، اُن کے اس کردار کی مزید تصدیق ہے۔ امریکی اپنے دشمن کو کبھی معاف اور دوست کو ناراض نہیں کرتے۔
اس سارے تناظر میں راقم بس یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ ان حسین حقانی کو اب پاکستان، اور پاکستان کے اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اب وہ اپنا نیا اور اہم کردار تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی انہیں افغان نژاد سابق امریکی سفارت کار زلمے ماموزے خلیل زاد کی طرح چن لیں۔ اور یوں وہ امریکہ میں بیٹھ کر اور کھل کر پاکستان کے ’’معاملات طے‘‘ کریں اور پھر وہ ان پاکستانی حکمرانوں کو اپنے در پر جھکنے پر مجبور کریں، جو یہ کہتے ہیں کہ اب ہم حسین حقانی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔