حُسن بیتاب ہے خود جلوہ نمائی کے لیے
از: نــصـر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ۔
ڈنمارک میں آج کل موسم غیر متوقع طور پر گرم اور خوشگوار ہے ۔ ساحلوں کی سیمی ریت پر غسلِ آفتابی کرنے والے مرد، عورتیں، نوجوان، بوڑھے غرضیکہ ہر عمر کے لوگ جسم پر چارگرہ کپڑے کی تہمت لگائے آس پاس سے بے خبر یوں لیٹے دکھائی دیتے ہیں کہ چشم تماشائی پلک نہیں جھپکتی ، سمندروں اور جھیلوں میں تیرنے، ڈبکیاں لگانے اور پھر ابھرنے کے شوقین مرد، عورتیں ، لڑکے لڑکیوں کی ٹولیاں عجیب مقناطیسی کشش رکھتی ہیں اور نظارہ کرنے والے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی کچھ ایسے ہی مناظر دکھائی دیتے ہیں ، گلیوں میں جگہ جگہ ’’ میک شفٹ بار ‘‘ اور ان پر یونیورٹیوں، کالجوں اور سکولوں کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ہجوم، بیئر و شراب نوشی کی محفلیں، اندرون شہر بہنے والی نہروں اور جھیلوں میں کشتی رانی کے مناظر اور پھر خود اپنی جلوہ نمائی کے لیے حسن کی بیتابی اور اُس کی جانب اٹھ جانے والی نظریں ۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہا جائے! یہ سب کچھ آج کل ڈنمارک میں موسم گرما کی شدت اور قدرت کی دین ہے ۔۔۔۔ میں اِس قصے کو انہی چند سطور پر ختم کرتا ہوں اور اپنے مدعا کی طرف آتا ہوں کیوں کہ رمضان کے مہینے ہم اہلِ ایمان ان نظاروں کے متحمل نہیں ہو سکتے چہ جائیکہ ان کی تفصیل پیش کی جائے اور چشم تصور سے ان کا نظارہ کیا جائے۔
آج (ہفتہ۔ ۲، جون) موسم کے رنگوں بھرے دن، ہماری بلدیہ GLADESAXE نے اپنے ہاں ایک ’’ملٹی کلچرل فیسٹیول‘‘ منایا، جس میں علاقے بھر کی پبلک لائبریریوں کے تعاون سے ’’ڈینش اور غیر ملکی ادب‘‘ کے حوالے سے ایک سیشن بھی رکھا گیا تھا۔ اس سیشن میں ڈینش ادیب و شعراء کے ساتھ ان غیر ملکی ادیبوں، شاعروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا جو اِس بلدیہ میں رہائش رکھتے اور ادب تخلیق کرتے ہیں۔ مجھے بھی اس میں مدعو کیا گیا تھا۔ ادبی سیشن میں البانیہ، ترکی، نیپال اور کچھ دوسرے ملکوں کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنی اپنی تخلیقات پیش کیں۔ کچھ نے اپنی زبان میں اور بعض نے ڈینش زبان میں۔ ایلزبیتھ نیلسن، جو کہ ڈینش عصری ادب کی ماہر مانی جاتی ہیں اور ادنی حلقوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہیں، انہوں نے معروف ڈینش ادبیہ و شاعرہ آنجہانی Tove Ditlevsen کی زندگی اور ان کی تخلیقات کے متعلق ایک جامع مقالہ پیش کیا اور ان کی نظمیں پڑھ کر سنائیں۔ اپنی باری آنے پر میں نے بھی ’’ڈنمارک میں اردو اور پاکستانی شاعروں و ادیبوں‘‘ کے حوالے سے مقالہ پیش کیا اور اپنی کچھ نظمیں اردو اور ڈینش میں بھی پیش کیں۔ میں نے بتایا کہ Tove Ditlevsen کی کئی کہانیوں کے میں نے اردو زبان میں تراجم کیے ہیں جنہیں اکادمی ادبیات، پاکستان نے اپنے سہ ماہی رسالے ’’ادبیات‘‘ کے عالمی ادب نمبر میں بطور خاص شائع کیا ہے۔ اور میں ٹووے ڈٹلیوسن کی زندگی میں ایک بار ان سے ملا بھی تھا۔ اور اس کے علاوہ میں نے معروف ڈینش فلسفی شاعر و ادیب اور محقق وِلّی سورنسن کے ایک ناول، راگناروک کا اردو میں ترجمہ بعنوان ’’دیوتاؤں کا زوال‘‘ کیا ہے اور اسی طرح بچوں کے لیے طلسماتی کہانیاں لکھنے والے عالمگیر شہرت کے حامل مصنف و شاعر ایچ۔ سی آنڈرسن کی کہانیوں کو اردو میں ڈھالا ہے اور ان کہانیوں کو رائل (ڈینش) لائبریری نے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ میں نے یہ بتایا کہ ڈنمارک ہی کے ایک ماہر لسانیات بنیامین شلز نے آج سے کم و بیش 273 سال پہلے تب کی اردو جیسے ہندوستانی کہا جاتا تھا، اس کی گرائمر کی کتاب لکھی اور شائع کی تھی اور پھر اسی طرح ایک اور ڈینش مستشرق اُوارس ابیل نے بھی 1782 میں ترپن الفاظ کے گیارہ زبانوں میں معنی پر مشتمل ایک فرہنگ مرتب کی جو کوپن ہیگن ہی سے شائع ہوئی اور اس میں اردو کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس سے پہلے ہندوستانی (اردو) کی صرف و نحو بھی لکھی تھی۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے معروف ڈینش مصنف و شاعر، سٹی ڈیلیئر کے تین ضخیم ناولوں کا اردو میں بعنوان ’’نیلاہٹ میں سفر، جولائی کے دو دن اور ڈیوڈ کی کتاب ’’ترجمہ کیا ہے جو پاکستان میں شائع ہو چکے ہیں یہ تراجم میرے چھوٹے بھائی اسد ملک نے کیے ہیں۔ اور ابھی حال ہی میں میری اہلیہ ہما نصر اور میں نے مل کر ایک جامع ڈینش اردو لغت تالیف کی ہے جس میں ڈینش زبان کے پندرہ ہزار الفاظ کے معنی اور اُن کے مترادفات دئیے گئے ہیں۔ یہ ادبی سیشن کوئی پانچ گھنٹے جاری رہا۔ اس سیشن کے موقع پر لی گئی چند فوٹو شئیر کر رہا ہوں۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“